ٹیگ کے محفوظات: حنا

پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
وقت کی شاخ پر پات پیلا پڑا اور میں کھو گیا
پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا
پھر نجانے معطل رہے کب تلک میرے اعصاب تک
ہاتھ جابر کا شہ رگ کی جانب بڑھا اور میں کھو گیا
آسماں پر کماں بن کے قوسِ قزح دُور ہنستی رہی
وار جو بھی ہُوا پاس ہی سے ہُوا اور میں کھو گیا
عمر کیا کیا نہیں لڑکیوں کی ڈھلی پاس ماں باپ کے
خوں کے آنسو بنے اُن کا رنگ حنا اور میں کھو گیا
میں کہ ماجد ہوں اہلِ ہنر، اہلِ مکر و ریا کیوں نہیں
بس یہ نکتہ مجھے بے زباں کر گیا اور میں کھو گیا
ماجد صدیقی

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 245
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے
قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگرِان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 173
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں
نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پُرکار ہیں خوباں غالب
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 117
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد
درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہلِ جنوں کے لئے آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکّرر لبِ ساقی میں صلا@ میرے بعد
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد
آئے ہے بے کسئ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
@نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔ @ نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ ‘پہ’ ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر

دیوان ششم غزل 1826
میلان دلربا ہو کیونکر وفا کے اوپر
دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر
کشتہ ہوں اس حیا کا کٹوائے بہتوں کے سر
پر آنکھیں اس کی وونہیں تھیں پشت پا کے اوپر
مہندی لگا کے ہرگز گھر سے تو مت نکلیو
ہوتے ہیں خون تیرے رنگ حنا کے اوپر
ہوں کو بہ کو صبا سا پر کچھ نہیں ہے حاصل
شاید برات اپنی لکھی ہوا کے اوپر
بندوں سے کام تیرا اے میر کچھ نہ نکلا
موقوف مطلب اپنا اب رکھ خدا کے اوپر
میر تقی میر

کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے

دیوان دوم غزل 990
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے
کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے
حرص و ہوس سے باز رہے دل تو خوب ہے
ہے قہر اس کلی کے تئیں گر ہوا لگے
تلخ اب تو اپنے جی کو بھی لگتی ہے اس نمط
جیسے کسو کے زخم پہ تیر اک دو آ لگے
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جا لگے
ایسے لگے پھرے ہیں بہت سائے کی روش
جانے دے ایسی حور پری سے بلا لگے
وہ بھی چمن فروز تو بلبل ہے سامنے
گل ایسے منھ کے آگے بھلا کیا بھلا لگے
پس جائیں یار آنکھ تری سرمگیں پڑے
دل خوں ہو تیرے پائوں میں بھر کر حنا لگے
بن ہڈیوں ہماری ہما کچھ نہ کھائے گا
ٹک چاشنی عشق کا اس کو مزہ لگے
خط مت رکھو کہ اس میں بہت ہیں قباحتیں
رکھیے تمھارے منھ پہ تو تم کو برا لگے
مقصود کے خیال میں بہتوں نے چھانی خاک
عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے
سب چاہتے ہیں دیر رہے میر دل زدہ
یارب کسو تو دوست کی اس کو دعا لگے
میر تقی میر

کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو

دیوان دوم غزل 914
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو
ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو
ہر لمحہ بے ادائی اس کی ادا تو دیکھو
سائے میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت
اس فتنۂ زماں کو کوئی جگا تو دیکھو
بلبل بھی گل گئے پر مرکر چمن سے نکلی
اس مرغ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو
طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے
دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو
ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو
پیری میں مول لے ہے منعم حویلیوں کو
ڈھہتا پھرے ہے آپھی اس پر بنا تو دیکھو
ڈوبی ہے کشتی میری بحر عمیق غم میں
بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو
آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا
اہل ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو
ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محو جلوہ
دیکھو جہاں وہی ہے کچھ اس سوا تو دیکھو
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
میر تقی میر

کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ

دیوان دوم غزل 848
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ
دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ یوں آنکھ وہ چھپائے
ظاہر ہے میرے منھ سے مرے مدعا کا رنگ
کس بے گنہ کے خوں میں ترا پڑ گیا ہے پائوں
ہوتا نہیں ہے سرخ تو ایسا حنا کا رنگ
بے گہ شکستہ رنگی خورشید کیا عجب
ہوتا ہے زرد بیشتر اہل فنا کا رنگ
گل پیرہن نہ چاک کریں کیونکے رشک سے
کس مرتبے میں شوخ ہے اس کی قبا کا رنگ
رہتا تھا ابتداے محبت میں منھ سفید
اب زرد سب ہوا ہوں یہ ہے انتہا کا رنگ
داروے لعل گوں نہ پیو میرزا ہو تم
گرمی پہ ہے دلیل بہت اس دوا کا رنگ
خوبی ہے اس کی حیّزِ تحریر سے بروں
کیا اس کا طور حسن لکھوں کیا ادا کا رنگ
پوچھیں ہیں وجہ گریۂ خونیں جو مجھ سے لوگ
کیا دیکھتے نہیں ہیں سب اس بے وفا کا رنگ
مقدور تک نہ گذرے مرے خوں سے یار میر
غیروں سے کیا گلہ ہے یہ ہے آشنا کا رنگ
میر تقی میر

پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

دیوان اول غزل 470
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی
کیونکر بجھائوں آتش سوزان عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
دل کو گئے ہی یاں سے بنے اب کہ ہر سحر
کوچے میں تیری زلف کے آنے صبا لگی
زلف سیاہ یار کی رہتی ہے چت چڑھی
یہ تازہ میرے جی کو کہاں کی بلا لگی
بیتابی و شکیب و سفر حاصل کلام
اس دل مریض غم کو نہ کوئی دوا لگی
ڈر مجھ نفس سے غیر کہ پھر جی ہی سے گیا
جس کو کسو ستم زدہ کی بد دعا لگی
لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نالگی
تھا صیدناتواں میں ولے میرے خون سے
پائوں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی
کشتے کا اس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میر
کس جاے اس شہید کے تیغ جفا لگی
میر تقی میر

جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی

دیوان اول غزل 449
گیسو سے اس کے میں نے کیوں آنکھ جا لگائی
جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی
تھا دل جو پکا پھوڑا بسیاری الم سے
دکھتا گیا دو چنداں جوں جوں دوا لگائی
ذوق جراحت اس کا کس کو نہیں ہے لیکن
بخت اس کے جس کے ان نے تیغ جفا لگائی
دم بھی نہ لینے پایا پانی بھی پھر نہ مانگا
جس تشنہ لب کو ان نے تلوار آ لگائی
تھا صید ناتواں میں لیکن لہو سے میرے
پائوں پہ ان نے اپنے بھر کر حنا لگائی
بالعکس آج اس کے سارے سلوک دیکھے
کیا جانوں دشمنوں نے کل اس سے کیا لگائی
جو آنسو پی گیا میں آخر کو میر ان نے
چھاتی جلا جگر میں اک آگ جا لگائی
میر تقی میر

بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

دیوان اول غزل 231
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز
دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں
پھرتا ہوں منھ پہ خاک ملے جابجا ہنوز
خط کاڑھ لا کے تم تو منڈا بھی چلے ولے
ہوتی نہیں ہماری تمھاری صفا ہنوز
غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
گذری نہ پار عرش کہ تسکین ہو مجھے
افسوس میری آہ رہی نارسا ہنوز
احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز
غنچہ نہ بوجھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا
کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز
توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تونے سنگ دل
ہے دل خراش کوچے میں تیرے صدا ہنوز
چلو میں اس کے میرا لہو تھا سو پی چکا
اڑتا نہیں ہے طائر رنگ حنا ہنوز
بے بال و پر اسیر ہوں کنج قفس میں میر
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
میر تقی میر

گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا

دیوان اول غزل 117
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا
گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا
سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کاگل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا
دے بھی مئے دوآتشہ زورہی سرد ہے ہوا
وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض
ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا
فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا
جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم
جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا
بوے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم رات کسی کا دل جلا
میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر
آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میر کا
میر تقی میر

کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 343
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
کس نے اس ریت پہ گلبرگ بچھا رکھے ہیں
یہ زمیں کس کی ہے‘ یہ موجِ صبا کس کی ہے
کس نے بھیجا ہے غبارِ شبِ ہجرت ہم کو
کیا خبر اپنے سروں پر یہ رِدا کس کی ہے
کون بجھتے ہوئے منظر میں جلاتا ہے چراغ
سرمئی شام، یہ تحریرِ حنا کس کی ہے
کیسے آشوب میں زندہ ہے مرادوں کی طرح
جانے بھاگوں بھری بستی پہ دُعا کس کی ہے
عرفان صدیقی

اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 288
نہ موج خوں پہ، نہ تیغِ جفا پہ لکھیں گے
اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے
ترا ہی ذکر کریں گے لبِ سکوت سے ہم
ترا ہی نام بیاضِ صدا پہ لکھیں گے
عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں
تری جبینِ ستارہ نما پہ لکھیں گے
سفینہ ڈوب چکے گا تو روئدادِ سفر
کسی جزیرۂ بے آشنا پہ لکھیں گے
بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا
جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے
عرفان صدیقی

اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 267
کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے
اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے
ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب
اور ماتھے پر کوئی حرفِ دُعا روشن کرے
زرد چہروں پر بھی چمکے‘ سرخ جذبوں کی دھنک
سانولے ہاتھوں کو بھی رنگِ حنا روشن کرے
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے
خیر‘ اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ
تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے
آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے
دل ہی فانوسِ وفا‘ دل ہی خس و خارِ ہوس
دیکھنا یہ ہے کہ اس کا قرب کیا روشن کرے
یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا
یا مرا ہی لفظ میرا راستہ روشن کرے
عرفان صدیقی

پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 234
یہ کون سے صحرا کی پُراسرار ہوا تھی
پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی
جنگل تھا نہ بادل تھا نہ ساحل تھا نہ دل تھا
آندھی تھی نہ بارش تھی گرج تھی نہ صدا تھی
طائر سفر آمادہ تھے گھر تھا کہ شجر تھا
جھیلوں کا بلاوا تھا، پہاڑوں کی ندا تھی
کل نیند کی آنکھوں میں چمکتے تھے ستارے
کل خواب بچھونوں پہ کھلونوں کی ضیا تھی
کل رات سناتی تھی فرشتوں کی کہانی
کل نرم رداؤں میں ڈُعاؤں کی ضیا تھی
بانہوں پہ نگاہوں کے بندھے رہتے تھے تعویذ
گھیروں سے سویروں کو نکلنے پہ سزا تھی
دالانوں میں سو جاتے تھے سہمے ہوئے بچے
افسوں تھا کہ شب گشت فقیروں کی صدا تھی
چھت نار درختوں میں چھپی رہتی تھی دوپہر
اک آم کی گٹھلی میں نفیری کی ندا تھی
مٹی کے چراغوں میں جلا کرتی تھیں راتیں
چڑیوں کے بسیروں میں سویروں کی صدا تھی
پلکوں سے گرا کرتے تھے بھیگے ہوئے جگنو
پھیلے ہوئے ہاتھوں پہ شفق تھی نہ حنا تھی
عرفان صدیقی

لشکر سے شب کے شور اُٹھا ہو گئی ہے شام

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 102
ایک اور دِن شہید ہوا، ہو گئی ہے شام
لشکر سے شب کے شور اُٹھا ہو گئی ہے شام
مدّت ہوئی کہ سر پہ سرابوں کی دُھوپ ہے
دشتِ طلب میں ہم سے خفا ہو گئی ہے شام
لو دے اُٹھا ہے دستِ دُعا پر شفق کا رنگ
تیری ہتھیلیوں پہ حنا ہو گئی ہے شام
میرے لبوں سے مل کے الگ کیا ہوئی وہ زُلف
جلتی دوپہریوں سے جدا ہو گئی ہے شام
عارض کی دُھوپ، زُلف کے سائے، بدن کی آنچ
ہنگامہ بن کے دِل میں بپا ہو گئی ہے شام
غربت کی دھول، کیسے کسی کو دِکھائی دے
میرے برہنہ سر کی رِدا ہو گئی ہے شام
سورج کا خوُن بہنے لگا پھر ترائی میں
پھر دستِ شب میں تیغِ جفا ہو گئی ہے شام
عرفان صدیقی

دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 100
ڈوبتی شام پرندوں کی نوا بھی خاموش
دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش
دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے تقش کف پا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پُکار
صبح تک خون بھی خاموش، حنا بھی خاموش
شہر خوابیدہ میں فریاد نہ عکس فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
فرض سے کوئی سبک دوش نہیں ہو پاتا
سر تسلیم بھی چپ، تیغ جفا بھی خاموش
کوئی ہے تیرگئ شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موج ہوا بھی خاموش
آج تک اہل ستم ہی سے شکایت تھی مجھے
سو مرے باب میں ہیں اہل وفا بھی خاموش
اب دُعائیں نہ صحیفے سر دنیائے خراب
میں بھی خاموش ہوا میرا خدا بھی خاموش
MERGED دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے نقشِ کف پا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پکار
صبح تک خون بھی خاموش‘ حنا بھی خاموش
شہرِ خوابیدہ میں فریاد‘ نہ عکسِ فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
فرض سے عہدہ بر آ کوئی نہ ہونے پایا
سرِ تسلیم بھی چپ‘ تیغ جفا بھی خاموش
کون ہے تیرگی شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موجِ ہوا بھی خاموش
آج تک اہلِ ستم ہی سے شکایت تھی مجھے
اب مرے باب میں ہیں اہلِ وفا بھی خاموش
اب دُعائیں نہ صحیفے سرِ دُنیائے خراب
میں بھی خاموش ہوا‘ میرا خدا بھی خاموش
عرفان صدیقی

منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 157
کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد
منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد
رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا
آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد
یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا
کوزہ گر چاک پہ کیا تو نے رکھا میرے بعد
"کون پھر ہو گا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟”
کون دنیا کے لیے قبلہ نما میرے بعد
لڑکھڑاتی ہوئی گلیوں میں پھرے گی تقویم
وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد
میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر
کم نہیں میرا کیا اس نے گلہ میرے بعد
میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں
اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد
دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھا لائی ہے
اب نہیں ہو گا کوئی آبلہ پا میرے بعد
تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید
سالہا سال تلک شام سیہ میرے بعد
گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر
ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد
بعد از میر تھا میں میرِ سخن اے تشبیب
’کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد‘
رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا
اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد
رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر
کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد
بزم سجتی ہی نہیں اب کہیں اہلِ دل کی
صاحبِ حال ہوئے اہل جفا میرے بعد
پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی
سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد
پہلے تو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس کئی مجنوں تھے
خاک ہو جائے گا یہ دشتِ وفا میرے بعد
بس یہی درد لیے جاتا ہوں دل میں اپنے
وہ دکھائے گی کسے ناز و ادا میرے بعد
جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے
جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد
زندگی کرنے کا بس اتنا صلہ کافی ہے
جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد
اس کو صحرا سے نہیں میرے جنون سے کد تھی
دشت میں جا کے برستی ہے گھٹا میرے بعد
میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہو گی
شکریہ ! کرنا یہی بات ذرا میرے بعد
میں ہی موجود ہوا کرتا تھا اُس جانب بھی
وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد
میرا بھی سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر
کیسا سجدہ تھا… ہوا پھر نہ ادا میرے بعد
کاٹنے والے کہاں ہو گی یہ تیری مسند
یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد
پہلے تو ہوتی تھی مجھ پر یہ مری بزم تمام
کون اب ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد
میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن
کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد
میں بھی کر لوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے
زخم تیرا بھی نہیں ہو گا ہرا میرے بعد
تیری راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو
کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد
شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے
کیسی ہے محفلِ آشفتہ سرا میرے بعد
میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے
اس نے پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد
عشق رکھ آیا تھا کیا دار و رسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد
منصور آفاق

جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 15
یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس
جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس
بولا وہ بُت سرہانے مرے آ کے وقتِ نزع
فریاد کو ہماری چلے ہو خدا کے پاس؟
توفیق اتنی دے مجھے افلاس میں خدا
حاجت نہ لے کے جاؤں کبھی اغنیا کے پاس
رہتے ہیں ہاتھ باندھے ہوئے گلرخانِ دہر
یارب ہے کس بلا کا فسوں اس حنا کے پاس
پیچھے پڑا ہے افعیِ گیسو کے دل ، امیر
جاتا ہے دوڑ دوڑ کے یہ خود قضا کے پاس
امیر مینائی