وصل کا عیش غلط، ہجر کے غم جھوٹے ہیں
چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں
اپنا رستہ یہاں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے میاں
عشق کی راہ میں سب نقشِ قدم جھوٹے ہیں
گونجتی ہے یہی آواز دمادم ہر سُو
ایھا النّاس سنو، دیر و حرم جھوٹے ہیں
اولاً ہم تھے جنھیں خواب کا آزار ملا
اور تُو پھر بھی سمجھتا ہے کہ ہم جھوٹے ہیں
میری جانب ہیں بہت عام سے سچے، دو چار
اور ترے ساتھ بہت سارے اہم جھوٹے ہیں
کم سے کم کہتے وہی ہیں کہ جو دل مانتا ہے
یعنی ہم جھوٹے اگر ہیں بھی تو کم جھوٹے ہیں
ہے کوئی اور ہی اقلیم جو شاید سچ ہو
یہ مگر طے ہے وجود اور عدم جھوٹے ہیں
تم بھلا کون، کسی حرف کے تقدیر کشا؟
وقت کو فیصلہ کرنے دو کہ ہم جھوٹے ہیں
راہ عرفان محبت کی ہے سیدھی، سچی
اب کھلا ہم پہ کہ اس راہ کے خم جھوٹے ہیں
عرفان ستار