ٹیگ کے محفوظات: حسیں

کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے

دھوپ کہیں ہے چھاؤں کہیں ہے
کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے
یوں بیٹھے ہیں تھکے مسافر
جیسے منزل یہیں کہیں ہے
گردشِ دوراں توبہ توبہ
ہم کو خدا بھی یاد نہیں ہے
جس کو چاہا حُسن میں ڈھالا
تجھ سے میری آنکھ حَسیں ہے
ان کی کوئی بات سناؤ
جن کا مجھ سے میل نہیں ہے
دوست ہیں دل میں، ذہن میں دشمن
کوئی بھی مجھ سے دُور نہیں ہے
شکیب جلالی

عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور

کسی کے ساتھ رہو، دل میں ہو مکیں کوئی اور
عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور
تجھے ہی بانہوں میں بھر کر تجھی کو ڈھونڈتا ہوں
کہاں ملے گا بھلا مجھ سا بے یقیں کوئی اور
خبر تو تھی، کوئی مجھ میں مرے سِوا ہے سو اب
نظر بھی آنے لگا ہے کہیں کہیں، کوئی اور
کوئی جو ایسا رسیلا سخن بھی کرتا ہو
مری نظر میں تو ایسا نہیں حسیں کوئی اور
اسی سے عشق حرارت کشید کرتا ہے
نہیں ہے تجھ سا کہیں لمسِ آتشیں کوئی اور
سنبھال رکھو یہ تم اپنے سب عذاب و ثواب
تمہارا اور ہے مذہب، ہمارا دیں کوئی اور
ہے کچھ تو مجھ میں جو ہے سخت نادرست میاں
کہ ایک چپ ہو تو ہوتا ہے نکتہ چیں کوئی اور
سبھی سے پوچھ چکا تو سمجھ میں آئی یہ بات
کہ مجھ پہ کھولے گا یہ رمزِ آخریں کوئی اور
جو دیکھتا تھا اُسے رنگ کی سمجھ ہی نہ تھی
سو زخم ڈھونڈ رہے ہیں تماش بیں کوئی اور
انیس و غالب و اقبال سب مجھے ہیں پسند
یہ بات سچ ہے مگر، میر سا نہیں کوئی اور
خدا کرے کہ مری آنکھ جب کھلے عرفان
تو آسمان کوئی اور ہو، زمیں کوئی اور
عرفان ستار

وہ جانے کیوں مجھے اِتنا حسیں معلوم ہوتا ہے

ہر اِک انداز اُس کا دل نشیں معلوم ہوتا ہے
وہ جانے کیوں مجھے اِتنا حسیں معلوم ہوتا ہے
نظر سے دُور ہے دل سے قریں معلوم ہوتا ہے
وہ ساحر ہے مگر ساحر نہیں معلوم ہوتا ہے
تلطّف حسنِ جاناں کا بھری محفل میں کیا کہیے
کہ یہ ہوتا کہیِں ہے اُور کہیِں معلوم ہوتا ہے
خمار آلود نظروں میں ہیں کیا کیا رفعتیں پنہاں
مجھے ضامنؔ! فلک مثلِ زمیں معلوم ہوتا ہے
ضامن جعفری

گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں

لبوں پہ ہاں نہیں دل میں مگر نہیں بھی نہیں
گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں
محبتوں کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب کچھ، جبیں پہ چِیں بھی نہیں
تمہارے راندۂ درگاہ جائیں بھی تَو کہاں
دوائے درد تمہارے سِوا کہیں بھی نہیں
منانا چاہیں اُسے اور ہم منا نہ سکیں
دیارِ حسن میں ایسا کوئی حسیں بھی نہیں
نگاہ و دل کی حقیقت بھی کھُل گئی ضامنؔ
کہ اِن سے بڑھ کے کوئی مارِ آستیں بھی نہیں
ضامن جعفری

فَقَط نِگاہ تَو وجہِ یقیں نہیں ہوتی

حضور! ایسے محبّت کہیِں نہیں ہوتی
فَقَط نِگاہ تَو وجہِ یقیں نہیں ہوتی
خَیال و خواب کی دُنیا حَسیں سہی لیکن
خَیال و خواب سے دُنیا حَسیں نہیں ہوتی
جھُکا گیا ہے کِسی چشمِ نَم کا حُسنِ کلام
سَماعَتوں پہ تَو خَم یہ جبیں نہیں ہوتی
قَدَم ہی سَلطَنَتِ عشق میں نہ رَکھتے ہم
ہمارے واسطے گَر شہ نشیں نہیں ہوتی
میں ہر نَظَر سے زمانے کی خوب واقف ہُوں
کرے جو رُوح میں گھر وہ کہیں نہیں ہوتی
کسی کا حرفِ محبّت جو کان میں پَڑتا
ہمارے پاؤں تَلے پھِر زمیں نہیں ہوتی
میں اعترافِ محبّت کی سوچتا لیکن
قَدَم قَدَم پہ اَنا کی نہیں نہیں ہوتی
مَتاعِ عشق کو ضامنؔ سنبھال کر رَکھیے
یہ ہر نگاہ کے زیرِ نَگیں نہیں ہوتی
ضامن جعفری

کھو جائیں گے تلاش میں اُس کی ہمیں کہیں

معلوم ہے کہ وہ تو ملے گا نہیں کہیں
کھو جائیں گے تلاش میں اُس کی ہمیں کہیں
شاید فلک ہی ٹوٹ پڑا تھا وگرنہ یوں
جاتا ہے چھوڑ کر کوئی اپنی زمیں کہیں
اک دوسرے کو دیکھتے ہیں آئینے کی طرح
ہو جائیں روبرو جو کبھی دو حسیں کہیں
مقصود اِس سے اہلِ نظر کا ہے اِمتحاں
وہ سامنے نہیں ہے مگر ہے یہیں کہیں
شہروں میں اپنے گویا قیامت ہی آگئی
اڑ کر مکاں کہیں گئے باصرِؔ مکیں کہیں
باصر کاظمی

ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور
بال یہ پُوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر
اُنکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردوسِ بریں کوئی اور
آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب
دشمن ہیں تو ایک ہمِیں اپنے ہیں ،نہیں کوئی اور
چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور
اِس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور
دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب
دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور
ہم ذی جوہر ہیں، یہ گماں ماجدؔ تھا گمانِ محض
اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور
ماجد صدیقی

تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
ہر حرف تُجھ بدن کا نظر کے قریں لگے
تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے
آتا ہو چھُو کے جیسے ترے ہی جمال کو
اب کے تو ہر خیال مجھے شبنمیں لگے
چھایا ہے وُہ خمار تری صبحِ یاد کا
جو موجۂ صبا ہے مے و انگبیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے
انوار اور بھی تو پہنچ میں ہیں اب مری
کیوں کریہ ایک چاند ہی تیری جبیں لگے
میرے لُہو کا حسُن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تُجھ سا اگر نازنیں لگے
خوشبُو ہے اس میں رنگ ہیں، ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے
ماجد صدیقی

چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے
ماجد صدیقی

گریباں پاؤں میں ہوتا گلے میں آستیں ہوتی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 89
مری وحشت کی شہرت جب زمانے میں کہیں ہوتی
گریباں پاؤں میں ہوتا گلے میں آستیں ہوتی
مشیت اے بتو، اللہ کی خالی نہیں ہوتی
خدائی تم نہ کر لیتے اگر دنیا حسیں ہوتی
کوئی ضد نہ تھی کوچے میں در ہی کے قریں، ہوتی
جہاں پر آپ کہہ دیتے مری تربت وہیں ہوتی
پسِ مردن مجھے تڑپانے والے دل یہ بہتر تھا
تری تربت کہیں ہوتی مری تربت کہیں ہوتی
اثر ہے کس قدر قاتل تری نیچی نگاہوں کا
شکایت تک خدا کے سامنے مجھ سے نہیں ہوتی
ہمیشہ کا تعلق اور اس پر غیر کی محفل
یہاں تو پردہ پوشِ چشمِ گریاں آستیں ہوتی
نہ رو اے بلبل ناشاد مجھ کمبخت کے آگے
کہ تابِ ضبط اب دکھے ہوئے دل سے نہیں ہوتی
شبِ فرقت یہ کہہ کر آسماں سے مر گیا کوئی
سحر اب اس طرح ہو گی اگر ایسے نہیں ہوتی
قسم کھاتے ہو میرے سامنے وعدے پہ آنے کی
چلو بیٹھو وفا داروں کی یہ صورت نہیں ہوتی
بجا ہے آپ بزمِ عدو سے اٹھ کے آ جاتے
اگر نالے نہ کرتا میں تو ساری شب وہیں ہوتی
ترے کوچے کے باہر یہ سمجھ کر جان دیتا ہوں
کہ مرتا ہے جہاں کوئی وہیں تربت نہیں ہوتی
شبِ مہتاب بھی تاریک ہو جاتی ہے آنکھوں میں
قمر جب میرے گھر وہ چاند سی صورت نہیں ہوتی
قمر جلالوی

ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 37
اُس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اُسکی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشمِ بے یقیں کو دھو دیا
دھوپ کو ابرِ مقدس ارغوانی کر گیا
بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا
ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا
میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا
جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابرِ نار کا
قہر وُہ برسا کہ ہر نقشِ حسیں کو دھو دیا
آفتاب اقبال شمیم

کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 33
میری سیر کی تمنا، تھی مگر کہیں زیادہ
کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
ترا دستِ شعبدہ گر، کُھلا بعدِ وقت مجھ پر
ترے بازوؤں سے نکلی تری آستیں زیادہ
کبھی جیت کر نہ جیتے، کبھی ہار کر نہ ہارے
کہ دکھایا ظرف ہم نے کہیں کم کہیں زیادہ
ہے فراق میں بھی یوں تو، وُہ مہِ منیر جیسا
ہو اگر قریں زیادہ تو لگے حسیں زیادہ
بڑا سخت واقعہ تھا، جسے سہہ لیا ہے میں تو
میرے حوصلے سے شاید مرا غم نہیں زیادہ
ہے وہی حریفِ امکاں جو گماں سے منحرف ہو
وہ منکروں میں ٹھہرے جو کرے یقیں زیادہ
آفتاب اقبال شمیم

آشنا شکل ہر حسیں کی ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 36
تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے
حسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہرگھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
صبحِ گل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح اس روئے نازنیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں سے تر آج آستیں کی ہے
کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے
فیض اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے
فیض احمد فیض

یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 620
ہمسایہ ہے ہمارا ، یہیں پر مقیم ہے
یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے
ہم کیا کہ گنج بخش وہ ہجویرکا فقیر
لاہور ! تیری خاکِ بریں پر مقیم ہے
جائے نمازِ سنگ سے جس کی طلب ہمیں
وہ داغِ سجدہ اپنی جبیں پر مقیم ہے
کمپاس رکھ نہ عرشے پہ لا کر زمین کے
وہ عرشِ دل کے فرشِ حسیں پر مقیم ہے
تم آسماں نورد ہو جس کی تلاش میں
منصور مان لو وہ زمیں پر مقیم ہے
منصور آفاق

برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 54
جب قریہء فراق مری سرزمیں ہوا
برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی
اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی
یہ حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے
اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہء دل کی کہ بار بار
لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے
ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آرہا تھا ابھی تو نظر مجھے
یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
چھونے لگی ہے روح کا پاتال کوئی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
منصور آفاق

زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 256
لہر حالات کی اک زیر زمیں ہوتی ہے
زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے
زندگی بھی تو الجھتی ہے سیاست کی طرح
شعلہ ہوتا ہے کہیں آگ کہیں ہوتی ہے
روشنی رنگ بدلتی ہے تمنا کی طرح
ہم بھٹک جاتے ہیں منزل تو وہیں ہوتی ہے
فاصلہ بھی ہے نگاہوں کے لئے اک جادو
ہاتھ جو آ نہ سکے چیز حسیں ہوتی ہے
بیٹھے بیٹھے چمک اٹھتی ہیں نگاہیں باقیؔ
دور کی شمع کہیں اتنی قریں ہوتی ہے
باقی صدیقی

کتنے حسیں ہو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 97
چیں بہ جبیں ہو
کتنے حسیں ہو
اتنی خموشی
گویا نہیں ہو
وہ مہرباں ہیں
کیونکر یقیں ہو
دنیا سے کھیلو
ناز آفریں ہو
یہ بے حجابی
پردہ نشیں ہو
جیسا سنا تھا
ویسے نہیں ہو
سوچو تو باقیؔ
سب کچھ تمہیں ہو
باقی صدیقی