ٹیگ کے محفوظات: جھنکار

میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو

جب تَلک سارا زمانہ ہی طرب زار نہ ہو
میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو
اک نیا دل سا دھڑکتا ہے مرے سینے میں
ان کی نظروں کے تصادم کی یہ جھنکار نہ ہو
قوتِ دید و نظر ان پہ نچھاور ہو جائے
اس طرح دیکھ کہ پھر زحمتِ دیدار نہ ہو
بے سبب تو نہیں ہونٹوں پہ خموشی کا نُزول
سوچتا ہوں کہ کسی پر میرا غم بار نہ ہو
ہائے، وہ آگ کہ جو دل میں سُلگتی ہی رہے
ہائے، وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
یہ تبسّم مرا حق ہے تو عنایت ہو جائے
وہ عنایت کہ جو مِنّت کشِ ایثار نہ ہو
مسکراہٹ کو ترستی ہیں ابھی کچھ کلیاں
میرے ہونٹوں پہ تبسّم ابھی بیدار نہ ہو
بدگمانی تو محبت کی علامت ہے، شکیبؔ
یہ بھی ممکن ہے گلستاں میں کوئی خار نہ ہو
شکیب جلالی

پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقد ار یہاں
پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں
کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
موج درموج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں
سرپٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ‘ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا‘ پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن
لَب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں
سرخیِ دامنِ گُل کس کو میّسر آئی؟
اپنے ہی خوں میں نہائے لَب و رُخسار یہاں
ہم سفر چھوٹ گئے‘ راہنما رُوٹھ گئے
یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں
تیرگی ٹوٹ پڑی‘ زور سے بادل گرجا
بجھ گئی سہم کے قندیلِ رُخِ یار یہاں
کتنے طوفان اُٹھے‘ کتنے ستارے ٹوٹے
پھر بھی ڈُوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں
میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار
میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُرخار! یہاں
شکیب جلالی

سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی

ہر چند رہگزر تھی دشوار قافیے کی
سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی
دن کا سکون غارت راتوں کی نیند غائب
سر پر لٹک رہی ہے تلوار قافیے کی
ہم اس کو باندھتے کیا جکڑا ہے اس نے ہم کو
اب دیکھتے ہیں صورت ناچار قافیے کی
اِس آس پر کہ شاید ہو جائے تنگ ہم پر
کرتے رہے خوشامد اغیار قافیے کی
تازہ ہوا چلی اور اک لہر دل میں اٹھی
روکے نہ رک سکی پھر یلغار قافیے کی
پایا سراغِ مضموں گاہے ردیف میں بھی
لازم نہ تھی سماجت ہر بار قافیے کی
دشتِ خیال میں پھر کیا کیا کھُلے مناظر
کچھ دیر کو ہٹی تھی دیوار قافیے کی
جب شعر کا سفینہ بحرِ غزل میں ڈولا
اُس وقت کام آئی پتوار قافیے کی
مغرب کی ہو کہانی یا مشرقی روایت
اونچی رہی ہمیشہ دستار قافیے کی
کچھ شعر کام کے بھی اِس میں نکالے ہم نے
وہ کہتے تھے زمیں ہے بیکار قافیے کی
پھر اور کوئی نغمہ بھائے نہ اُس کو باصِرؔ
جو ایک بار سن لے جھنکار قافیے کی
باصر کاظمی

رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 13
جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم
رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم
فیض جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم
فیض احمد فیض