ٹیگ کے محفوظات: حامل

اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے

کیا چیز ہے یہ سعیِ پیہم، کیا جذبہِ کامل ہوتا ہے!
اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے
اک ٹیس سی پَیہم پاتا ہوں، کیا اس کو محبت کہتے ہیں !
محسوس مجھے میٹھا میٹھا کچھ درد سا اے دل ہوتا ہے
تسکین کو دھوکا دیتے ہیں، ناکامِ تمنا یہ کہہ کر:
ہر گام پہ منزل ہوتی ہے، ہر موج میں ساحل ہوتا ہے
یہ رنج و الم ہی میرے لیے اب زیست کا عنواں ہیں ہمدم
اس دنیا میں پہلے پہلے ہر کام ہی مشکل ہوتا ہے
تسکین سی کیوں مل جاتی ہے، مضرابِ دستِ شوق مجھے
ہر تارِ گریباں، کیا وحشت کے ساز کا حامل ہوتا ہے
دھیرے دھیرے چلنے والے، یہ راہ روی کو کیا جانیں
جو تھک کر راہ میں بیٹھ گیا ہو، صاحبِ منزل ہوتا ہے؟
کیا کم ہے شکیبؔ زار جو حُسنِ دوست سے نسبت رکھتا ہو
جس دل میں نہ ہو اُلفت کی تڑپ، کس کام کا وہ دل ہوتا ہے
شکیب جلالی

جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 38
یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب
نیرنگِ حسن و عشق کے کیا کیا ظہور ہیں
بسمل کو اضطراب ہے، قاتل کو اضطراب
آ جائے ہم نشیں وہ پری وش تو کیا نہ ہو
دیوانہ وار ناصحِ عاقل کو اضطراب
سیماب وار سارے بدن کو ہے یاں تپش
تسکین ہو سکے جو ہو اک دل کو اضطراب
وہ با ادب شہید ہوں میرا جو نام لے
قاتل، تو پھر نہ ہو کسی بسمل کو اضطراب
افسوس بادِ آہ سے ہل بھی نہ جائے اور
یوں ہو ہوا سے پردۂ محمل کو اضطراب
میں جاں بہ لب ہوں اور خبرِ وصل جاں طلب
کیا کیا نہیں دہندہ و سائل کو اضطراب
لکھا ہے خط میں حال دلِ بے قرار کا
ہو گا ضرور شیفتہ حامل کو اضطراب
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں

دیوان دوم غزل 904
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں
قند کا کون اس قدر مائل ہے میاں
جو ہے ان ہونٹوں ہی کا قائل ہے میاں
ہم نے یہ مانا کہ واعظ ہے ملک
آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں
چشم تر کی خیر جاری ہے سدا
سیل اس دروازے کا سائل ہے میاں
مرنے کے پیچھے تو راحت سچ ہے لیک
بیچ میں یہ واقعہ حائل ہے میاں
دل کی پامالی ستم ہے قہر ہے
کوئی یوں دلتا ہے آخر دل ہے میاں
آج کیا فرداے محشر کا ہراس
صبح دیکھیں کیا ہو شب حامل ہے میاں
دل تڑپتا ہی نہیں کیا جانیے
کس شکار انداز کا بسمل ہے میاں
چاہیے پیش از نماز آنکھیں کھلیں
حیف اس کا وقت جو غافل ہے میاں
رنگ بے رنگی جدا تو ہے ولے
آب سا ہر رنگ میں شامل ہے میاں
سامنے سے ٹک ٹلے تو دق نہ ہو
آسماں چھاتی پر اپنی سل ہے میاں
دل لگی اتنی جہاں میں کس لیے
رہگذر ہے یہ تو کیا منزل ہے میاں
بے تہی دریاے ہستی کی نہ پوچھ
یاں سے واں تک سو جگہ ساحل ہے میاں
چشم حق بیں سے کرو ٹک تم نظر
دیکھتے جو کچھ ہو سب باطل ہے میاں
دردمندی ہی تو ہے جو کچھ کہ ہے
حق میں عاشق کے دوا قاتل ہے میاں
برسوں ہم روتے پھرے ہیں ابر سے
زانو زانو اس گلی میں گل ہے میاں
کہنہ سالی میں ہے جیسے خورد سال
کیا فلک پیری میں بھی جاہل ہے میاں
کیا دل مجروح و محزوں کا گلہ
ایک غمگیں دوسرے گھائل ہے میاں
دیکھ کر سبزہ ہی خرم دل کو رکھ
مزرع دنیا کا یہ حاصل ہے میاں
مستعدوں پر سخن ہے آج کل
شعر اپنا فن سو کس قابل ہے میاں
کی زیارت میر کی ہم نے بھی کل
لاابالی سا ہے پر کامل ہے میاں
میر تقی میر