لہجے کی حلاوت میں وہ انمول رہا ہے
ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے
وہ حُسن کی خیرات نہ دینے پہ ہے مائل
ہم ہیں کہ سدا ہاتھ میں کشکول رہا ہے
اے ہوش و خرد! وقت نہیں اِذنِ سُخن کا
خاموش! کہ سر چڑھ کے جنوں بول رہا ہے
ہر سمت ہے گھنگھور گھٹا صائقہ بردار
اُور طائرِ فکر اُڑنے کو پر تول رہا ہے
یہ مسندِ انصاف ہے محرومِ بصارت
ہر حرفِ صداقت میں یہاں جھول رہا ہے
آئینے سے نظریں وہ ہٹائیں تو نظر آئے
میں ڈول رہا ہُوں کہ جہاں ڈول رہا ہے
یہ لاش یقیناً کسی سچائی کی ہو گی
جم جم کے ہر اک قطرہِ خُوں بول رہا ہے
ضامنؔ! کوئی ہو گا نہ کبھی گوش بر آواز
یوں زہر سماعت میں جو تُو گھول رہا ہے
ضامن جعفری