ٹیگ کے محفوظات: جیت

سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت

دیوان سوم غزل 1112
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میر چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمارخانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہگذر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میر سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
میر تقی میر

وہ رات گئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رت بیت گئی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 68
کیا سوچتے ہو اب پھولوں کی رت بیت گئی، رت بیت گئی
وہ رات گئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رت بیت گئی
اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہونٹوں کے کنول، آنکھوں کے دیے
اک گونجتی آندھی وقت کی بازی جیت گئی، رت بیت گئی
تم آ گئے میری باہوں میں، کونین کی پینگیں جھول گئیں
تم بھول گئے، جینے کی جگت سے ریت گئی، رت بیت گئی
پھر تیر کے میرے اشکوں میں گل پوش زمانے لوٹ چلے
پھر چھیڑ کے دل میں ٹیسوں کے سنگیت گئی، رت بیت گئی
اک دھیان کے پاؤں ڈول گئے، اک سوچ نے بڑھ کر تھام لیا
اک آس ہنسی، اک یاد سنا کر گیت گئی، رت بیت گئی
یہ لالہ و گل، کیا پوچھتے ہو، سب لطفِ نظر کا قصہ ہے
رت بیت گئی، جب دل سے کسی کی پیت گئی، رت بیت گئی
مجید امجد