منصور آفاق ۔ غزل نمبر 584
باغِ جہاں میں لالہ و گل کی جھڑی لگے
لیکن نہ میرے ہاتھ کوئی پنکھڑی لگے
ہوتی مکین سے ہے مکانوں کی اہمیت
اُس کا نیا محل بھی مجھے جھوپڑی لگے
جو خواب میں دکھائی دے پچھلے سمے مجھے
اس کے بریدہ دھڑ پہ کوئی کھوپڑی لگے
عیار ہی نہیں ہے وہ دلدار نازنیں
کچھ شکل سے بھی رنگ بھری لومڑی لگے
میری گلی میں ہوکوئی تازہ کہکشاں
دوچار قمقموں کی اِ دھر بھی لڑی لگے
ہوتے ہیں بس غریب گرفتار آئے دن
منصور اہلِ زر کو کبھی ہتھکڑی لگے
منصور آفاق