ٹیگ کے محفوظات: جھوٹا

میرا تو سب شہر سے اِک جیسا ناتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
کون نہیں اور کون، کہوں، مجھ کو بھاتا ہے
میرا تو سب شہر سے اِک جیسا ناتا ہے
وقت ہمیں بھی اَب وہ لاڈ دلائے جیسے
نوکر مالک کے بچّے کو بہلاتا ہے
جس کے مُنہ پر جھُوٹ ہے سچّا اُس کو جانو
سچ کہتا ہے جو بھی شخص وُہی جھُوٹا ہے
رُت، جو پھُول لُٹے ہیں شاید پھر لوٹا دے
دل میں باقی ہے تو ایک یہی آشا ہے
ہونٹ ہی حرف و صوت سے کچھ محروم نہیں ہیں
آنکھوں تک میں بھی اِک جیسا سناٹا ہے
کشتی کے پتوار نہ جل ہی سے جل جائیں
ہر راہرو کے ذہن میں ایک یہی چِنتا ہے
کانوں میں پھنکار سی اِک پہنچی ہے، کہیں سے
چڑیوں پر پھر شاید سانپ کہیں جھپٹا ہے
ماجد صدیقی

سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 29
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
ہجر کے دلان اور آنگن میں بس ایک سایہ زندہ تھا
وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا
وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا
تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی، وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو، جانے والا زندہ تھا
دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا
پیلے پتوں کی سہ پہر کی وحشت پرسہ دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس ایک کوا زندہ تھا
جون ایلیا

کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 25
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا
وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی
میں بھی حُجرے سے کم نکلتا تھا
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
بات تو دل شکن ہے پر، یارو!
عقل سچی تھی، عشق جھوٹا تھا
اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
جسم کی صاف گوئی کے با وصف
روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا
جون ایلیا

یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا

دیوان اول غزل 127
گئے قیدی ہو ہم آواز جب صیاد آ لوٹا
یہ ویراں آشیانے دیکھنے کو ایک میں چھوٹا
مرا رنگ اڑ گیا جس وقت سنگ محتسب آگے
بغل سے گر پڑا مینا و ساغر چور ہو پھوٹا
مرا وعدہ ہی آپہنچا ترے آنے کے وعدے تک
ہوا میں موت سے سچا رہا اے شوخ تو جھوٹا
کف جاناں سے کیا امکاں رہائی میر کوئی ہو
اچنبھا ہے جو اس کے ہاتھ سے رنگ حنا چھوٹا
میر تقی میر