دیوان دوم غزل 979
کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے
مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے
سبزان چمن ہوویں برابر ترے کیوں کر
لگتا ہے ترے سائے کو بھی ننگ پری سے
ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک
مارے گئے ہیں لوگ بہت بے خبری سے
ایک آن میں رعنائیاں تیری تو ہیں سو سو
کب عہدہ برآئی ہوئی اس عشوہ گری سے
زنجیر تو پائوں میں لگی رہنے ہمارے
کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے
جب لب ترے یاد آتے ہیں آنکھوں سے ہماری
تب ٹکڑے نکلتے ہیں عقیق جگری سے
عشق آنکھوں کے نیچے کیے کیا میر چھپے ہے
پیدا ہے محبت تری مژگاں کی تری سے
میر تقی میر