ٹیگ کے محفوظات: جھونکا

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا
اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا
تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا
کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا
جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا
تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا
یوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
ناصر کاظمی

میں بھی تیرے جیسا ہوں

اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دُکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دِیا جلائے کون
مَیں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رُت مجھے روئے گی
جاتی رُت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
ناصر کاظمی

مرے آگے مرا سجدہ پڑا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 603
رسن کا سامنے رستہ پڑا ہے
مرے آگے مرا سجدہ پڑا ہے
ازل کی جاگتی آنکھوں میں آ کر
کہاں سے نیند کا جھونکا پڑا ہے
ابھی کچھ اور جینا چاہتا ہوں
ابھی اجداد کا قرضہ پڑا ہے
یزیدوں سے میں کیسے صلح کرلوں
مرے گھر تازیہ میرا پڑا ہے
خدا سے عین ممکن ہے ملاقات
ابھی تو آخری زینہ پڑا ہے
سبھی عشاق ہیں اک روحِ کل کے
فقیروں میں کبھی جھگڑا پڑا ہے
بھلا مایوس کیوں ہوں آسماں سے
جسے مارا گیا زندہ پڑا ہے
اک ایسی مملکت میں جی رہا ہوں
جہاں آسیب کا سایہ پڑا ہے
بصد افسوس تیرانامِ نامی
مجھے دیوار پر لکھنا پڑا ہے
جہالت کے جہاں بہتے ہیں دریا
اسی اسکول میں پڑھنا پڑا ہے
یہ شامِزرد رُو کا سرخ فتنہ
ہے باقی جب تلک دنیا، پڑا ہے
اسی پل کا ہوں میں بھی ایک حصہ
جہاں خاموش دریا سا پڑا ہے
ابھی آتش فشاں کچھ اور بھی ہیں
پہاڑوں میں ابھی لاوا پڑا ہے
پڑا تہذیب کے منہ پر طمانچہ
سڑک پہ پھر کوئی ننگا پڑا ہے
زمانے سے چھپا رکھی ہیں آنکھیں
مگر وہ دیکھنے والا پڑا ہے
نہیں ہے تیری لافانی کہانی
مجھے منصور سے کہنا پڑا ہے
منصور آفاق

آپ ہوں یا ہوا کا جھونکا ہو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 95
کوئی نغمہ تو در سے پیدا ہو
آپ ہوں یا ہوا کا جھونکا ہو
وہ نظر بھی نہ دے سکی تسکیں
اے دل بے قرار اب کیا ہو
کام آتے نہیں تماشائی
ایک ساتھی ہو اور اپنا ہو
وہ اندھیروں کے طور کیا جانے
جس کے گھر میں چراغ جلتا ہو
دل سے اک بات کر رہے ہیں ہم
پاس بیٹھا نہ کوئی سنتا ہو
اس کے غم کا علاج کیا باقیؔ
بے سبب جو اداس رہتا ہو
باقی صدیقی