ٹیگ کے محفوظات: حیران

جان حیران ہو گئی ہو گی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 148
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہو گی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہو گی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہو گی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی
جون ایلیا

ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے

دیوان ششم غزل 1886
کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
میر تقی میر

کیا عاشق ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جہان کے بیچ

دیوان پنجم غزل 1593
آج ہمیں بدحالی سی ہے حال نہیں ہے جان کے بیچ
کیا عاشق ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جہان کے بیچ
پایہ اس کی شہادت کا ہے عرش عظیم سے بالاتر
جو مظلوم عشق موا ہے بڑھ کر ٹک میدان کے بیچ
یوں ہی نظر چڑھ رہتی نہیں کچھ حسرت میں تو چشم سفید
دیکھی ہے ہیرے کی دمک میں اس چشم حیران کے بیچ
وہ پرکالہ آتش کا ہے صبح تلک بھڑکا بھی نہ تھا
کیا جانوں کیا پھونک دیا لوگوں نے اس کے کان کے بیچ
وعدے کرو ہو برسوں کے تم دم کا بھروسا ہم کو نہیں
کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے یاں اک پل میں اک آن کے بیچ
تبعیّت سے جو فارسی کی میں نے ہندی شعر کہے
سارے ترک بچے ظالم اب پڑھتے ہیں ایران کے بیچ
بندے خداے پاک کے ہم جو میر نہیں تو زیر فلک
پھر یہ تقدس آیا کہاں سے مشت خاک انسان کے بیچ
میر تقی میر

مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا

دیوان سوم غزل 1064
کیا رویئے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا
مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا
تربت کا میری لوحہ آئینے سے کرے ہے
یعنی کہ ان نے مجھ کو حیران کر کے مارا
بیگانہ جان ان نے کیا چوٹ رات کو کی
منھ دیکھ دیکھ میرا پہچان کر کے مارا
پہلے گلے لگایا پھر دست جور اٹھایا
مارا تو ان نے لیکن احسان کر کے مارا
اس سست عہد نے کیا کی تھی قسم مجھی سے
بہتوں کو ان نے عہد و پیمان کر کے مارا
حاضر یراق ہونا کاہے کو چاہیے تھا
مجھ بے نوا کو کیا کیا سامان کر کے مارا
کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا
مستانہ میر کو میں کیا جان کر کے مارا
میر تقی میر

صبح کی بائو نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ

دیوان دوم غزل 788
آگ سا تو جو ہوا اے گل تر آن کے بیچ
صبح کی بائو نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ
ہم نہ کہتے تھے کہیں زلف کہیں رخ نہ دکھا
اک خلاف آیا نہ ہندو و مسلمان کے بیچ
باوجود ملکیت نہ ملک میں پایا
وہ تقدس کہ جو ہے حضرت انسان کے بیچ
پاسباں سے ترے کیا دور جو ہو ساز رقیب
ہے نہ اک طرح کی نسبت سگ و دربان کے بیچ
جیسی عزت مری دیواں میں امیروں کے ہوئی
ویسی ہی ان کی بھی ہو گی مرے دیوان کے بیچ
ساتھ ہے اس سر عریاں کے یہ وحشت کرنا
پگڑی الجھی ہے مری اب تو بیابان کے بیچ
وے پھری پلکیں اگر کھب گئیں جی میں تو وہیں
رخنے پڑ جائیں گے واعظ ترے ایمان کے بیچ
کیا کہوں خوبی خط دیکھ ہوئی بند آواز
سرمہ گویا کہ دیا ان نے مجھے پان کے بیچ
گھر میں آئینے کے کب تک تمھیں نازاں دیکھوں
کبھو تو آئو مرے دیدئہ حیران کے بیچ
میرزائی کا کب اے میر چلا عشق میں کام
کچھ تعب کھینچنے کو تاب تو ہو جان کے بیچ
میر تقی میر

کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے

دیوان اول غزل 506
جوش دل آئے بہم دیدئہ گریان ہوئے
کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے
کیا چھپیں شہر محبت میں ترے خانہ خراب
گھر کے گھر ان کے ہیں اس بستی میں ویران ہوئے
کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگ نسیم
مشت پر باغ میں آتے ہی پریشان ہوئے
سبزہ و لالہ و گل ابر و ہوا ہے مے دے
ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیمان ہوئے
دیکھتے پھرتے ہیں منھ سب کا سحر آئینے
جلوہ گر ہو کہ یہ تجھ بن بہت حیران ہوئے
دعوی خوش دہنی گرچہ اسے تھا لیکن
دیکھ کر منھ کو ترے گل کے تئیں کان ہوئے
جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب
جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پئیں آب حیات
یوں تو ہم میر اسی چشمے پہ بے جان ہوئے
میر تقی میر

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے

دیوان اول غزل 491
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہورہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہورہا ہے
ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر
مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہورہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہورہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہورہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہورہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میر صاحب طوفان ہورہا ہے
میر تقی میر

ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں

دیوان اول غزل 306
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں
ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں
وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے
دبلے پنے سے تن میں مرے جان ہی نہیں
خال و خط ایسے فتنے نگاہیں یہ آفتیں
کچھ اک بلا وہ زلف پریشان ہی نہیں
ہیں جزو خاک ہم تو غبار ضعیف سے
سر کھینچنے کا ہم کنے سامان ہی نہیں
دیکھی ہو جس نے صورت دلکش وہ ایک آن
پھر صبر اس سے ہو سکے امکان ہی نہیں
خورشید و ماہ و گل سبھی اودھر رہے ہیں دیکھ
اس چہرے کا اک آئینہ حیران ہی نہیں
یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی
کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں
سجدہ اس آستاں کا نہ جس کے ہوا نصیب
وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں
کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میر
سب کچھ بجا ہے ایک گریبان ہی نہیں
میر تقی میر

اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں

دیوان اول غزل 302
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منھ سے بھی خشن ہوکر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میر بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
میر تقی میر

اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 354
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیے
تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیے
اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیے
ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے
آخر ہے اعتبارِ تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیے
جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیرِ بیابان چاہیے
سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخلِ دیوان چاہیے
ملکِ سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیے
اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیے
عرفان صدیقی

پیارے پاکستان! خدا حافظ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 201
راکھ ہوئے ارمان، خدا حافظ
پیارے پاکستان! خدا حافظ
ایک بجا ہے رات کے چہرے پر
اچھا، میری جان! خدا حافظ
رختِ سفر میں باندھ نہیں سکتا
تتلی اور گلدان! خدا حافظ
جوشِ قدح سے آنکھیں بھر لی ہیں
اشکوں کے طوفان! خدا حافظ
رات کا خالی شہر بلاتا ہے
دہکے آتش دان! خدا حافظ
میں کیا جانوں میں کس اور گیا
اے دل اے انجان خدا حافظ
مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال
حافظ کے دیوان خدا حافظ
تیرا قصبہ اب میں چھوڑ چلا
ساونت پوش مکان خدا حافظ
کالی رات سے میں مانوس ہوا
سورج کے امکان خدا حافظ
رات شرابی ہوتی جاتی ہے
اے میرے وجدان خدا حافظ
میں ہوں شہر سخن کا آوارہ
علم و قلم کی شان خدا حافظ
خود کو مان لیا پہچان لیا
اے چشمِ حیران خدا حافظ
دل منصور چراغِ طور ہوا
موسیٰ کے ارمان خدا حافظ
منصور آفاق

شہر کچھ اور بھی ویران ہوئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 189
مرحلے زیست کے آسان ہوئے
شہر کچھ اور بھی ویران ہوئے
اس لگاؤ پہ ہے اک شخص سے لاگ
تھی نئی بات کہ حیران ہوئے
وہ نظر اٹھنے لگی دل کی طرف
حادثے اب مرے ارمان ہوئے
آپ کو ہم سے شکایت کیسی
ہم تو غافل ہوئے نادان ہوئے
دل وارفتہ کی باتیں باقیؔ
یاد کر کر کے پشیمان ہوئے
باقی صدیقی