ٹیگ کے محفوظات: حقیقت

بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے

غمِ حیات کی لذّت بدلتی رہتی ہے
بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے
حَریمِ راز، امیدِ کرم کہ ذوقِ نمود
خلوصِ دوست کی قیمت بدلتی رہتی ہے
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہِ جوشِ محبت بدلتی رہتی ہے
نہیں کہ تیرا کرم مجھ کو ناگوار نہیں
یہ غم ہے وجہِ مسرّت بدلتی رہتی ہے
اگر فریب حَسیں ہو تو پھر فریب نہیں
خطا معاف حقیقت بدلتی رہتی ہے
کبھی جو غیر تھا وہ میری زندگی ہے آج
بَقیدِ وقت صداقت بدلتی رہتی ہے
مرے چلن کو تغیّر نہیں زمانے میں
تری نگاہِ عنایت بدلتی رہتی ہے
کبھی ملُول، کبھی شادماں ، کبھی بے حِس
ترے شکیبؔ کی حالت بدلتی رہتی ہے
شکیب جلالی

حُسن کی زندگی محبت ہے

حُسن کو عشق کی ضرورت ہے
حُسن کی زندگی محبت ہے
کیوں اُٹھے جا رہے ہو محفل سے
کیا قیامت ہے، کیا قیامت ہے
آپ برہم نہ ہوں تو میں کہہ دوں
آپ سے کچھ مجھے شکایت ہے
پوچھ لو مجھ سے کائنات کا حال
دل کے ہاتھوں میں نبضِ فطرت ہے
جاگ اُٹّھیں مری تمنائیں
مسکرانا ترا قیامت ہے
ظلم کو جو کہ زندگی بخشے
ایسی فریاد سے بغاوت ہے
میں جو چاہوں جہاں پہ چھا جاؤں
جذبہِ دل مرا سلامت ہے
سن کے بولے وہ میرا حال، شکیبؔ
کچھ فسانہ ہے، کچھ حقیقت ہے
شکیب جلالی

درد ہے، درد بھی قیامت کا

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

درد ہے، درد بھی قیامت کا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 5
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

وہ نہیں تھا میری طبیعت کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 17
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
جون ایلیا

اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 46
اس کڑے وقت کی قدر و قیمت سمجھ
اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ
جو نہیں ، اُس پہ اتنی توجہ نہ دے
اور جو ہے، اُسی کو غنیمت سمجھ
سب سے تنہا بھی ہوں ، سب سے گنجان بھی
تو خُدا کی طرح میری حالت سمجھ
اِس پہ پلتے ہیں سب سورما شہر کے
میرے افلاس کو میری دولت سمجھ
زندگی کھیل نابالغوں کا نہیں
اپنے نقصان کو فائدہ مت سمجھ
ہے فلک گیر زورِ ارادہ میرا
اس زمانے کو میری ولایت سمجھ
آفتاب اقبال شمیم