ٹیگ کے محفوظات: حیا

صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی

اس گُل بدن کی بُوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
یہ کون زندگی میں نشہ گھولنے لگا
کس کی اداے ہوش رُبا یاد آ گئی
یاد آگئے کسی کے تبسّم تراش لب
کِھلتے ہوئے کنول کی ادا یاد آ گئی
پھر دل کی دَھڑکنوں نے بِچھائی بِساطِ رقص
پھر وہ نگاہِ نغمہ سرا یاد آ گئی
گھبرا کے چاند چھپ گیا بادل کی اوٹ میں
بے ساختہ وہ جانِ حیا یاد آ گئی
تنہائیوں کی گونج نے جب بھی دیا فریب
مجھ کو شکستِ دل کی صدا یاد آ گئی
شکیب جلالی

اُونچی ہوں فصیلیں تو ہَوا تک نہیں آتی

کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصیلیں تو ہَوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے‘ نکہتِ گُل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شورِ تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں ‘ کیوں آؤں درِ اہلِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑوں سے جہاں چَھن کے ضیا تک نہیں آتی
یا جاتے ہوئے مجھ سے لپٹ جاتی تھیں شاخیں
یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی
کیا خشک ہُوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن‘ آبلہ پا تک نہیں آتی
چُھپ چُھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوتِ گُل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا!
ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی
بہتر ہے‘ پلٹ جاؤ سیہ خانہِ غم سے
اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی
شکیب جلالی

میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

وہ چہرہ پُر یقیں ہے گرد سا ہوتے ہوئے بھی
میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی
وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں رِہا ہوتے ہوئے بھی
مرے قصے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے
میں پُر احوال ہوں بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا
بہت مغرور ہوں میں خاکِ پا ہوتے ہوئے بھی
وہ چہرہ جگمگا اٹھا نشاطِ آرزو سے
وہ پلکیں اٹھ گئیں بارِ حیا ہوتے ہوئے بھی
مجھے تُو نے بدن سمجھا ہوا تھا ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا ہوتے ہوئے بھی
چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گاہے بہ گاہے
میں ان آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی
عجب وسعت ہے شہرِ عشق کی وسعت کہ مجھ کو
جنوں لگتا ہے کم بے انتہا ہوتے ہوئے بھی
اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جدا ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں
میں رمزِ عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
میری نوائیں الگ، میری دُعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے
نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے
سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس
فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے
باغ ترا باغباں ، تو ہے عبث بدگماں
مجھ کو تو اے مہرباں ، تھوڑی سی جا چاہیے
خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر
صِحنِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے
ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دُکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیے
بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے
شاعرِو، صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے
مانو مری کاظمی تم ہو بھلے آدمی
پھر وُہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے
ناصر کاظمی

سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

زِندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی
کتنی مردم شناس ہے دُنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی
کون اُٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی
بے غرض کون دل گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی
ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دُعا ہمیں سے ہوئی
سعیِٔ تجدیدِ دوستی ناصر
آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی
ناصر کاظمی

بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی

عجب صورت بنی میری صدا کی
بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی
ہمارے جرم آپ اپنی سزا ہیں
اضافی ہے سزا روزِ جزا کی
کوئی پیماں نہیں باندھا تھا لیکن
تِری باتوں میں خوشبو تھی وفا کی
عجب سی اک تڑپ تھی میرے دل میں
تری آنکھوں میں شوخی تھی حیا کی
شناساؤں سے جی گھبرا گیا ہے
ضرورت ہے کسی نا آشنا کی
نہیں ملتے اگر وہ تم سے باصرِؔ
کچھ اُن کی اور کچھ مرضی خدا کی
باصر کاظمی

خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے
وہ جس کی دید سے ہوں سیر آنکھیں
ثمر سے بھی زیادہ رَس بھرا ہے
نگاہوں میں چھپی نجمِ سحر سی
عجب بے نام سی طُرفہ حیا ہے
اسے دیکھو بہ حالِ لطف جب بھی
مثالِ مہ، پسِ باراں دھُلا ہے
کرے وہ گل نہ ایسا تو کرے کیا
سنا ہم نے بھی ہے وہ خود نما ہے
تعلّق اُس سے ماجدؔ کیا بتائیں
معانی سا جو لفظوں میں بسا ہے
ماجد صدیقی

کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 87
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو
رندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
تجھ ایسے مسیحا سے تغافل کا گلہ کیا
ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی
جلتے رہے بے صرفہ چراغوں کی طرح ہم
تو کیا، ترے کوچے کی ہوا تک نہیں آئی
کس جادہ سے گزرا ہے مگر قافلۂ عمر
آوازِ سگاں، بانگِ درا تک نہیں آئی
اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر
کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی
دعوائے وفا پر بھی طلب دادِ وفا کی
اے کشتۂ غم تجھ کو حیا تک نہیں آئی
جو کچھ ہو فراز اپنے تئیں، یار کے آگے
اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں آئی
احمد فراز

میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 63
وہ چہرہ پُر یقیں ہے گرد سا ہوتے ہوئے بھی
میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی
وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں رِہا ہوتے ہوئے بھی
مرے قصے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے
میں پُر احوال ہوں بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا
بہت مغرور ہوں میں خاکِ پا ہوتے ہوئے بھی
وہ چہرہ جگمگا اٹھا نشاطِ آرزو سے
وہ پلکیں اٹھ گئیں بارِ حیا ہوتے ہوئے بھی
مجھے تُو نے بدن سمجھا ہوا تھا ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا ہوتے ہوئے بھی
چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گاہے بہ گاہے
میں ان آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی
عجب وسعت ہے شہرِ عشق کی وسعت کہ مجھ کو
جنوں لگتا ہے کم بے انتہا ہوتے ہوئے بھی
اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جدا ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں
میں رمزِ عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 21
دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 68
بچتے ہیں اس قدر جو اُدھر کی ہوا سے ہم
واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم
افشائے رازِ عشق میں ضرب المثل ہے وہ
کیوں کر غبار دل میں نہ رکھیں صبا سے ہم
چلتے ہیں مے کدے کو کہاں یہ عزیز واں
رخصت تو ہو لیں کبر و نفاق و ریا سے ہم
اے جوشِ رشکِ قربِ عدو، اب تو مت اٹھا
بیٹھے ہیں دیکھ بزم میں کس التجا سے ہم
ہے جامہ پارہ پارہ، دل و سینہ چاک چاک
دیوانہ ہو گئے گلِ جیبِ قبا سے ہم
کیا جانتے تھے صبح وہ محشر قد آئے گا
شامِ شبِ فراق نہ مرتے بلا سے ہم
ہر بات پر نگاہ ہماری ہے اصل پر
لیتے ہیں مشکِ زخم کو زلفِ دوتا سے ہم
بے گانہ جب سے یار ہوا ہے، رقیب ہے
اُمید قطع کر چکے ہر آشنا سے ہم
بلبل یہ کہہ رہی ہے سرِ شاخسار پر
بدمست ہو رہے ہیں چمن کی ہوا سے ہم
کم التفات ہم سے سمجھتے ہیں اہلِ بزم
شرمندہ ہو گئے تری شرم و حیا سے ہم
ہاں شیفتہ پھر اس میں نصیحت ہی کیوں نہ ہو
سنتے ہیں حرفِ تلخ کو سمعِ رضا سے ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 65
مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
دشنام بھی سنی نہ تمہاری زبان سے
ہے کوستی اثر کو دعا اور دعا کو ہم
افغانِ چرس رس کی لپٹ نے جلا دیا
نامے کو ڈھونڈتی ہے صبا اور صبا کو ہم
لاتا ہے ظنِ نیم تبسم سے جوش میں
دل کو قلق، قلق کو بُکا اور بُکا کو ہم
درماں مریضِ غم کا ترے کچھ نہ ہو سکا
چھیڑے ہے چارہ گر کو دوا اور دوا کو ہم
پھر کیوں نہ دیکھنے سے عدو کے ہو منفعل
پھر اس کو دوکھتی ہے حیا اور حیا کو ہم
ہیں جاں بلب کسی کے اشارے کی دیر ہے
دیکھے ہے اس نگہ کو قضا اور قضا کو ہم
ہے آرزوئے شربتِ مرگ اب تو شیفتہ
لگتی ہے زہر ہم کو شفا اور شفا کو ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 45
دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ
تمہاری بزم میں افسردہ مَیں نہ بیٹھوں گا
نسیم باغ میں چالاک ہے، صبا گستاخ
کہاں ہے غیرتِ شوخی کہ جائے غیرت ہے
نگاہِ یار سے ہر وقت ہے حیا گستاخ
سفیہ جیسے کہ خدمت سے چل نکلتے ہیں
غرورِ مہر و وفا نے مجھے کیا گستاخ
لبوں سے جان ہے گستاخ ذوقِ بے حد سے
زبانِ بوسہ مجھے تو نے کیوں کہا گستاخ
قبول کیوں نہ ہوئی خواہشِ ہم آغوشی
کہ آشناؤں سے ہوتے ہیں آشنا گستاخ
عنانِ ضبط کوئی شیفتہ سے تھمتی ہے
کہ ہر کرشمہ ہے چالاک و ہر ادا گستاخ
مصطفٰی خان شیفتہ

تلون سے ہے تم کو مدعا کیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 33
کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
تلون سے ہے تم کو مدعا کیا
کبھی مجھ پر عتابِ بے سبب کیوں
کبھی بے وجہ غیروں سے وفا کیا
کبھی محفل میں وہ بے باکیاں کیوں
کبھی خلوت میں یہ شرم و حیا کیا
کبھی تمکینِ صولت آفریں کیوں
کبھی الطافِ جرات آزما کیا
کبھی وہ طعنہ ہائے جاں گزا کیوں
کبھی یہ غمزہ ہائے جاں فزا کیا
کبھی شعروں سے میرے نغمہ سازی
کبھی کہنا کہ یہ تم نے کہا کیا
کبھی بے جرم یہ آزردہ ہونا
کہ کیا طاقت جو پوچھوں میں "خطا کیا”
کبھی اس دشمنی پر بہرِ تسکیں
پئے ہم جلوہ ہائے دلربا کیا
یہ سب طول اس نے سن کر بے تکلف
جواب اک مختصر مجھ کو دیا کیا
ابھی اے شیفتہ واقف نہیں تم
کہ باتیں عشق میں ہوتی ہیں کیا کیا
مصطفٰی خان شیفتہ

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 245
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے
قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگرِان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 239
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی

دیوان ششم غزل 1894
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغ سودا کی ہے سر سے
بہار اب ہے جنوں کی ابتدا کی
نہ ہو گلشن ہمارا کیونکے بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حر عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انھیں نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی
ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی
پیام اس گل کو پہنچا پھر نہ آئی
نہ خوش آئی میاں گیری صبا کی
سبب حیرت کا ہے اس کا توقف
سبک پا واں یہ اب تک کیا کیا کی
جفائیں سہیے گا کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی
جواں ہونے کی اس کے آرزو تھی
سو اب بارے ہمیں سے یہ جفا کی
گیا تھا رات دروازے پر اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی
لگا کہنے کہ یہ تو ہم نشیناں
صدا ہے دل خراش اس ہی گدا کی
رہا تھا دیکھ پہلے جو نگہ کر
ہمارے میر دل میں ان نے جا کی
ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی
میر تقی میر

سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے

دیوان ششم غزل 1884
بے لطف یار ہم کو کچھ آسرا نہیں ہے
سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے
سن عشق جو اطبا کرتے ہیں چشم پوشی
جانکاہ اس مرض کی شاید دوا نہیں ہے
جس آنکھ سے دیا تھا ان نے فریب دل کو
اس آنکھ کو جو دیکھا اب آشنا نہیں ہے
جب دیکھو آئینے کو تب روبرو ہے اس کے
بے چشم و رو اسے کچھ شرم و حیا نہیں ہے
میں برگ بند اگرچہ زیر شجر رہا ہوں
فقر مکب سے لیکن برگ و نوا نہیں ہے
شیریں نمک لبوں بن اس کے نہیں حلاوت
اس تلخ زندگی میں اب کچھ مزہ نہیں ہے
اعضا گداز ہوکر سب بہ گئے ہیں میرے
ہجراں میں اس کے مجھ میں اب کچھ رہا نہیں ہے
سن سانحات عشقی ہنس کیوں نہ دو پیارے
کیا جانو تم کسو سے دل ٹک لگا نہیں ہے
دل خوں جگر کے ٹکڑے جب میر دیکھتا ہوں
اب تک زباں سے اپنی میں کچھ کہا نہیں ہے
میر تقی میر

جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ

دیوان ششم غزل 1870
مرتے ہیں ہم تو اس صنم خودنما کے ساتھ
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ
دیکھیں تو کار بستہ کی کب تک کھلے گرہ
دل بستگی ہے یار کے بند قبا کے ساتھ
اے کاش فصل گل میں گئی ہوتی اپنی جان
مل جاتی یہ ہوا کوئی دن اس ہوا کے ساتھ
مدت ہوئی موئے گئے ہم کو پر اب تلک
اڑتی پھرے ہے خاک ہماری صبا کے ساتھ
ہم رہتے اس کے محو تو وہ کرتا ہم کو سہو
ہرگز وفا نہ کرنی تھی اس بے وفا کے ساتھ
کیفیت آشنا نہیں اس مست ناز کی
معشوق ورنہ کون ہے اب اس ادا کے ساتھ
منھ اپنا ان نے عکس سے اپنے چھپا لیا
دیکھا نہ کوئی آئینہ رو اس حیا کے ساتھ
ٹھہرا ہے رونا آٹھ پہر کا مرا علاج
تسکین دل ہے یعنی کچھ اب اس دوا کے ساتھ
تھا جذب آگے عشق سے جو ہر نفس میں میر
اب وہ کشش نہیں ہے سحر کی دعا کے ساتھ
میر تقی میر

وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں

دیوان ششم غزل 1853
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بودو باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بدخواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میر کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
میر تقی میر

دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ

دیوان پنجم غزل 1723
بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ
دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ
ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و زشت سے
کیا آئینہ کرے ہے بسر یاں حیا کے ساتھ
گو دست لطف سر سے اٹھا لے کوئی شفیق
دل کا لگائو اپنا ہے دست دعا کے ساتھ
تدبیر دوستاں سے ہے بالعکس فائدہ
ہے درد عاشقی کو خصومت دوا کے ساتھ
کی کشتی اس کی پاک زبردست عشق نے
جن نے ملائے ہاتھ ٹک ایک اس بلا کے ساتھ
اوباش لڑکوں سے تو بہت کرچکے معاش
اب عمر کاٹیے گا کسو میرزا کے ساتھ
کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میر
آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ
میر تقی میر

کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف

دیوان پنجم غزل 1651
دیکھ نہ ہر دم اے عاشق قاتل کی تیغ جفا کی طرف
کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف
چار طرف سے نزول حوادث جاؤں کدھر تنگ آیا ہوں
غالب ہے کیا عہد میں میرے اے دل رنج و عنا کی طرف
آوے زمانہ جب ایسا تو ترک عشق بتاں کا کر
چاہیے بندہ قصد کرے جانے کا اپنے خدا کی طرف
قحط مروت اب جو ہوا ہے کس کو دماغ بادہ کشی
ابر آیا سبزہ بھی ہوا کرتا نہیں کوئی ہوا کی طرف
ظلم و ستم سے جور و جفا سے کیا کیا عاشق مارے گئے
شہر حسن کے لوگوں میں کرتا نہیں کوئی وفا کی طرف
شام و سحر ہے عکس سے اپنے حرف و سخن اس گلرو کو
پشت پا سے نگاہ اٹھالی چھوڑی ان نے حیا کی طرف
ہاتھ کسی کا دیکھتے رہیے گاہے ہم سے ہو نہ سکا
اپنی نظر اے میر رہی ہے اکثر دست دعا کی طرف
میر تقی میر

اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط

دیوان پنجم غزل 1641
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط
اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط
گل ہو کے برگ برگ ہوئے پھر ہوا ہوئے
رکھتے ہیں اس چمن کے جو غنچے صبا سے ربط
زنہار پشت پا سے نہیں اٹھتی اس کی آنکھ
اس چشم شرمگیں کو بہت ہے حیا سے ربط
شاید اسی کے ہاتھ میں دامن ہو یار کا
ہو جس ستم رسیدہ کو دست دعا سے ربط
کرتی ہے آدمی کو دنی صحبت فقیر
اچھا نہیں ہے میر سے بے تہ گدا سے ربط
میر تقی میر

روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے

دیوان چہارم غزل 1494
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے
غیرت عشق کسو وقت بلا تھی ہم کو
تھوڑی آزردگی میں ترک وفا کرتے تھے
دل کی بیماری سے خاطر تو ہماری تھی جمع
لوگ کچھ یوں ہی محبت سے دوا کرتے تھے
جب تلک شرم رہی مانع شوخی اس کی
تب تلک ہم بھی ستم دیدہ حیا کرتے تھے
مائل کفر جوانی میں بہت تھے ہم لوگ
دیر میں مسجدوں میں دیر رہا کرتے تھے
آتش عشق جہاں سوز کی لپٹیں تھیں قہر
دل جگر جان درونے میں جلا کرتے تھے
اب تو بیتابی دل نے ہمیں بٹھلا ہی دیا
آگے رنج و تعب عشق اٹھا کرتے تھے
اٹھ گئے پر مرے تکیے کو کہیں گے یاں میر
درد دل بیٹھے کہانی سی کہا کرتے تھے
میر تقی میر

پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ

دیوان چہارم غزل 1482
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے ہیں
بیماری دلی کی شاید نہیں دوا کچھ
وارفتہ ہے گلستاں اس روے چمپئی کا
ہے فصل گل پہ گل کا اب وہ نہیں مزہ کچھ
وہ آرسی کے آگے پہروں ہے بے تکلف
منھ سے ہمارے اس کو آتی نہیں حیا کچھ
دل ہی کے غم میں گذرے دس دن جو عمر کے تھے
اچرج ہے اس نگر سے جاتا نہیں دہا کچھ
منھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرف سے کیا کچھ
دل لے فقیر کا بھی ہاتھوں میں دل دہی کر
آجائے ہے جہاں میں آگے لیا دیا کچھ
یاروں کی آہ و زاری ہووے قبول کیوں کر
ان کی زباں میں کچھ ہے دل میں ہے کچھ دعا کچھ
ساری وہی حقیقت ملحوظ سب میں رکھیے
کہیے نمود ہووے جو اس کے ماسوا کچھ
حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ
کب تک یہ بدشرابی پیری تو میر آئی
جانے کے ہو مہیا اب کر چلو بھلا کچھ
میر تقی میر

آجاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم

دیوان چہارم غزل 1441
عشق بتوں سے اب نہ کریں گے عہد کیا ہے خدا سے ہم
آجاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم
گریۂ خونیں ٹک بھی رہے تو خاک سی منھ پر اڑتی ہے
شام و سحر رہتے ہیں یعنی اپنے لہو کے پیاسے ہم
اس کی نہ پوچھو دوری میں ان نے پرسش حال ہماری نہ کی
ہم کو دیکھو مارے گئے ہیں آکر پاس وفا سے ہم
چپکے کیا انواع اذیت عشق میں کھینچی جاتی ہے
دل تو بھرا ہے اپنا تو بھی کچھ نہیں کہتے حیا سے ہم
کیا کیا عجز کریں ہیں لیکن پیش نہیں کچھ جاتا میر
سر رگڑے ہیں آنکھیں ملیں ہیں اس کے حنائی پا سے ہم
میر تقی میر

ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب

دیوان چہارم غزل 1358
خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب
ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب
خیال رکھیے نہ سرکشی کا سنو ہو صاحب کہ پیری آئی
خمیدہ قامت بہت ہوا ہے جھکائے سر ہی رہا کرو اب
کہاں ہے طاقت جو میر کا دل سب ان بلائوں کی تاب لاوے
کرشمے غمزے کو ناز سے ٹک ہماری خاطر جدا کرو اب
میر تقی میر

سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں

دیوان دوم غزل 905
لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں
سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں
ہر آن کیا عوض ہے دعا کا بدی ولے
تم کیا کرو بھلے کا زمانہ رہا نہیں
روے سخن جو ہے تو مرا چشم دل کی اور
تم سے خدانخواستہ مجھ کو گلہ نہیں
تلوار ہی کھنچا کی ترے ہوتے بزم میں
بیٹھا ہے کب تو آ کے کہ فتنہ اٹھا نہیں
مل دیکھے ایسے دلبر ہرجائی سے کوئی
بے جا نہیں ہے دل جو ہمارا بجا نہیں
ہو تم جو میرے حیرتی فرط شوق وصل
کیا جانو دل کسو سے تمھارا لگا نہیں
آئینے پر سے ٹک نہیں اٹھتی تری نظر
اس شوق کش کے منھ سے تجھے کچھ حیا نہیں
رنگ اور بو تو دلکش و دلچسپ ہیں کمال
لیکن ہزار حیف کہ گل میں وفا نہیں
تیرستم کا تیرے ہدف کب تلک رہوں
آخر جگر ہے لوہے کا کوئی توا نہیں
ان نے تو آنکھیں موند لیاں ہیں ادھر سے واں
ایک آدھ دن میں دیکھیے یاں کیا ہے کیا نہیں
اٹھتے ہو میر دیر سے تو کعبے چل رہو
مغموم کاہے کو ہو تمھارے خدا نہیں
میر تقی میر

پلک سے پلک آشنا ہی نہیں

دیوان دوم غزل 900
فراق آنکھ لگنے کی جا ہی نہیں
پلک سے پلک آشنا ہی نہیں
گلہ عشق کا بدو خلقت سے ہے
غم دل کو کچھ انتہا ہی نہیں
محبت جہاں کی تہاں ہوچکی
کچھ اس روگ کی بھی دوا ہی نہیں
دکھایا کیے یار اس رخ کا سطح
کہیں آرسی کو حیا ہی نہیں
وہ کیا کچھ نہیں حسن کے شہر میں
نہیں ہے تو رسم وفا ہی نہیں
چمن محو اس روے خوش کا ہے سب
گل تر کی اب وہ ہوا ہی نہیں
نہیں دیر اگر میر کعبہ تو ہے
ہمارے کوئی کیا خدا ہی نہیں
میر تقی میر

شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا

دیوان دوم غزل 675
کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا
ہے ابر کی چادر شفقی جوش سے گل کے
میخانے کے ہاں دیکھیے یہ رنگ ہوا کا
بہتیری گرو جنس کلالوں کے پڑی ہے
کیا ذکر ہے واعظ کے مصلیٰ و ردا کا
مرجائے گا باتوں میں کوئی غمزدہ یوں ہی
ہر لحظہ نہ ہو ممتحن ارباب وفا کا
تدبیر تھی تسکیں کے لیے لوگوں کی ورنہ
معلوم تھا مدت سے ہمیں نفع دوا کا
ہاتھ آئینہ رویوں سے اٹھا بیٹھیں نہ کیونکر
بالعکس اثر پاتے تھے ہم اپنی دعا کا
آنکھ اس کی نہیں آئینے کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا
برسوں سے تو یوں ہے کہ گھٹا جب امنڈ آئی
تب دیدئہ تر سے بھی ہوا ایک جھڑاکا
آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی
جس خاک پہ ہو گا اثر اس کی کف پا کا
تلوار کے سائے ہی میں کاٹے ہے تو اے میر
کس دل زدہ کو ہوئے ہے یہ ذوق فنا کا
میر تقی میر

دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

دیوان اول غزل 456
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول
شرمندئہ اثر تو ہماری دعا نہ تھی
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی
آئی پری سی پردئہ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی
اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی
میر تقی میر

اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو

دیوان اول غزل 392
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو
کام لے یار سے جو جذب رسا رکھتا ہو
یا کوئی آئینہ ساں دست دعا رکھتا ہو
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
کریے تدبیر جو یہ درد دوا رکھتا ہو
میں نے آئینہ صفت در نہ کیا بند غرض
اس کو مشکل ہے جو آنکھوں میں حیا رکھتا ہو
ہائے اس زخمی شمشیر محبت کا جگر
درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہو
اس سے تشبیہ تو دیتے ہیں یہ ناشاعر لیک
سیب کچھ اس ذقن آگے جو مزہ رکھتا ہو
آوے ہے پہلے قدم سر ہی کا جانا درپیش
دیکھتا ہو جو رہ عشق میں پا رکھتا ہو
ایسے تو حال کے کہنے سے بھلی خاموشی
کہیے اس سے جو کوئی اپنا کہا رکھتا ہو
کیا کرے وصل سے مایوس دل آزردہ جو
زخم ہی یار کا چھاتی سے لگا رکھتا ہو
کب تلک اس کے اسیران بلا خانہ خراب
ظلم کی تازہ جو ہر روز بنا رکھتا ہو
ایک دم کھول کے زلفوں کی کمندوں کے تئیں
مدتوں تک دل عاشق کو لگا رکھتا ہو
گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
میر تقی میر

لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم

دیوان اول غزل 284
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جی کے مر گئے ہوتے بلا سے ہم
چھوٹا نہ اس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایان کار مارے گئے اس ادا سے ہم
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول گل چنا کیے باغ وفا سے ہم
غافل نہ اپنی دیدہ درائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم
دو چار دن تو اور بھی آ تو کراہتہً
اب ہوچکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم
آئینے کی مثال پس از صد شکست میر
کھینچا بغل میں یار کو دست دعا سے ہم
میر تقی میر

شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج

دیوان اول غزل 189
آئے ہیں میر منھ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
واشد ہوئی نہ دل کو فقیروں کے بھی ملے
کھلتی نہیں گرہ یہ کسو کی دعا سے آج
جینے میں اختیار نہیں ورنہ ہم نشیں
ہم چاہتے ہیں موت تو اپنی خدا سے آج
ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ
ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج
تھا جی میں اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر کچھ کہا گیا نہ غم دل حیا سے آج
میر تقی میر

کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 41
فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے
کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے
جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا
کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا ٹھہرے
تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے
تڑپنے کو کہا تڑپے ، ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے
زہے قسمت حسینوں کی بُرائی بھی بھلائی ہے
کریں یہ چشم پوشی بھی تو نظروں میں حیا ٹھہرے
یہ عالم بیقراری کا ہے جب آغاز الفت میں
دھڑکتا ہے دل اپنا دیکھئے انجام کیا ٹھہرے
حقیقت کھول دی آئینہ وحدت نے دونوں کی
نہ تم ہم سے جدا ٹھہرے ، نہ ہم تم سے جدا ٹھہرے
دل مضطر سے کہہ دو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے
ذرا بہکے ذرا سنبھلے ذرا تڑپے ذرا ٹھہرے
شب وصلت قریب آنے نہ پائے کوئی خلوت میں
ادب ہم سے جدا ٹھہرے حیا تم سے جدا ٹھہرے
اٹھو جاؤ سدھا رو ، کیوں مرے مردے پہ روتے ہو
ٹھہرنے کا گیا وقت اب اگر ٹھہرے تو کیا ٹھہرے
نہ تڑپا چارہ گر کے سامنے اے درد یوں مجھ کو
کہیں ایسا نہ ہو یہ بھی تقاضائے دوا ٹھہرے
ابھی جی بھر کے وصل یار کی لذت نہیں اٹھی
کوئی دم اور آغوش اجابت میں دعا ٹھہرے
خیال یار آنکلا مرے دل میں تو یوں بولا
یہ دیوانوں کی بستی ہے یہاں میری بلا ٹھہرے
امیر آیا جو وقت بد تو سب نے راہ لی اپنی
ہزاروں سیکڑوں میں درد و غم دو آشنا ٹھہرے
امیر مینائی

پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 19
لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو
پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو
ظالم تجھے دل دیا، خطا کی
بس بس میں پُہنچ گیا، سزا کو
اے حضرتِ دل بتوں کو سجدہ
اتنا تو نہ بھولئیے خدا کو
اتنا بکئے کہ کچھ کہے وہ
یوں کھولیئے قفل مدعا کو
کہتی ہے امیر اُس سے شوخی
اب مُنہ نہ دکھائیے حیا کو
امیر مینائی

سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 11
ایک دل ہم دم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا
سب کرشمے تھے جوانی کے ، جوانی کیا گئی
وہ امنگیں مٹ گئیں وہ ولولہ جاتا رہا
آنے والا جانے والا، بے کسی میں کون تھا
ہاں مگر اک دم غریب، آتا رہا جاتا رہا
مرگیا میں جب ، تو ظالم نے کہا کہ افسوس آج
ہائے ظالم ہائے ظالم کا مزہ جاتا رہا
شربت دیدار سے تسکین سی کچھ ہو گئی
دیکھ لینے سے دوا کے ، درد کیا جاتا رہا
مجھ کو گلیوں میں جو دیکھا ، چھیڑ کر کہنے لگے
کیوں میاں کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو، کیا جاتا رہا
جب تلک تم تھے کشیدہ دل تھا شکووں سے بھرا
جب گلے سے مل گئے، سارا گلہ جاتا رہا
ہائے وہ صبحِ شبِ وصل، ان کا کہنا شرم سے
اب تو میری بے وفائی کا گلہ جاتا رہا
دل وہی آنکھیں وہی، لیکن جوانی وہ کہاں
ہائے اب وہ تاکنا وہ جھانکنا جاتا رہا
گھورتے دیکھا جو ہم چشموں کو جھنجھلا کر کہا
کیا لحاظ آنکھوں کا بھی او بے حیا جاتا رہا
کیا بری شے ہے جوانی رات دن ہے تاک جھانک
ڈر توں کا ایک طرف ، خوف خدا جاتا رہا
کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا امیر
جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا
امیر مینائی