ٹیگ کے محفوظات: جھل

بارش میں گلاب جل رہا ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 120
موسم کا عذاب چل رہا ہے
بارش میں گلاب جل رہا ہے
پھر دیدہ و دل کی خیر یارب!
پھر ذہن میں خواب پل رہا ہے
صحرا کے سفر میں کب ہوں
تنہا ہمراہ سراب چل رہا ہے
آندھی میں دُعا کو بھی نہ اُٹھا
یوں دستِ گُلاب شل رہا ہے
کب شہرِ جمال میں ہمیشہ
وحشت کا عتاب چل رہا ہے
زخموں پہ چھڑک رہا ہے خوشبو
آنکھوں پہ گلاب مَل رہا ہے
ماتھے پہ ہَوانے ہاتھ رکھے
جسموں کو سحاب جھل رہا ہے
موجوں نے وہ دُکھ دیے بدن کو
اب لمسِ حباب کَھل رہا ہے
قرطاسِ بدن پہ سلوٹیں ہیں
ملبوسِ کتاب ،گل رہا ہے
پروین شاکر

کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا

دیوان دوم غزل 703
یار ہے میر کا مگر گل سا
کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا
یاں کوئی اپنی جان دو دشوار
واں وہی ہے سو ہے تساہل سا
دود دل کو ہمارے ٹک دیکھو
یہ بھی پر پیچ اب ہے کاکل سا
شوق واں اس کے لمبے بالوں کا
یاں چلا جائے ہے تسلسل سا
کب تھی جرأت رقیب کی اتنی
تم نے بھی کچھ کیا تغافل سا
اک نگہ ایک چشمک ایک سخن
اس میں بھی تم کو ہے تامل سا
بارے مستوں نے ہوشیاری کی
دے کے کچھ محتسب کا منھ جھلسا
شرم آتی ہے پہنچتے اودھر
خط ہوا شوق سے ترسل سا
ٹوٹی زنجیر پاے میر مگر
رات سنتے رہے ہیں ہم غل سا
میر تقی میر

کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے

دیوان اول غزل 586
تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے
کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے
اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
فانوس کی سی شمع جو پردے میں جل سکے
کہتا ہے کون تجھ کو کہ اے سینہ رک نہ جا
اتنا تو ہو کہ آہ جگر سے نکل سکے
گر دوپہر کو اس کو نکلنے دے نازکی
حیرت سے آفتاب کی پھر دن نہ ڈھل سکے
کیا اس غریب کو ہو سرسایۂ ہما
جو اپنی بے دماغی سے مکھی نہ جھل سکے
ہے جاے حیف بزم جہاں مل لے اے پتنگ
اپنے اپر جو کوئی گھڑی ہاتھ مل سکے
ہے وہ بلاے عشق کہ آئے سو آئے ہے
کلول نہیں ہے ایسی محبت کہ ٹل سکے
کس کو ہے آرزوے افاقت فراق میں
ایسا تو ہو کہ کوئی گھڑی جی سنبھل سکے
مت ابر چشم کم سے مری چشم تر کو دیکھ
چشمہ ہے یہ وہ جس سے کہ دریا ابل سکے
کہتا ہے وہ تو ایک کی دس میر کم سخن
اس کی زباں کے عہدے سے کیونکر نکل سکے
تغئیرقافیہ سے یہ طرحی غزل کہوں
تا جس میں زور کچھ تو طبیعت کا چل سکے
میر تقی میر

اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 54
اپنے دل کی چٹان سے پوچھو، ریزہ اک پنکھڑی کا کتنا بوجھل ہے
اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے
جس کو دیکھو اپنے سفر کی دنیا بھی ہے، اپنے سفر میں تنہا بھی
قدم قدم پر اپنے آپ کے سامنے ہے اور اپنے آپ سے اوجھل ہے
روح سے روح کا نازک بندھن، پھولوں کی زنجیر میں جکڑی زندگیاں
کتنے دکھ ہیں، کتنا چین ہے، کیسی دھوپ ہے، کتنا گہرا بادل ہے
آنکھ کی پتلی، سانس کی ڈوری، دِل کی تھاپ، اک پل کی نرت کا تماشا ہے
گلتی کھوپڑیوں سے چنی دیواروں پر اک جلتی جوت کی جھل جھل ہے
ایک زمانے سے یہی رستہ زیرِ قدم ہے، اک اک جھونکا محرم ہے
آج جو من کی اوٹ سے دیکھا، ہر سو اک ان دیکھی رت کی چھل بل ہے
بہتی روشنیاں، بے کار شعاعیں، بکھری ٹھیکریاں، بے حرف سلیں
اک دِن انت یہی ہے مگر وہ ایک کرن جو دل کے ورق پر جدول ہے
مجید امجد