ٹیگ کے محفوظات: جگر

دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ

کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ
بھولا نہیں ہوں مقتلِ امید کا سماں
تحلیل ہو رہا تھا شفق میں سحر کا رنگ
دنیا غریقِ شعبدہِ جام جم ہوئی
دیکھے گا کون خونِ دلِ کو زہ گر کا رنگ
الجھے ہوئے دھوئیں کی فضا میں ہے اک لکیر
کیا پوچھتے ہو شمع سرِ رہ گزر کا رنگ
دامانِ فصل گل پہ خزاں کی لگی ہے چھاپ
ذوقِ نظر پہ بار ہے برگ و ثمر کا رنگ
جمنے لگی شکیبؔ جو پلکوں پہ گردِ شب
آنکھوں میں پھیلنے لگا خوابِ سحر کا رنگ
شکیب جلالی

اِس میں لگ جائے گا جگر پورا

چاہتے ہو اگر ہنر پورا
اِس میں لگ جائے گا جگر پورا
یا تو ہو جائیں اِس میں پورے غرق
یا کریں عشق سے حذر پورا
جانتا ہوں کہ خیر خواہ ترے
تجھ کو رکھتے ہیں باخبر پورا
مشورہ اُس مشیر سے مت کر
ہو جو آدھا اِدھر اُدھر پورا
پھول خوشبو سے بھر گئے باصِرؔ
چاند چمکا ہے رات بھر پورا
باصر کاظمی

اظہارِ حال کرنے کا دل نے جگر کیا

کیا تیری ایک نیم نگہ نے نڈر کیا
اظہارِ حال کرنے کا دل نے جگر کیا
اب بھی اگرچہ روز نکلتا ہے آفتاب
دن تھا وہی جو ساتھ تمہارے بسر کیا
تُو نے تو خیر ہم کو بلانا تھا کیا مگر
ہم نے بھی دیکھ کر ترے تیور حذر کیا
تھے تیرے پاس قطعِ تعلق کے سو جواز
ہم نے بھی ترکِ عشق کسی بات پر کیا
اب کے چلی ہوائے حقیقت کچھ ایسی تیز
نخلِ گمان آن میں بے برگ و بر کیا
تُو نے بھی جاں کھپائی ہے باصرِؔ ہمارے ساتھ
جا اپنے ساتھ ہم نے تجھے بھی امر کیا
باصر کاظمی

جذبۂ رشک و رقابت ہے جگر میں اُترا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
اُس سے جو فرقِ ممالک ہے نظر میں اُترا
جذبۂ رشک و رقابت ہے جگر میں اُترا
کاش یہ سوچتا میں ساکھ نہ کھو دوں اپنی
میں کہ تھا پہلے پہل پہلوئے شر میں اُترا
ماجد صدیقی

بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
منظر سے ذرا ہٹ کر پل بھر جو ادھر دیکھوں
بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں
جلتے ہیں، اگر ان کے ٹخنے بھی کوئی چھولے
قامت میں بہت چھوٹے سب اہلِ نظر دیکھوں
لگتا ہے پرندوں سا بکھرا ہوا رزق اپنا
بیٹھوں بھی تو پیروں کو مصروفِ سفر دیکھوں
کس ابر سے نیساں کے آنکھیں ہیں نم آلودہ
کیا کیا ہیں صدف جن میں بے نام گہر دیکھوں
آتا ہے نظر ماجدؔ! کیا کچھ نہ جبینوں پر
ایسے میں بھلا کس کے مَیں قلب و جگر دیکھوں
ماجد صدیقی

تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
سر جھکانا ہے اُس کے در پہ ہمیں
تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں
بھیج کر اُس نے کب خبر لی ہے
زندگانی کے اِس سفر پہ ہمیں
تتلیوں سی لگے نہ ہاتھ لگے
اعتبار اب نہیں سحر پہ ہمیں
آنکھ اٹھنے نہ دے کسی جانب
زہر کا سا گماں ہے زر پہ ہمیں
ہم سے کہہ کر وہ اپنے آنے کی
ٹانک دیتا ہے بام و در پہ ہمیں
جانے کیونکر گماں صحیفوں کا
ہونے لگتا ہے چشمِ تر پہ ہمیں
جانے کس خوف کی لگے ماجدؔ
چھاپ سی اک نگر نگر پہ ہمیں
ماجد صدیقی

تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قفس دیکھئے بال و پر دیکھئے
تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے
ذرا میری صورت تو پہچانیۓ
ذرا میرے دیوار و در دیکھئے
اُدھر دیکھئے اُن کے جور و ستم
اِدھر آپ میرا جگر دیکھئے
جو مدّت سے ماجدؔ مرے دل میں ہے
وہی خامشی در بہ در دیکھئے
ماجد صدیقی

ہوتا نہیں چاند کا گزر تک

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ حال ہے اب اُفق سے گھر تک
ہوتا نہیں چاند کا گزر تک
یہ آگ کہاں دبی پڑی تھی
پہنچی ہے جو اَب دل و جگر تک
دیکھا تو یہ دل جہاں نما تھا
محدود تھے فاصلے نظر تک
ہوں راہیِ منزلِ بقا اور
آغاز نہیں ہُوا سفر تک
تھے رات کے زخم یا ستارے
بُجھ بُجھ کے جلے ہیں جو سحر تک
ہے ایک ہی رنگ، دردِ جاں کا
ماجدؔ نمِ چشم سے شرر تک
ماجد صدیقی

کس اسم کے جمال سے بابِ ہُنر کُھلے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 105
سرگوشی بہار سے خوشبو کے در کھلے
کس اسم کے جمال سے بابِ ہُنر کُھلے
جب رنگ پا بہ گِل ہوں ، ہوائیں بھی قید ہوں
کیا اُس فضا میں پرچمِ زخمِ جگر کُھلے
خیمے سے دُور ، شام ڈھلے ، اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں ، بے وقت ، سر کُھلے
شاید کہ چاند بُھول پڑے راستہ کبھی
رکھتے ہیں اِس اُمید پہ کچھ لوگ گھر کُھلے
وہ مُجھ سے دُور خوش ہے؟ خفا ہے؟ اُداس ہے؟
کس حال میں ہے؟ کُچھ تو مرا نامہ بر کُھلے
ہر رنگ میں وہ شخص نظر کو بھلا لگے
حد یہ__کہ رُوٹھ جانا بھی اُس شوخ پر کُھلے
کُھل جائے کن ہواؤں سے رسمِ بدن رہی
خلوت میں پُھول سے کبھی تتلی اگر کُھلے
راتیں تو قافلوں کی معیت میں کاٹ لیں
جب روشنی بٹی تو کئی راہبر کُھلے
پروین شاکر

وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 145
ان کی تجلیوں کا اشر کچھ نہ پوچھیے
وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے
از شامِ ہجر تا بہ سحر کچھ نہ پوچھیے
کٹتے ہیں کیسے چار پہر کچھ نہ پوچھیے
بجلی جو شاخ، گل پہ گری اس کا غم نہیں
لیکن وہ اک غریب کا گھر کچھ نہ پوچھیے
ہو ایک راستہ تو کوئی ڈھونڈے انھیں
کتنی ہے ان کی راہگزر کچھ نہ پوچھیے
تنکے وہ نرم نرم سے پھولوں کی چھاؤں میں
کیسا بنا تھا باغ میں گھر کچھ نہ پوچھیے
بس آپ دیکھ جایئے صورت مریض کی
نبضوں کا حال دردِ جگر کچھ نہ پوچھیے
جب چاندنی میں آ کے ہوئے تو وہ میہماں
تاروں بھری وہ رات قمر کچھ نہ پوچھیے
قمر جلالوی

غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 54
ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے "دے” و "تیر” کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 29
اُس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جاتا تھا ہمارے بھی گھر آیا
کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لختِ جگر آیا
گو کچھ نہ کہا، پر ہوئے دل میں متاثر
شکوہ جو زباں پر مری آشفتہ تر آیا
بے طاقتیِ شوق سے میں اٹھ ہی چکا تھا
ناگاہ وہ بے تاب مری قبر پر آیا
بے قدر ہے مفلس شجرِ خشک کی مانند
یاں درہم و دینار میں برگ و ثمر آیا
حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجہ
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا
دیکھے کہ جدائی میں ہے کیا حال، وہ بدظن
اس واسطے شب گھر میں مرے بے خبر آیا
کیا دیر ہے اے ساقیِ گلفام سحر ہے
کیا عذر ہے اے زاہدِ خشک، ابرِ تر آیا
احوال میں ہیں شیفتہ کی مختلف اقوال
پوچھیں گے، وہاں سے جو کوئی معتبر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 122
وہ زلف ہے پریشاں، ہم سب ادھر چلے ہیں
تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں
تم بھی چلو غزالاں، کوئے غزال چشماں
درشن کا آج دن ہے سب خوش نظر چلے ہیں
رنگ اس گلی خزاں کے موسم میں کھیلنے کو
خونیں دلاں گئے ہیں خونیں جگر چلے ہیں
اب دیر مت لگا چل، اے یار بس چلا چل
دیکھیں یہ خوش نشینیاں آخر کدھر چلے ہیں
بس اب پہنچ چکے ہیں ہم یاراں سوئے بیاباں
ساتھ اپنے ہم کو لے کر دیوار و در چلے ہیں
دنیا تباہ کر کے ہوش آگیا ہے دل کو
اب تو ہماری سن اب ہم سدھر چلے ہیں
ہے سلسلے عجب کچھ اس خلوتی سے اپنا
سب اس کے گھر چلے ہیں ہم اپنے گھر چلے ہیں
جون ایلیا

تجھ زبانی تری خبر چاہوں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 94
خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں
تجھ زبانی تری خبر چاہوں
میں تجھے اور تو ہے کیا کیا کچھ
ہوں اکیلا پہ رات بھر چاہوں
مجھ سے میرا سراغ کیوں کہ یہ کام
میں ترے نقشِ پا کہ سر چاہوں
خونِ گرم اپنا پارچے اپنے
میں خود اپنی ہی میز پر چاہوں
ہیں بیاباں مری درازوں میں
کیوں بگولے برہنہ سر چاہوں
مجھ کو گہرائی میں اترنا ہے
پر میں گہرائی سطح پر چاہوں
اک نظر ڈالنی ہے منظر پر
کہکشائیں کمر کمر چاہوں
ضد ہے زخموں میں بیر جذبوں میں
میں کئی دل کئی جگر چاہوں
اب تو اس سوچ میں ہوں سرگرداں
کیا میں چاہوں بھلا اگر چاہوں
جون ایلیا

رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 225
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لئے اسدؔ
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 190
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبـئ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانے نے اسدؔاللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
مرزا اسد اللہ خان غالب

سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 181
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں
بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں
خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر، گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کُھلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 175
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں@ گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
@نسخۂ نظامی میں ’آئے‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے

دیوان ششم غزل 1885
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر اک جوں ابر میرے گھر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے
سو بار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
چھاتی کے جلنے سے ہی شاید کہ آگ سلگی
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے
نکلا سو سب جلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہال خواہش برگ و گل و ثمر سے
جھڑ باندھنے کا ہم بھی دیں گے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آکر آگے ہمارے برسے
سو نامہ بر کبوتر کر ذبح ان نے کھائے
خط چاک اڑے پھریں ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشم نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینوں ترسے
اپنا وصول مطلب اور ہی کسی سے ہو گا
منزل پہنچ رہیں گے ہم ایسے رہگذر سے
سر دے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے درد سر سے
میر تقی میر

پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں

دیوان ششم غزل 1851
آئے ہیں میر کافر ہوکر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خونناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہو گا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
میر تقی میر

سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک

دیوان ششم غزل 1831
رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
ستارے فلک کے رہے ہیں ادھر تک
قیامت ہے مشتاق لوگوں کی کثرت
پہنچنا ہے مشکل ہمیں اس کے گھر تک
کہاں تک اسے سر سے مارا کروں میں
نہ پہنچا مرا ہاتھ اس کی کمر تک
بہار آئی پر ایک پتی بھی گل کی
نہ آئی اسیران بے بال و پر تک
بہت میر برہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
میر تقی میر

دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر

دیوان ششم غزل 1827
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میر مرکر
میر تقی میر

مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب

دیوان ششم غزل 1809
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب
مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب
لے جا کے نامے کتنے کبوتر ہوئے ہیں ذبح
اڑتی سی ہم کو آوے خبر تو ہے کیا عجب
شبہاے تار و تیرہ زمانے میں دن ہوئیں
شب ہجر کی بھی ہووے سحر تو ہے کیا عجب
جیسے ہے رخنہ رخنہ یہ چرخ اثیر سب
اس آہ کا ہو اس میں اثر تو ہے کیا عجب
جاتی ہے چشم شوخ کسی کی ہزار جا
آوے ادھر بھی اس کی نظر تو ہے کیا عجب
لغزش ملک سے ہووے لچک اس کمر کی دیکھ
عاشق سے جو بندھے نہ کمر تو ہے کیا عجب
ترک وطن کیا ہے عزیزوں نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر تو ہے کیا عجب
برسوں سے ہاتھ مارتے ہیں سر پہ اس بغیر
ہووے بھی ہم سے دست بسر تو ہے کیا عجب
معلوم سودمندی عشاق عشق میں
پہنچے ہے اس سے ہم کو ضرر تو ہے کیا عجب
گھر بار میں لٹا کے گیا گھر سے بھی نکل
اب آوے وہ کبھو مرے گھر تو ہے کیا عجب
ملتی نہیں ہے آنکھ اس آئینہ رو کی میر
وہ دل جو لے کے جاوے مکر تو ہے کیا عجب
میر تقی میر

ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا

دیوان ششم غزل 1800
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظارکشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کرآیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میر کے اشکوں کا تا کمر آیا
میر تقی میر

کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے

دیوان پنجم غزل 1726
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے
یہ راہ و روش سرو گلستاں میں نہ ہو گی
اس قامت دلچسپ کا انداز دگر ہے
یہ بادیۂ عشق ہے البتہ ادھر سے
بچ کر نکل اے سیل کہ یاں شیر کا ڈر ہے
وہ ناوک دلدوز ہے لاگو مرے جی کا
تو سامنے ہو ہمدم اگر تجھ کو جگر ہے
کیا پھیل پڑی مدت ہجراں کو نہ پوچھو
مہ سال ہوا ہم کو گھڑی ایک پہر ہے
کیا جان کہ جس کے لیے منھ موڑیے تم سے
تم آؤ چلے داعیہ کچھ تم کو اگر ہے
تجھ سا تو سوار ایک بھی محبوب نہ نکلا
جس دلبر خودکام کو دیکھا سو نفر ہے
شب شور و فغاں کرتے گئی مجھ کو تو اب تو
دم کش ہو ٹک اے مرغ چمن وقت سحر ہے
سوچے تھے کہ سوداے محبت میں ہے کچھ سود
اب دیکھتے ہیں اس میں تو جی ہی کا ضرر ہے
شانے پہ رکھا ہار جو پھولوں کا تو لچکی
کیا ساتھ نزاکت کے رگ گل سی کمر ہے
کر کام کسو دل میں گئی عرش پہ تو کیا
اے آہ سحرگاہ اگر تجھ میں اثر ہے
پیغام بھی کیا کریے کہ اوباش ہے ظالم
ہر حرف میاں دار پہ شمشیر و سپر ہے
ہر بیت میں کیا میر تری باتیں گتھی ہیں
کچھ اور سخن کر کہ غزل سلک گہر ہے
میر تقی میر

یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ

دیوان پنجم غزل 1721
جان چلی جاتی ہے ہماری اس کی اور نظر کے ساتھ
یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ
شاہد عادل عشق کے دونوں پاس ہی حاضر ہیں یعنی
پہروں پہروں خشک لبی رہتی ہے چشم تر کے ساتھ
آنا اس کا ظاہر ہے پر مژدہ لایا یاں نہ کرو
جی ہی نکل جاوے گا اپنا یوں ہی ذوق خبر کے ساتھ
کیا رو ماہ و خور کو لیکن جھمکا اس کا دکھا دوں ہوں
روز و شب کچھ ضد سی ہوئی ہے مجھ کو شمس و قمر کے ساتھ
سینہ خالی آج پڑا ہے میر طرف سے پہلو کے
دل بھی شاید نکل گیا ہے روتے خون جگر کے ساتھ
میر تقی میر

راہی بھی کچھ سنا نہیں جاتے خبر ہنوز

دیوان پنجم غزل 1625
کب سے گیا ہے آیا نہیں نامہ بر ہنوز
راہی بھی کچھ سنا نہیں جاتے خبر ہنوز
خون جگر کو سوکھے ہوئے برسوں ہو گئے
رہتی ہیں میری آنکھیں شب و روز تر ہنوز
ہرچند آسماں پہ ہماری دعا گئی
اس مہ کے دل میں کرتی نہیں کچھ اثر ہنوز
مدت سے لگ رہی ہیں مری آنکھیں اس کی اور
وہ دیکھتا نہیں ہے غلط کر ادھر ہنوز
برسوں سے لکھنؤ میں اقامت ہے مجھ کو لیک
یاں کے چلن سے رکھتا ہوں عزم سفر ہنوز
تیشے سے کوہکن کے دل کوہ جل گیا
نکلے ہے سنگ سنگ سے اکثر شرر ہنوز
جل جل کے ہو گیا ہے کبد تو کباب میر
جول غنچہ ناشگفتہ ہے داغ جگر ہنوز
میر تقی میر

کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر

دیوان پنجم غزل 1608
کئی داغ ایسے جلائے جگر پر
کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر
گیا میری وادی سے سیلاب بچ کر
نظر یاں جو کی عشق کے شیرنر پر
سر رہ سے اس کے موئے ہی اٹھیں گے
یہ جی جا رہا ہے اسی رہگذر پر
سر اس آستاں پر رگڑتے گئے ہیں
ہوئے خون یاروں کے اس خاک در پر
ہم آتا اسے سن کے جیتوں میں آئے
بنا زندگانی کی ہے اب خبر پر
اسے لطف اس کا ہی لاوے تو لاوے
نہیں وصل موقوف کچھ زور و زر پر
سرکتے نہیں شوق کشتوں کے سر بن
قیامت سا ہنگامہ ہے اس کے در پر
اتر جو گیا دل سے روکش ہو اس کا
چڑھا پھر نہ خورشید میری نظر پر
بھری تھی مگر آگ دل میں دروں میں
ہوئے اشک سوزش سے اس کی شرر پر
گیا پی جو ان آنسوئوں کے تئیں میں
سراسر ہیں اب داغ سطح جگر پر
سرعجز ہر شام تھا خاک پر ہی
تہ دل تھی کیسی ہی آہ سحر پر
پلک اٹھے آثار اچھے نہ دیکھے
پڑی آنکھ ہرگز نہ روے اثر پر
طرف شاخ گل کی لچک کے نہ دیکھا
نظر میر کی تھی کسو کی کمر پر
غزل در غزل صاحبو یہ بھی دیکھو
نہیں عیب کرنا نظر اک ہنر پر
میر تقی میر

ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا

دیوان پنجم غزل 1540
منھ اپنا کبھو وہ ادھر کر رہے گا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
جو دلبر ہے ایسا تو دل جا چکا ہے
کسو روز آنکھوں میں گھر کر رہے گا
ہر اک کام موقوف ہے وقت پر ہی
دل خوں شدہ بھی جگر کر رہے گا
نہ ہوں گو خبر مردماں حال بد سے
مرا نالہ سب کو خبر کر رہے گا
فن شعر میں میر صناع ہے وہ
دل اس کا کوئی تو ہنر کر رہے گا
میر تقی میر

اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں

دیوان چہارم غزل 1447
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں
اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں
ہر لحظہ بے قراری ہر لمحہ آہ و زاری
ہر دم ہے اشکباری نومیدی ہے نظر میں
روتے ہی رہنا اکثر تہ چاہتا ہے سو تو
تاب اب نہیں ہے دل میں نے خون ہے جگر میں
یہ بخت دیکھ گاہے آتا ہے آنکھوں میں بھی
پر نقش اس کے پا کا بیٹھا نہ چشم تر میں
کیا راہ چلنے سے ہے اے میر دل مکدر
تو ہی نہیں مسافر ہے عمر بھی گذر میں
میر تقی میر

نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف

دیوان چہارم غزل 1416
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف
نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف
چھپاتے ہیں منھ اپنا کامل سے سب
نہیں کوئی کرتا ہنر کی طرف
بڑی دھوم سے ابر آئے گئے
نہ کوئی ہوا چشم تر کی طرف
اندھادھند روتے ہیں آنکھوں سے خون
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
رہا بے خبر گرچہ ہجراں میں میر
رہے گوش اس کی خبر کی طرف
میر تقی میر

بہ گیا خون ہو جگر افسوس

دیوان چہارم غزل 1402
اب نہیں ہوتی چشم تر افسوس
بہ گیا خون ہو جگر افسوس
دیدنی ہے یہ خستہ حالی لیک
ایدھر اس کی نہیں نظر افسوس
عیب ہی عیب میرے ظاہر ہیں
مجھ کو آیا نہ کچھ ہنر افسوس
میر ابتر بہت ہے دل کا حال
یعنی ویراں پڑا ہے گھر افسوس
میر تقی میر

تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1371
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ
تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ
خوش سیرتی ہے جس سے کہ ہوتا ہے اعتبار
ہے چوب خشک بو جو نہ ہووے اگر کے بیچ
اس کے سمند ناز کا پامال تو رہوں
اے کاش میری گور کریں رہگذر کے بیچ
منھ اس کا دیکھ رہیے کہ رفتار ناز کو
سرتا قدم ہے لطف ہی اس خوش پسر کے بیچ
ہر دانۂ سرشک میں تار نگاہ ہے
اس رشتے کی روش کہ جو ہووے گہر کے بیچ
کیا دل کو خوں کیا کہ تڑپنے لگا جگر
یکتاے روزگار ہیں ہم اس ہنر کے بیچ
ایسا ہوا ہے قیمہ کہ اب ہے حساب پاک
کہیے جو کچھ بھی باقی ہو اپنے جگر کے بیچ
ہے اپنے خانوادے میں اپنا ہی شور میر
بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ
میر تقی میر

جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں

دیوان سوم غزل 1215
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں
وہ آپ چل کے آوے تو شاید کہ جی رہے
ہوتی نہیں تسلی دل اب خبر سے یاں
پوچھے کوئی تو سینہ خراشی دکھایئے
سو تو نہیں ہے حرف و حکایت ہنر سے یاں
آگے تو اشک پانی سے آجاتے تھے کبھو
اب آگ ہی نکلنے لگی ہے جگر سے یاں
ٹپکا کریں ہیں پلکوں سے بے فاصلہ سرشک
برسات کی ہوا ہے سدا چشم تر سے یاں
اے بت گرسنہ چشم ہیں مردم نہ ان سے مل
دیکھیں ہیں ہم نے پھوٹتے پتھر نظر سے یاں
راہ و روش کا ہووے ٹھکانہ تو کچھ کہیں
کیا جانے میر آگئے تھے کل کدھر سے یاں
میر تقی میر

لگی ہے آگ اک میرے جگر میں

دیوان سوم غزل 1207
شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں
لگی ہے آگ اک میرے جگر میں
نگین عاشق و معشوق کے رنگ
جدا رہتے ہیں ہم وے ایک گھر میں
بلا ہنگامہ تھا کل اس کے در پر
قیامت گم ہوئی اس شور و شر میں
بگولے کی روش وحشت زدہ ہم
رہے برچیدہ دامن اس سفر میں
سماں یاں سانجھ کا سا ہو نہ جاتا
اثر ہوتا اگر آہ سحر میں
لچکنے ہی نے ہم کو مار رکھا
کٹاری تو نہ تھی اس کی کمر میں
رہا تھا دیکھ اودھر میر چلتے
عجب اک ناامیدی تھی نظر میں
میر تقی میر

یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1188
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں
یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں
رہے پھرتے دریا میں گرداب سے
وطن میں بھی ہیں ہم سفر میں بھی ہیں
کہاں سے کہ مجنوں بھی ہم سا ہی تھا
غلط کے شوائب نظر میں بھی ہیں
نہ بھولو نزاکت لچک ہی نہیں
چھپے خنجر اس کی کمر میں بھی ہیں
جھمک سطح رخ کی سی اس کے کہاں
صفا و ضیا تو گہر میں بھی ہیں
دل و دلی دونوں اگر ہیں خراب
پہ کچھ لطف اس اجڑے گھر میں بھی ہیں
چلو میر کے تو تجسس کے بعد
کہ وے وحشی تو اپنے گھر میں بھی ہیں
میر تقی میر

نہ یہی خوں دل و جگر ہے بس

دیوان سوم غزل 1142
عشق میں غم نہ چشم تر ہے بس
نہ یہی خوں دل و جگر ہے بس
رہ گئے منھ نہوں سے نوچ کے ہم
گر ہوس ہے اسی قدر ہے بس
آپ سے جا کے پھر نہ آئے ہم
بس ہمیں تو یہی سفر ہے بس
چاہ میں ہم نہیں زیادہ طلب
کبھو پوچھو جو تم خبر ہے بس
چشم پوشی نہ کر فقیر ہے میر
مہر کی اس کو اک نظر ہے بس
میر تقی میر

دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر

دیوان سوم غزل 1132
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منھ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
جس جاے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگرکاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تاشمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرئہ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میر ہم اس کام کو کر کر
میر تقی میر

طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا

دیوان سوم غزل 1101
چاہت کے طرح کش ہو کچھ بھی اثر نہ دیکھا
طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا
خالی بدن جیوں سے یاں ہو گئے ولیکن
اس شوخ نے ادھر کو بھر کر نظر نہ دیکھا
کس دن سرشک خونیں منھ پر نہ بہ کر آئے
کس شب پلک کے اوپر لخت جگر نہ دیکھا
یاں شہر شہر بستی اوجڑ ہی ہوتے پائی
اقلیم عاشقی میں بستا نگر نہ دیکھا
اب کیا کریں کہ آیا آنکھوں میں جی ہمارا
افسوس پہلے ہم نے ٹک سوچ کر نہ دیکھا
لاتے نہیں فرو سر ہرگز بتاں خدا سے
آنکھوں سے اپنی تم نے ان کا گہر نہ دیکھا
سوجھا نہ چاہ میں کچھ برباد کر چکے دل
میر اندھے ہو رہے تھے اپنا بھی گھر نہ دیکھا
میر تقی میر

تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا

دیوان سوم غزل 1087
اگر وہ ماہ نکل گھر سے ٹک ادھر آتا
تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا
مرید پیرمغاں صدق سے نہ ہم ہوتے
جو حق شناس کوئی اور بھی نظر آتا
نہ پتھروں سے جو سر کو دو پارہ میں کرتا
زمانہ غم کا مرے کس طرح بسر آتا
کسو ہنر سے تو ملتے تھے باہم اگلے لوگ
ہمیں بھی کاشکے ایسا کوئی ہنر آتا
شراب خانے میں شب مست ہو رہا شاید
جو میر ہوش میں ہوتا تو اپنے گھر آتا
میر تقی میر

قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو

دیوان دوم غزل 929
لا میری اور یارب آج ایک خوش کمر کو
قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو
بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا
ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو
پھولا پھلا نہ اب تک ہرگز درخت خواہش
برسوں ہوئے کہ دوں ہوں خون دل اس شجر کو
ہے روزگار میرا ایسا سیہ کہ یارو
مشکل ہے فرق کرنا ٹک شام سے سحر کو
ہرچند ہے سخن کو تشبیہ در سے لیکن
باتیں مری سنو تو تم پھینک دو گہر کو
نزدیک ہے کہ جاویں ہم آپ سے اب آئو
ملتے ہیں دوستوں سے جاتے ہوئے سفر کو
کب میر ابر ویسا برساوے کر اندھیری
جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو
میر تقی میر

کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں

دیوان دوم غزل 890
کوچے میں تیرے میر کا مطلق اثر نہیں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
مر جانا آنکھیں موند کے یہ کچھ ہنر نہیں
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوا نہ روز
کیا اے شب فراق تجھی کو سحر نہیں
ہر چند ہم کو مستوں سے صحبت رہی ہے لیک
دامن ہمارا ابر کے مانند تر نہیں
گلگشت اپنے طور پہ ہے سو تو خوب یاں
شائستۂ پریدن گلزار پر نہیں
کیا ہو جے حرف زن گذر دوستی سے آہ
خط لے گیا کہ راہ میں پھر نامہ بر نہیں
آنکھیں تمام خلق کی رہتی ہیں اس کی اور
مطلق کسو کو حال پہ میرے نظر نہیں
کہتے ہیں سب کہ خون ہی ہوتا ہے اشک چشم
راتوں کو گر بکا ہے یہی تو جگر نہیں
جاکر شراب خانے میں رہتا نہیں تو پھر
یہ کیا کہ میر جمعے ہی کی رات گھر نہیں
میر تقی میر

جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں

دیوان دوم غزل 874
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں
جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں
شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
رونے سے بھی نہ ہوا سبز درخت خواہش
گرچہ مرجاں کی طرح تھا یہ شجر پانی میں
موج گریہ کی وہ شمشیر ہے جس کے ڈر سے
جوں کشف خصم چھپا زیر سپر پانی میں
بیٹھنے سے کسو دل صاف کے سر مت تو چڑھے
خوب سا کر لے تامل تو اتر پانی میں
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
جوشش اشک میں شب دل بھی گیا سینے سے
کچھ نہ معلوم ہوا ہائے اثر پانی میں
بردباری ہی میں کچھ قدر ہے گو جی ہو فنا
عود پھر لکڑی ہے ڈوبے نہ اگر پانی میں
چشم تر ہی میں رہے کاش وہ روے خوش رنگ
پھول رہتا ہے بہت تازہ و تر پانی میں
روئوں تو آتش دل شمع نمط بجھتی نہیں
مجھ کو لے جاکے ڈبو دیویں مگر پانی میں
گریۂ زار میں بیتابی دل طرفہ نہیں
سینکڑوں کرتے ہیں پیراک ہنر پانی میں
برگ گل جوں گذر آب سے آتے ہیں چلے
رونے سے ووہیں مرے لخت جگر پانی میں
محو کر آپ کو یوں ہستی میں اس کی جیسے
بوند پانی کی نہیں آتی نظر پانی میں
وہ گہر آنکھ سے جاوے تو تھمے آنسو میر
اتنا رویا ہوں کہ ہوں تا بہ کمر پانی میں
میر تقی میر

بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں

دیوان دوم غزل 870
جانا ادھر سے میر ہے ویسا ادھر کے تیں
بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں
کب ناخنوں سے چہرہ نچے اس صفا سے ہوں
رجھواڑ تم نہیں ہو جو دیکھو ہنر کے تیں
خستے کو اس نگہ کے طبیبوں سے کام کیا
ہمدم مجھے دکھا کسو صاحب نظر کے تیں
فردوس ہو نصیب پدر آدمی تھا خوب
دل کو دیا نہ ان نے کسو خوش پسر کے تیں
ٹک دل کی بے قراری میں جاتے ہیں جی جلے
ہر دم طپش سراہیے میرے جگر کے تیں
تم دل سے جو گئے سو خرابی بہت رہی
پھر بھی بسائو آ کے اس اجڑے نگر کے تیں
اللہ رے نازکی نہیں آتی خیال میں
کس کس طرح سے باندھتے ہیں اس کمر کے تیں
حالت یہ ہے کہ بے خبری دم بہ دم ہے یاں
وے اب تلک بھی آتے نہیں ٹک خبر کے تیں
مدت ہوئی کہ اپنی خبر کچھ ہمیں نہیں
کیا جانیے کہ میر گئے ہم کدھر کے تیں
میر تقی میر

نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک

دیوان دوم غزل 845
لیا چیرہ دستی سے گر میر سر تک
نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک
مجھے نیند کیسی کہ مانند انجم
کھلی رہتی ہیں میری آنکھیں سحر تک
اٹھا پاس بے اختیاری سے سب کا
بکا بیٹھے کرتے ہیں دو دو پہر تک
دماغ اور دل ہیں سراسیمہ دونوں
سرزخم شاید کہ پہنچا جگر تک
بلا شور و ہنگامہ ہے دل زدوں کا
قیامت کیے جائے ہے اس کے گھر تک
نہ دے ماریں چوکھٹ سے سر کو تو کہیو
رسائی ہوا چاہیے اس کے در تک
محبت میں جی سے گئے میر آخر
خبر گفتنی ہے یہ ہر بے خبر تک
میر تقی میر

اول گام ترک سر ہے شرط

دیوان دوم غزل 829
عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط
اول گام ترک سر ہے شرط
دعوی عشق یوں نہیں صادق
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط
خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے
پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط
قصد حج ہے تو شیخ کو لے چل
کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط
قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے
اس کی نقادی کو نظر ہے شرط
حق کے دینے کو چاہیے ہے کیا
یاں نہ اسباب نے ہنر ہے شرط
دل کا دینا ہے سہل کیا اے میر
عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط
میر تقی میر

اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد

دیوان دوم غزل 799
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد
پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں بائو کے ساتھ
موئے گئے بھی مرے مشت بال و پر صیاد
رہے گی ایسی ہی گر بے کلی ہمیں اس سال
تو دیکھیو کہ رہے ہم قفس میں مر صیاد
چمن کی باؤ کے آتے خبر نہ اتنی رہی
کہ میں کدھر ہوں کدھر ہے قفس کدھر صیاد
شکستہ بالی کو چاہے تو ہم سے ضامن لے
شکار موسم گل میں ہمیں نہ کر صیاد
ہوا نہ وا درگلزار اپنے ڈھب سے کبھو
کھلا سو منھ پہ ہمارے قفس کا در صیاد
سنا ہے بھڑکی ہے اب کی بہت ہی آتش گل
چمن میں اپنے بھی ہیں خار و خس کے گھر صیاد
لگی بہت رہیں چاک قفس سے آنکھیں لیک
پڑا نہ اب کے کوئی پھول گل نظر صیاد
اسیر میر نہ ہوتے اگر زباں رہتی
ہوئی ہماری یہ خوش خوانی سحر صیاد
میر تقی میر

ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا

دیوان دوم غزل 751
بے طاقتی میں تو تو اے میر مر رہے گا
ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا
کیا ہے جو راہ دل کی طے کرتے مر گئے ہم
جوں نقش پا ہمارا تا دیر اثر رہے گا
مت کر لڑکپن اتنا خونریزی میں ہماری
اس طور لوہو میں تو دامن کو بھر رہے گا
آگاہ پائے ہم نے کھوئے گئے سے یعنی
پہنچی خبر ادھر کی دل بے خبر رہے گا
فردا کا سوچ تجھ کو کیا آج ہی پڑا ہے
کل کی سمجھیو کل ہی کل تو اگر رہے گا
لوگوں کا پاس ہم کو مارے رکھے ہے ورنہ
ماتم میں دل کے شیون دو دوپہر رہے گا
پایان کار دیکھیں کیا ہووے دل کی صورت
ایسا ہی جو وہ چہرہ پیش نظر رہے گا
اب رفتگی رویہ اپنا کیا ہے میں نے
میرا یہ ڈھب دلوں میں کچھ راہ کر رہے گا
ہم کوئی بیت جاکر اس ہی کے منھ سنیں گے
وحشت زدہ کسو دن گر میر گھر رہے گا
میر تقی میر

اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا

دیوان دوم غزل 702
جی رک گئے اے ہمدم دل خون ہو بھر آیا
اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا
تھی چشم دم آخر وہ دیکھنے آوے گا
سو آنکھوں میں جی آیا پر وہ نہ نظر آیا
بے سدھ پڑے ہیں سارے سجادوں پہ اسلامی
دارو پیے وہ کافر کاہے کو ادھر آیا
ہر خستہ ترا خواہاں یک زخم دگر کا تھا
کی مشق ستم تونے پر خون نہ کر آیا
گل برگ ہی کچھ تنہا پانی نہیں خجلت سے
جنبش سے ترے لب کی یاقوت بھی تر آیا
بالفعل تو ہے قاصد محو اس خط و گیسو کا
ٹک چیتے تو ہم پوچھیں کیا لے کے خبر آیا
تابوت پہ بھی میرے پتھر پڑے لے جاتے
اس نخل میں ماتم کے کیا خوب ثمر آیا
ہے حق بہ طرف اس کے یوں جس کے گیا ہو تو
سج ایسی تری دیکھی ہم کو بھی خطر آیا
کیا کہیے کہ پتھر سے سر مارتے ہم گذرے
یوں اپنا زمانہ تو بن یار بسر آیا
صنعت گریاں ہم نے کیں سینکڑوں یاں لیکن
جس سے کبھو وہ ملتا ایسا نہ ہنر آیا
در ہی کے تئیں تکتے پتھراگئیں آنکھیں تو
وہ ظالم سنگیں دل کب میر کے گھر آیا
میر تقی میر

بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا

دیوان دوم غزل 700
ان سختیوں میں کس کا میلان خواب پر تھا
بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا
ان ابرو و مژہ سے کب میرے جی میں ڈر تھا
تیغ و سناں کے منھ پر اکثر مرا جگر تھا
ان خوبصورتوں کا کچھ لطف کم ہے مجھ پر
یک عمر ورنہ اس جا پریوں ہی کا گذر تھا
تیشے سے کوہکن کے کیا طرفہ کام نکلا
اپنے تو ناخنوں میں اس طور کا ہنر تھا
عصمت کو اپنی واں تو روتے ملک پھریں ہیں
لغزش ہوئی جو مجھ سے کیا عیب میں بشر تھا
کل ہم وہ دونوں یکجا ناگاہ ہو گئے تھے
وہ جیسے برق خاطف میں جیسے ابرتر تھا
ہوش اڑ گئے سبھوں کے شور سحر سے اس کے
مرغ چمن اگرچہ یک مشت بال و پر تھا
پھر آج یہ کہانی کل شب پہ رہ گئی ہے
سوتا نہ رہتا ٹک تو قصہ ہی مختصر تھا
رشک اس شہید کا ہے خضر و مسیح کو بھی
جو کشتہ اس کی جانب دوگام پیشتر تھا
ہشیاری اس کی دیکھو کیفی ہو مجھ کو مارا
تا سن کے سب کہیں یہ وہ مست و بے خبر تھا
صد رنگ ہے خرابی کچھ تو بھی رہ گیا ہے
کیا نقل کریے یارو دل کوئی گھر سا گھر تھا
تھا وہ بھی اک زمانہ جب نالے آتشیں تھے
چاروں طرف سے جنگل جلتا دہر دہر تھا
جب نالہ کش ہوا وہ تب مجلسیں رلائیں
تھا میر دل شکستہ یا کوئی نوحہ گر تھا
میر تقی میر

گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا

دیوان دوم غزل 693
کل دل آزردہ گلستاں سے گذر ہم نے کیا
گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا
کر گئی خواب سے بیدار تمھیں صبح کی بائو
بے دماغ اتنے جو ہو ہم پہ مگر ہم نے کیا
سیدھے تلوار کے منھ پر تری ہم آئے چلے
کیا کریں اس دل خستہ کو سپر ہم نے کیا
نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا
پائوں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہو گی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
کھا گیا ناخن سر تیز جگر دل دونوں
رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا
کام ان ہونٹوں سے وہ لے جو کوئی ہم سا ہو
دیکھتے دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر ہم نے کیا
جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی
آہ یوں کوچۂ دلبر سے سفر ہم نے کیا
بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
اس رخ و زلف کی تسبیح ہے یاں اکثر میر
ورد اپنا یہی اب شام و سحر ہم نے کیا
میر تقی میر

کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا

دیوان دوم غزل 684
وہ ترک مست کسو کی خبر نہیں رکھتا
کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا
بلا سے آنکھ جو پڑتی ہے اس کی دس جاگہ
ہمارا حال تو مدنظر نہیں رکھتا
رہے نہ کیونکے یہ دل باختہ سدا تنہا
کہ کوئی آوے کہاں میں تو گھر نہیں رکھتا
جنھوں کے دم میں ہے تاثیر اور وے ہیں لوگ
ہمارا نالۂ جانکاہ اثر نہیں رکھتا
کہیں ہیں اب کے بہت رنگ اڑ چلا گل کا
ہزار حیف کہ میں بال و پر نہیں رکھتا
تو کوئی زور ہی نسخہ ہے اے مفرح دل
کہ طبع عشق میں ہرگز ضرر نہیں رکھتا
خدا کی اور سے ہے سب یہ اعتبار ارنہ
جو خوب دیکھو تو میں کچھ ہنر نہیں رکھتا
غلط ہے دعوی عشق اس فضول کا بے ریب
جو کوئی خشک لب اور چشم تر نہیں رکھتا
جدا جدا پھرے ہے میر سب سے کس خاطر
خیال ملنے کا اس کے اگر نہیں رکھتا
میر تقی میر

پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے

دیوان اول غزل 539
ڈھونڈا نہ پایئے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
ڈھاہا جنوں نے اس کو ان پر خرابی آئی
جانا گیا اسی سے دل بھی کسو کا گھر ہے
تجھ بن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں
مجھ نالہ کش کے تو اے فریادرس کدھر ہے
صید افگنو ہمارے دل کو جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے
اہل زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے
کافی ہے مہر قاتل محضر پہ خوں کے میرے
پھر جس جگہ یہ جاوے اس جا ہی معتبر ہے
تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و مہ نہ نکلیں
ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے
وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میر اب تو
آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارئہ جگر ہے
میر تقی میر

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

دیوان اول غزل 509
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے
میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلاکش ادھر آوے
مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
میر تقی میر

ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

دیوان اول غزل 492
تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کروگے ہم گریہ سر کریں گے
عذر گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے
سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے
اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے
گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم
شام غم جدائی کیونکر سحر کریں گے
یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرویاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے
اپنے بھی جی ہے آخر انصاف کر کہ کب تک
تو یہ ستم کرے گا ہم درگذر کریں گے
صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میر جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے
میر تقی میر

ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے

دیوان اول غزل 486
شمع صفت جب کبھو مر جائیں گے
ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے
تند نہ ہو ہم تو موئے پھرتے ہیں
کیا تری ان باتوں سے ڈر جائیں گے
کھل گئے رخسار اگر یار کے
شمس و قمر جی سے اتر جائیں گے
خالی نہ چھوڑیں گے ہم اپنی جگہ
گر یہی رونا ہے تو بھر جائیں گے
راہ دم تیغ پہ ہو کیوں نہ میر
جی پہ رکھیں گے تو گذر جائیں گے
میر تقی میر

جان کے دینے کو جگر چاہیے

دیوان اول غزل 484
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
جان کے دینے کو جگر چاہیے
قابل آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہے شناساے زر داغ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل دست بسر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں
نالہ و افغاں میں اثر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
میر تقی میر

ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی

دیوان اول غزل 444
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی
کہہ حدیث آنے کی اس کے جو کیا شادی مرگ
نامہ بر کیا چلی تھی ہم کو خبر کرنے کی
کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع
کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی
اب کے برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی
پھول کچھ لیتے نہ نکلے تھے دل صد پارہ
طرز سیکھی ہے مرے ٹکڑے جگر کرنے کی
ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو
دھن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی
عشق میں تیرے گذرتی نہیں بن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی
کاروانی ہے جہاں عمر عزیز اپنی میر
رہ ہے درپیش سدا اس کو سفر کرنے کی
میر تقی میر

کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ

دیوان اول غزل 427
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ
سعی اتنی یہ ضروری ہے اٹھے بزم سلگ
اے جگر تفتگی بے اثر پروانہ
کس گنہ کا ہے پس از مرگ یہ عذر جاں سوز
پائوں پر شمع کے پاتے ہیں سر پروانہ
آ پڑا آگ میں اے شمع یہیں سے تو سمجھ
کس قدر داغ ہوا تھا جگر پروانہ
بزم دنیا کی تو دل سوزی سنی ہو گی میر
کس طرح شام ہوئی یاں سحر پروانہ
میر تقی میر

ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو

دیوان اول غزل 404
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو
پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال کہ ہے
جیسے بیمار اجل روز بتر مت پوچھو
مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو گیا
دل گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
لذت زہر غم فرقت دلداراں سے
ہووے منھ میں جنھوں کے شہد و شکر مت پوچھو
دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو
جوں توں کر حال دل اک بار تو میں عرض کیا
میر صاحب جی بس اب بار دگر مت پوچھو
میر تقی میر

پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو

دیوان اول غزل 390
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو
پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو
دل پر ہوا سو آہ کے صدمے سے ہو چکا
ڈرتا ہوں یہ کہ اب کہیں ٹکڑے جگر نہ ہو
برچھی سی پار عرش کے گذری نہ عاقبت
آہ سحر میں میری کہاں تک اثر نہ ہو
سمجھا ہوں تیری آنکھ چھپانے سے خوش نگاہ
مدنظر یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ ہو
کھینچے ہے دل کو زلف سے گاہے نگہ سے گاہ
حیراں نہ ہووے کوئی تو اس طرز پر نہ ہو
سو دل سے بھی نہ کام چلے اس کے عشق میں
اک دل رکھوں ہوں میں تو کدھر ہو کدھر نہ ہو
جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک
کافر کا بھی گذار الٰہی ادھر نہ ہو
یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ
جس میں بجائے نقش قدم چشم تر نہ ہو
ہر یک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے
ہاں یاں کسو شہیدمحبت کا سر نہ ہو
چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدان عشق ہیں
تیرا گذار تاکہ کسو نعش پر نہ ہو
دامن کشاں ہی جا کہ طپش پر طپش ہے دفن
زنہار کوئی صدمے سے زیر و زبر نہ ہو
مضطر ہو اختیار کی وہ شکل دل میں میں
اس راہ ہو کے جائوں یہ صورت جدھر نہ ہو
لیکن عبث نگاہ جہاں کریے اس طرف
امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہ ہو
حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی
مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو
آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر
ظالم جفاشعار ترا رہگذر نہ ہو
اٹھ جائے رسم نالہ و آہ و فغان سب
اس تیرہ روزگار میں تو میر اگر نہ ہو
میر تقی میر

آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

دیوان اول غزل 384
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو
رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
میر تقی میر

مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں

دیوان اول غزل 309
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں
اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں
اطراف باغ ہوں گے پڑے مشت پر کہیں
خطرے سے ہونٹ سوکھ ہی جاتے تھے دیکھ کر
آتا نظر ہمیں جو کوئی چشم تر کہیں
عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں میں
آشفتہ طبع میر کو پایا اگر کہیں
سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا ادھر کہیں
لگ چل کے میں برنگ صبا یہ اسے کہا
کاے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں
آشفتہ جا بہ جا جو پھرے ہے تو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں
خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مدنظر کہیں
آسودگی سی جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں
موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لخت جگر کہیں
تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی مر کہیں
کہنے لگا وہ ہو کے پرآشفتہ یک بیک
مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں
آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تو بار دگر کہیں
تعیئن جا کو بھول گیا ہوں پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہل نظر کہیں
بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اٹھا
کرتا ہے جاے باش کوئی رہگذر کہیں
کتنے ہی آئے لے کے سر پر خیال پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں ان کا اثر کہیں
میر تقی میر

گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

دیوان اول غزل 276
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم
خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو
شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم
جیتے ہیں تو دکھادیں گے دعواے عندلیب
گل بن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بخود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگذر کہ ہم
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم
جب جا پھنسا کہیں تو ہمیں یاں ہوئی خبر
رکھتا ہے کون دل تری اتنی خبر کہ ہم
جیتے ہیں اور روتے ہیں لخت جگر ہے میر
کرتے سنا ہے یوں کوئی قیمہ جگر کہ ہم
میر تقی میر

کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک

دیوان اول غزل 259
کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک
کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک
کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا
خزف سے لے کے دیکھا درتر تک
جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اسے پھر خاک ہی پایا سحر تک
ترا منھ چاند سا دیکھا ہے شاید
کہ انجم رہتے ہیں ہر شب ادھر تک
جب آیا آہ تب اپنے ہی سر پر
گیا یہ ہاتھ کب اس کی کمر تک
ہم آوازوں کو سیر اب کی مبارک
پر و بال اپنے بھی ایسے تھے پر تک
کھنچی کیا کیا خرابی زیر دیوار
ولے آیا نہ وہ ٹک گھر سے در تک
گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک
یہی دردجدائی ہے جو اس شب
تو آتا ہے جگر مژگان تر تک
دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک
کہاں پھر شور شیون جب گیا میر
یہ ہنگامہ ہے اس ہی نوحہ گر تک
میر تقی میر

دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

دیوان اول غزل 258
شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم
یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک
ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت
تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک
حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک
دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک
دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک
خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں
آئو یک بار بے خبر نزدیک
توشۂ آخرت کا فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک
دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
مر بھی رہ میر شب بہت رویا
ہے مری جان اب سحر نزدیک
میر تقی میر

تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف

دیوان اول غزل 251
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
کوئی داد دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اس فتنہ گر کی طرف
محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف
لگیں ہیں ہزاروں ہی آنکھیں ادھر
اک آشوب ہے اس کے گھر کی طرف
بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سحر کی طرف
بخود کس کو اس تاب رخ نے رکھا
کرے کون شمس و قمر کی طرف
نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر
ہوا تھا مری چشم تر کی طرف
ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
مناسب نہیں حال عاشق سے صبر
رکھے ہے یہ دارو ضرر کی طرف
کسے منزل دلکش دہر میں
نہیں میل خاطر سفر کی طرف
رگ جاں کب آتی ہے آنکھوں میں میر
گئے ہیں مزاج اس کمر کی طرف
میر تقی میر

جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار

دیوان اول غزل 212
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر
کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو
چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس درپہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہوکر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہربار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خربار
جہاں میر رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
میر تقی میر

اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر

دیوان اول غزل 204
اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر
اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر
دھڑکا تھا دل طپیدن شب سے سو آج صبح
دیکھا وہی کہ آنسوئوں میں چو پڑا جگر
ہم تو اسیر کنج قفس ہوکے مرچلے
اے اشتیاق سیر چمن تیری کیا خبر
مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی
یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر
آتی ہی بوجھیو تو بلا اپنے سر صبا
وے مشک فام زلفیں پریشاں ہوئیں اگر
جاتی نہیں ہے دل سے تری یاد زلف و رو
روتے ہی مجھ کو گذرے ہے کیا شام کیا سحر
کیا جانوں کس کے تیں لب خنداں کہے ہے خلق
میں نے جو آنکھیں کھول کے دیکھیں سو چشم تر
اے سیل ٹک سنبھل کے قدم بادیے میں رکھ
ہر سمت کو ہے تشنہ لبی کا مری خطر
کرتا ہے کون منع کہ سج اپنی تو نہ دیکھ
لیکن کبھی تو میر کے کر حال پر نظر
میر تقی میر

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

دیوان اول غزل 101
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا
دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کہیے
کیا جانیے کہ اس بن دل ہے کدھر ہمارا
ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا
جوں صبح اب کہاں ہے طول سخن کی فرصت
قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا
کوچے میں اس کے جاکر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن گرے گا اس خاک پر ہمارا
ہے تیرہ روز اپنا لڑکوں کی دوستی سے
اس دن ہی کو کہے تھا اکثر پدر ہمارا
سیلاب ہر طرف سے آئیں گے بادیے میں
جوں ابر روتے ہو گا جس دم گذر ہمارا
نشوونما ہے اپنی جوں گردباد انوکھی
بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
یوں دور سے کھڑے ہو کیا معتبر ہے رونا
دامن سے باندھ دامن اے ابرتر ہمارا
جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا
تھمتا نہیں ہے رونا دو دو پہر ہمارا
اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا
میر تقی میر

اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

دیوان اول غزل 74
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا
نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دوائوں نے ہم کو ضرر کیا
مرتا ہوں جان دیں ہیں وطن داریوں پہ لوگ
اور سنتے جاتے ہیں کہ ہر اک نے سفر کیا
کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبت شراب سے آگے سفر کیا
جس دم کہ تیغ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا
دل زخمی ہوکے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا
ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مست ناز
ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا
وہ دشت خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا
کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا
ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گردباد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا
بے شرم محض ہے وہ گنہگار جن نے میر
ابر کرم کے سامنے دامان تر کیا
میر تقی میر

ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا

دیوان اول غزل 49
ایسا ترا رہگذر نہ ہو گا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا
کیا ان نے نشے میں مجھ کو مارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہو گا
دھوکا ہے تمام بحر دنیا
دیکھے گا کہ ہونٹ تر نہ ہو گا
آئی جو شکست آئینے پر
روے دل یار ادھر نہ ہو گا
دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہو گا
اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہو گا
دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہو گا
آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہو گا
ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالے میں مرے اثر نہ ہو گا
پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میر اگر نہ ہو گا
میر تقی میر

کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 4
دیدہء تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب اُن کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسہء سر لے کے چلو
قطعہ
فیض احمد فیض

گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 23
گرمیء شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو ، پندگرو، راہگزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو
دامنِ درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اِک دن دلِ پُر خوں کا ہنر تو دیکھو
صبح کی طرح جھمکتا ہے شبِ غم کا افق
فیض، تابندگیء دیدہء تر تو دیکھو
فیض احمد فیض

وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 80
مجھے بچا بھی لیا، چھوڑ کر چلا بھی گیا
وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا
وگرنہ تنگ نہ تھی عشق پر خدا کی زمین
کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا
کوئی یقیں نہ کرے میں اگر کسی کو بتاؤں
وہ انگلیاں تھیں کہ زخمِ جگر چلا بھی گیا
مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک
اگرچہ موسمِ برگ و ثمر چلا بھی گیا
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار
کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا
عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اس پار
میں اس کے ساتھ رہا اور ادھر چلا بھی گیا
کل اس نے سیر کرائی نئے جہانوں کی
تو رنجِ نارسیِ بال و پر چلا بھی گیا
عرفان صدیقی

اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 32
طوفاں میں تا بہ حد نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
کچھ خاک تھی سو وقت کی آندھی میں اُڑ گئی
آخر نشان سوز جگر کچھ نہیں بچا
ہر شئے کو ایک سیل بلاخیز لے گیا
سودا نہ سر، چراغ نہ در، کچھ نہیں بچا
سب جل گیا جو تھا ہمیں پیارا جہان میں
خوشبو نہ گل، صدف نہ گہر، کچھ نہیں بچا
مٹی بھی نذر حسرت تعمیر ہو گئی
گھر میں سوائے برق و شرر کچھ نہیں بچا
اُس پار ساحلوں نے سفینے ڈبو دیے
سب کچھ بچا لیا تھا مگر کچھ نہیں بچا
یا بازوئے ستم میں ہے یہ تیغ آخری
یا دست کشتگاں میں ہنر کچھ نہیں بچا
ڈرتے رہے تو موج ڈراتی رہی ہمیں
اَب ڈوب جائیے کہ خطر کچھ نہیں بچا
کچھ نقدِ جاں سفر میں لٹانا بھی ہے ضرور
کیا کیجئے کہ زادِ سفر کچھ نہیں بچا
یہ کاروبارِ عرضِ تمنا فضول ہے
دل میں لہو، دُعا میں اثر کچھ نہیں بچا
اب اور کوئی راہ نکالو کہ صاحبو
جس سمت جا رہے تھے اُدھر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر گیا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
عرفان صدیقی

کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 598
کاسہ ء اجر کو امکان سے بھر دیتا ہے
کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے
خیر امکانِ تباہی سے تو انکار نہیں
عشق کی موج ہے آباد بھی کر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ یہ دکھ قابلِ برداشت نہیں
وہ جو تکلیف میں پتھر کا جگر دیتا ہے
وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا
وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے
میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا
ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ مجھے روشنی ای میل کرے
اپنے جلووں سے جو مہتاب کو بھر دیتا ہے
عمر سوجاتی ہے ساحل کی طلب میں منصور
کیا وہ قطرے میں سمندر کا سفر دیتا ہے
منصور آفاق

ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 401
خوف سا ہے بام و در میں اور تو کچھ بھی نہیں
ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں
کچھ نمک ہے زخم کا ، کچھ روشنی ہے یاد کی
چشمِ غم کی بوند بھر میں اور تو کچھ بھی نہیں
یاد کا ہے سائباں اور زندگی کی دھوپ ہے
اس ستم گر دوپہر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی رخشاں مسکراہٹ حاملِ صد مہر و مہ
ایک سورج ہے سحر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان سے رک سکتے ہیں کب دیوانگانِکوئے یار
کچھ بلائیں ہیں سفر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی چاہت کے سوا تاریک ہے فردِ عمل
داغ ہیں قلب و جگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
گنبدِ خضرا کا ہر ذرہ بہشت آباد ہے
دہر کے دوزخ نگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
نازشِ تخلیق ہے آفاق میں بس ایک ذات
میری فکرِ معتبر میں اور تو کچھ بھی نہیں
منصور آفاق

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق

بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 215
وہ غم وہ بے کسی وہ لہو کا سفر وہ شام
بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام
ظالم شکاریوں کے نئے فائروں کی گونج
سہمے ہوئے پرندوں کا وہ مستقر وہ شام
وہ ساعتِ جدائی وہ ہجراں نگر وہ شام
اس دل میں حوصلہ تو بہت تھا مگر وہ شام
شانوں پہ اک خیال کے گیسو گرے ہوئے
وہ باغِ خامشی وہ عدم کا ثمر وہ شام
رکھے ہیں بام چشم پہ میں نے بھی کچھ چراغ
پھرآ رہی ہے درد پہن کر اگر وہ شام
شانوں پہ پھر فراق کی زلفیں بکھیر کر
افسردہ سی اداس سی آئی ہے گھر وہ شام
گرنی تو تھی افق میں گلابوں کی سرخ شاخ
لیکن گری کہیں بہ طریق دگر وہ شام
مژگاں کی نوک نوک پہ آویختہ کرے
منصور کاٹ کاٹ کے لختِ جگر وہ شام
منصور آفاق

تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 91
اک چراغِ معتبر میں لگ گیا تھا
تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا
اس پہ بچپن میں کہانی کھل گئی تھی
دکھ کا پتھر اس کے سر میں لگ گیا تھا
وہ کہیں رہتی تھی تاروں کے نگر میں
سارا دن بس کے سفر میں لگ گیا تھا
پہلے لکھے تھے ستاروں کے قصیدے
پھر قلم کارِ سحر میں لگ گیا تھا
رفتہ رفتہ چھاؤں میٹھی ہو گئی تھی
شہد کا چشمہ شجر میں لگ گیا تھا
پچھلے دکھ منصور جندڑی سہہ گئی تھی
زخم اک تازہ جگر میں لگ گیا تھا
منصور آفاق

دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 20
اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو
مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
دو چار سو برس تو الہٰی سحر نہ ہو
اک پھول ہے گلاب کا آج اُن کے ہاتھ میں
دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو
ڈھونڈھے سے بھی نہ معنی باریک جب ملا
دھوکا ہوا یہ مجھ کو کہ اُس کی کمر نہ ہو
فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مجھ کو کیا
گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو
دیکھی جو صورتِ ملک الموت نزع میں
میں خوش ہوا کہ یار کا یہ نامہ بر نہ ہو
آنکھیں ملیں ہیں اشک بہا نے کے واسطے
بیکار ہے صدف جو صدف میں گُہر نہ ہو
الفت کی کیا اُمید وہ ایسا ہے بے وفا
صحبت ہزار سال رہے کچھ اثر نہ ہو
طول شب وصال ہو، مثل شب فراق
نکلے نہ آفتاب الٰہی سحر نہ ہو
منہ پھیر کر کہا جو کہا میں نے حالِدل
چُپ بھی رہو امیر مجھے درد سر نہ ہو
امیر مینائی