افق میں ڈوبتا سورج لگا اداس نہیں
یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟
میں زرد گرد سی پیلاہٹوں کا عکس سہی
خزاں کی اوڑھنی لیکن مرا لباس نہیں
وہ چہچہاتا پرندہ تو کر گیا ہجرت
مگر وداع سے اس کے کوئی اداس نہیں
یقین اور گماں سب حواس کے دھوکے
میں ہوں بھی یا کہ نہیں ہوں کوئی قیاس نہیں
مجھے بہت ہے مری اپنی ذات کا صحرا
تو بحر ہے کہ ہے دریا۔۔۔ مُجھی کو پیاس نہیں
ملا وہ اشک جو بہنے ہی میں نہیں آیا
ملا وہ درد کہ جس کا کوئی نکاس نہیں
اساسِ عزت و تکریم ہیں حوالے یہاں
اور اپنا ایک حوالہ بھی میرے پاس نہیں
میں عکس ہوں کہ نہیں جس کا کوئی بھی موجود
میں آسمان ہوں میری کوئی اساس نہیں
یاور ماجد