ٹیگ کے محفوظات: حصار

چلا ہوں پاؤں میں عمر بھر کےغبار باندھے

میں رختِ دل میں وجود کے سب فشار باندھے
چلا ہوں پاؤں میں عمر بھر کےغبار باندھے
نہیں سے ہاں سے کبھی تعلق نہ ٹوٹ پایا
ہیں عہد خود سے ہزار توڑے، ہزار باندھے
دھنک بہاروں کی گلستاں میں جو آ نہ پائی
تو ابر کرنوں پہ پل پڑے ہیں، حصار باندھے
تبسمِ گُل بھی دل کا غنچہ نہ کھول پایا
تو اور کتنا حسین منظر، بہار باندھے؟
جنون دل کا، نہ جستجو ہے نظر کی باقی
یہ بار سر سے ہیں میں نے کب کے اتار باندھے
فلک پہ جائے نماز افق کی بچھا کے، ۔۔ دیکھو
نکل پڑے ہیں پرند سارے قطار باندھے
جنم جنم سے میں اس جنوں کی تلاش میں ہوں
جو ہوش نظروں کا توڑ دے جو، خمار باندھے
یاور ماجد

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کارِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نجانے کس سمت جا بسی بادِ یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوئوں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حسابِ لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدرِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
عرفان ستار

کسی گنتی کسی شمار میں تھے

گو کہ پیچھے بہت قطار میں تھے
کسی گنتی کسی شمار میں تھے
سو بلاؤں سے ہم رہے محفوظ
اک پُراسرار سے حصار میں تھے
خوش ہوا ہوں غموں سے مل کے یوں
جیسے یہ میرے انتظار میں تھے
تین میں ہیں نہ اب وہ تیرہ میں
جو کبھی پہلے تین چار میں تھے
اب وہ سارے خزاں میں ہیں باصِرؔ
رنگ جتنے کبھی بہار میں تھے
باصر کاظمی

چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
غیر جب سے وُہ اپنا یار لگا
چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا
کھو گیا آنکھ سے دھنک جیسا
جو بھی ماحول، سازگار لگا
بڑھتی دیکھی جو رحمتِ یزداں
ابر بھی مجھ کو، آبشار لگا
کر کے وا چشمِ اِنبساط مری
آشنا، پھر نہ وُہ نگار لگا
آنکھ جب سے کھُلی،دل و جاں پر
شش جہت جبر کا حصار لگا
تھا جو ماجدؔ پسِ نگاہ تری
بھید سب پر وُہ، آشکار لگا
ماجد صدیقی

سانس آنے کا اعتبار گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
رُوٹھ کر جب سے اپنا یار گیا
سانس آنے کا اعتبار گیا
اَبکے جو بھی کماں سے نکلا تھا
تیر سیدھا وُہ دل کے پار گیا
جو بھی پہنچا کسی بلندی پر
توڑ کر جبر کا حصار گیا
بُرد باری اساس تھی جس کی
دل وہ بازی بھی آج ہار گیا
شاخِ نازک سا دل ترا ماجدؔ!
بوجھ کیا کیا نہیں سہار گیا
ماجد صدیقی

چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
جلو میں اپنی رُتوں کے ہاتھوں سمیٹ لایا غبار کیا کیا
چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا
زبان پر ذہن سے نہ اُترے جو آ چکے تو اُسے چھپائیں
کہیں تو کس سے کہ بات کرنے کا ہے ہمیں اختیار کیا کیا
اُٹھا جو پانی کی سطح پر تو دکھائی دیتا تھا بلبلہ بھی
گرفت میں آب جُو کو لانے کے واسطے بے قرار کیا کیا
ہمارا دل ہی یہ بات جانے کہ حق سرائی کے بعد اِس کی
ہر ایک جانب اُٹھا کئے ہیں حقارتوں کے حصار کیا کیا
ہوا ہو یا برق و ابر اِن کا سلوک خستہ تنوں سے پوچھو
فتور رکھتے ہیں کھوپڑی میں چمن کے یہ تاجدار کیا کیا
کہیں جو بچپن کے آنگنوں میں اُتار لی تھی لہو میں ماجدؔ!
دل و نظر میں مچل رہی ہے ابھی وُہ سپنوں کی نار کیا کیا
ماجد صدیقی

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 72
کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کارِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نجانے کس سمت جا بسی بادِ یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوئوں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حسابِ لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدرِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
عرفان ستار

میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 94
زمیں کے ساتھ میری آنکھ بھی مدار میں ہے
میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
سفر ہے پیشِ قدم صد ہزار صدیوں کا
تمہاری شہرتِ دو گام کس شمار میں ہے
بندھی ہوئی ہیں اکائی میں کثرتیں ساری
ہر ایک اور کسی اور کے حصار میں ہے
خرد تو آج کا زنداں ہے اس سے باہر بھی
یہ آنکھ وہم و تصور کے اختیار میں ہے
انا کے نشے میں ورنہ خدا ہی بن جاتا
یہی تو جیت ہے جو آدمی کی ہار میں ہے
کبھی جو دھیان میں لاؤں تو ڈگمگا جاؤں
عجیب نشّہ تری آنکھ کے خمار میں ہے
بلا سے، آج کسی نے اگر نہ پہچانا
وُہ دیکھ! کل کا جہاں میرے انتظار میں ہے
آفتاب اقبال شمیم

مگر آج تک کوئی شہ سوار چھپا ہواہے غبار میں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 155
یہ چراغ کشتہ نہ جانے کب سے پڑے ہیں راہ گزار میں
مگر آج تک کوئی شہ سوار چھپا ہواہے غبار میں
میں کہاں گلاب شجر کروں‘ میں کشادہ سینہ کدھر کروں
کوئی نیزہ میرے یمین میں‘ کوئی تیغ میرے یسار میں
مجھے اس طلسم سرائے شب میں عجیب کام دیے گئے
نہ جلوں شکستہ فصیل پر، نہ بجھوں ہوا کے حصار میں
انہیں کیا خبر کہ دلاوری کوئی شرطِ فتح و ظفر نہیں
کہ بکھرتی صف کے پیادگاں، نہ شمار میں، نہ قطار میں
عرفان صدیقی

ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 207
شبِ وصال پہ لعنت شبِ قرار پہ تف
ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف
وہ پاؤں سو گئے جو بے ارادہ اٹھتے تھے
طواف کوچہء جاناں پہ، کوئے یار پہ تف
تجھ ایسے پھول کی خواہش پہ بار ہا لعنت
بجائے خون کے رکھتا ہوں نوکِ خار پہ تف
دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے
اے میرے حسنِ نظر ! تیرے اعتبار پہ تف
پہنچ سکا نہیں اس تک جو میرے زخم کا نور
چراغ خون پہ تھو سینہء فگار پہ تف
ہیں برگِ خشک سی شکنیں خزاں بکف بستر
مرے مکان میں ٹھہری ہوئی بہار پہ تف
کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ
ترے ملالِ تری چشم اشکبار پہ تف
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں
اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف
یونہی بکھیرتا رہتا ہے دھول آنکھوں میں
ہوائے تیز کے اڑتے ہوئے غبار پہ تف
خود آپ چل کے مرے پاس آئے گا کعبہ
مقامِ فیض پہ بنتی ہوئی قطار پہ تف
حیات قیمتی ہے خواب کے دریچوں سے
رہِ صلیب پہ لعنت، فراز دار پہ تف
صدا ہو صوتِ سرافیل تو مزہ بھی ہے
گلے کے بیچ میں اٹکی ہوئی پکار پہ تف
جسے خبر ہی نہیں ہے پڑوسی کیسے ہیں
نمازِ شام کی اُس عاقبت سنوار پہ تف
مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے
امیرِ شہر! ترے عہدِ اقتدار پہ تف
ترے سفید محل سے جو پے بہ پے ابھرے
ہزار بار انہی زلزلوں کی مار پہ تف
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی
ترے ضمیر پہ تھو، تیرے اختیار پہ تف
سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے
جناب شیخ کی دستارِ بد قمار پہ تف
تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے
ترے مقام پہ لعنت ترے وقار پہ تف
مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے
ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف
یہی دعا ہے ترا سانپ پر قدم آئے
ہزار ہا ترے کردارِ داغ دار پہ تف
کسی بھی اسم سے یہ ٹوٹتا نہیں منصور
فسردگی کے سلگتے ہوئے حصار پہ تف
منصور آفاق