ٹیگ کے محفوظات: حالت

بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے

غمِ حیات کی لذّت بدلتی رہتی ہے
بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے
حَریمِ راز، امیدِ کرم کہ ذوقِ نمود
خلوصِ دوست کی قیمت بدلتی رہتی ہے
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہِ جوشِ محبت بدلتی رہتی ہے
نہیں کہ تیرا کرم مجھ کو ناگوار نہیں
یہ غم ہے وجہِ مسرّت بدلتی رہتی ہے
اگر فریب حَسیں ہو تو پھر فریب نہیں
خطا معاف حقیقت بدلتی رہتی ہے
کبھی جو غیر تھا وہ میری زندگی ہے آج
بَقیدِ وقت صداقت بدلتی رہتی ہے
مرے چلن کو تغیّر نہیں زمانے میں
تری نگاہِ عنایت بدلتی رہتی ہے
کبھی ملُول، کبھی شادماں ، کبھی بے حِس
ترے شکیبؔ کی حالت بدلتی رہتی ہے
شکیب جلالی

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارا عشق بھی اب ماند ہے جیسے کہ تم ہو
تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو
سو اب خود پر ندامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کردیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کہاں لے جائیں اے دل ہم تری وسعت پسندی
کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
سلامت ہے کوئی خواہش نہ کوئی یاد زندہ
بتا اے شام وحشت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہن و دل کا
تمہارا غم علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
اذیّت تھی مگر لذّت بھی کچھ اس سے سوا تھی
اذیّت ہے اذیّت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بجا کہتے ہو تم ہونی تو ہو کر ہی رہے گی
تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
شمار و بے شماری کے تردّد سے گزر کر
مآلِ عشق وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے
عرفان ستار

دے شرف تخت، دے رزالت بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
سرفرازی بھی دے خجالت بھی
دے شرف تخت، دے رزالت بھی
منصف و مدّعی ہے زورآور
آپ اپنی کرے وکالت بھی
چھُوٹتے ہی جو وار کر ڈالے
نام اُسی کے لگے بسالت بھی
ہم نے دیکھے ہیں بر سرِ عالم
قتل مِن جانبِ عدالت بھی
وہ کہ جو بے خطا ہے، اندر سے
خون کھولائے اُس کی حالت بھی
ضد ہو میزانِ عدل جب ماجد!
کیا کرے بحث کی طوالت بھی
ماجد صدیقی

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 83
یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارا عشق بھی اب ماند ہے جیسے کہ تم ہو
تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو
سو اب خود پر ندامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کردیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کہاں لے جائیں اے دل ہم تری وسعت پسندی
کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
سلامت ہے کوئی خواہش نہ کوئی یاد زندہ
بتا اے شام وحشت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہن و دل کا
تمہارا غم علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
اذیّت تھی مگر لذّت بھی کچھ اس سے سوا تھی
اذیّت ہے اذیّت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بجا کہتے ہو تم ہونی تو ہو کر ہی رہے گی
تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
شمار و بے شماری کے تردّد سے گزر کر
مآلِ عشق وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے
عرفان ستار

اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 46
روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغئیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بے کس اور بے کس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مری حالت کی یاد
طاقتِ جنبش نہیں اس حال پہ قصدِ عدم
مر گئے پر بھی رہے گی اپنی اس ہمت کی یاد
غالباً ایامِ حرماں بے خودی میں کٹ گئے
آتی ہے پھر آرزو بھولی ہوئی مدت کی یاد
دل لگانے کا ارادہ پھر ہے شائد شیفتہ
ایسی حسرت سے جو ہے گزری ہوئی الفت کی یاد
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ کوئی شخص نہیں تھا، وہ ایک حالت تھی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 154
گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
وہ کوئی شخص نہیں تھا، وہ ایک حالت تھی
وہ بات جس کا گلہ تک نہیں مجھے، پر ہے
کہ میری چاہ نہیں تھی، مری ضرورت تھی
وہ بیدلی کی ہوائیں چلیں کہ بھول گئے
کہ دل کے کون سے موسم کی کیا روایت تھی
نہ اعتبار نہ وعدہ، بس ایک رشتہ دید
میں اُس سے روٹھ گیا تھا، عجیب ہمت تھی
گمانِ شوق، وہ محمل نظر نہیں آتا
کنارِ دشت وہی تو بس اک عمارت تھی
حساب عشق میں آتا بھی کسی حسین کا نام
کہ ہر کسی میں کسی اور کی شباہت تھی
ہے اُس سے جنگ اب ایسی کہ سامنا نہ کریں
کبھی اُسی سے کمک مانگنے کی عادت تھی
جون ایلیا

آشوب وحدت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 115
والے فرقت میں وصلت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
آشوب وحدت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
روح کل سےسب روحوں پر وصل کی حسرت طاری ہے
اک سر حکمت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہں
پر احوالیت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
مختاری کے لب سلوانا جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجان غیرت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
بابا الف ارشاد کناں ہیں پیش عدم کے بارے میں
حیرت بے حیرت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
معنی ہیں لفظوں سے برہم قہر خموشی عالم ہے
ایک عجب حجت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
موجودی سے انکاری ہے اپنی ضد میں ناز وجود
حالت سی حالت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں
جون ایلیا

وہ نہیں تھا میری طبیعت کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 17
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
جون ایلیا

آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی

دیوان دوم غزل 958
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح
دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی
لوح سینہ پر مری سو نیزئہ خطی لگے
خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی
کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں
دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی
پائوں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں
رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی
مر گیا آوارہ ہوکر میں تو جیسے گردباد
پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی
شاد و خوش طالع کوئی ہو گا کسو کو چاہ کر
میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی
دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں
گذرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی
شوق دل ہم ناتوانوں کا لکھا جاتا ہے کب
اب تلک آپھی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی
کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا
جان سے جب اس میں گذرے تب ہمیں راحت ہوئی
یوں تو ہم عاجزترین خلق عالم ہیں ولے
دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی
گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا
کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی
بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے
معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا
پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی
کم کسو کو میر کی میت کی ہاتھ آئی نماز
نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی
میر تقی میر

رنج و محنت کمال راحت ہے

دیوان اول غزل 583
نالۂ عجز نقص الفت ہے
رنج و محنت کمال راحت ہے
عشق ہی گریۂ ندامت ہے
ورنہ عاشق کو چشم خفت ہے
تا دم مرگ غم خوشی کا نہیں
دل آزردہ گر سلامت ہے
دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچۂ جراحت ہے
رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے
فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے
نہ تجھے رحم نے اسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے
تو تو نادان ہے نپٹ ناصح
کب موثر تری نصیحت ہے
دل پہ جب میرے آ کے یہ ٹھہرا
کہ مجھے خوش دلی اذیت ہے
رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں
وقت جاتا رہے تو حسرت ہے
کیا ہے پھر کوئی دم کو کیا جانو
دم غنیمت میاں جو فرصت ہے
تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو میخانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
ایسے ہنس مکھ کو شمع سے تشبیہ
شمع مجلس کی رونی صورت ہے
باطل السحر دیکھ باطل تھے
تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے
ابرتر کے حضور پھوٹ بہا
دیدئہ تر کو میرے رحمت ہے
گاہ نالاں طپاں گہے بے دم
دل کی میرے عجب ہی حالت ہے
کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصۂ محبت ہے
تربت میر پر ہیں اہل سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے
تو بھی تقریب فاتحہ سے چل
بخدا واجب الزیارت ہے
میر تقی میر

اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 46
اس کڑے وقت کی قدر و قیمت سمجھ
اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ
جو نہیں ، اُس پہ اتنی توجہ نہ دے
اور جو ہے، اُسی کو غنیمت سمجھ
سب سے تنہا بھی ہوں ، سب سے گنجان بھی
تو خُدا کی طرح میری حالت سمجھ
اِس پہ پلتے ہیں سب سورما شہر کے
میرے افلاس کو میری دولت سمجھ
زندگی کھیل نابالغوں کا نہیں
اپنے نقصان کو فائدہ مت سمجھ
ہے فلک گیر زورِ ارادہ میرا
اس زمانے کو میری ولایت سمجھ
آفتاب اقبال شمیم