ٹیگ کے محفوظات: جگا

گماں گزرتا ہے‘ یہ شخص دوسرا ہے کوئی

کنارِ آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے‘ یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہَوا نے توڑ کے پتّہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتّھر گرا دیا ہے کوئی!
بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی!
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی
درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مُسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
چُھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈُوبتا ہے کوئی
یہ آسمان سے ٹوٹا ہُوا ستارہ ہے
کہ دشتِ شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی!
مکان اور نہیں ہے‘ بدل گیا ہے مکیں
افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی
فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حُدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیبؔ‘ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیارِ چشم میں کیا آج رَت جگا ہے کوئی!
شکیب جلالی

نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں

سیاحتِ کوئے گلعذاراں میں جو بھی سیکھا بھُلا رہا ہوں
نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں
میں مد و جذر نَفَس رہا ہوں کبھی قرارِ نظر کسی کا
بہت سہانی رُتیں تھیں جب میں دلوں کی دھڑکن بنا رہا ہوں
کسی کی دُھن میں مگن ہوں دنیا مجھے شکارِ جنوں نہ سمجھے
یہ ایک ہی نقش جو مسلسل بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں
مٹا سکیں تو مٹا دیں بالکل بیاضِ دل سے وہ نام میرا
پر اُس حقیقت کا کیا کریں گے وہ دل میں جو میں بسا رہا ہوں
خبر کرو بجلیوں کو کوئی کہ میری ہمّت جواں ہے اب بھی
ابھی کہاں سے ہے مات بازی میں پھر نشیمن بنا رہا ہوں
نکل ہی آ ئے گا اِک نہ اِک دن مسائلِ زیست کا کوئی حل
سکون فی الحال تو یہی ہے گذر رہی ہے نبھا رہا ہوں
نہ جانے کس چیز کا تھا دھڑکا کھٹک رہا تھا وجود میرا
رہو سکوں سے اب اہلِ دنیا یہ لو میں دنیا سے جا رہا ہوں
حضورِ داور کھڑا ہوا ہوں مصر ہوں سننے پہ فردِ عصیاں
بہت سی نظریں یہ کہہ رہی ہیں میں سوئے فتنے جگا رہا ہوں
میں جاتے جاتے بھی اس جہاں سے رہا ہوں مصروفِ کار ضامنؔ
بلندیٔ دوشِ اقرباء سے مآلِ ہستی دکھا رہا ہوں
ضامن جعفری

تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دُوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
مجال ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دُوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دُوں گا
مری خموش نگاہوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دُوں گا
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اِک دِن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دُوں گا
بہ پاسِ صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دُعا دُوں گا
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دُوں گا
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دُوں گا
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دُوں گا
ناصر کاظمی

دل کی آواز سنا دی ہم نے

سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
پہلے اِک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے
پھر سرِ صبح وہ قصہ چھیڑا
دِن کی قندیل بجھا دی ہم نے
آتشِ غم کے شرارے چن کر
آگ زِنداں میں لگا دی ہم نے
رہ گئے دستِ صبا کملا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے
آتشِ گل ہو کہ ہو شعلہِ ساز
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے
کتنے اَدوار کی گم گشتہ نوا
سینہِ نے میں چھپا دی ہم نے
دمِ مہتاب فشاں سے ناصر
آج تو رات جگا دی ہم نے
ناصر کاظمی

یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
آنکھوں میں مری سما کے دیکھو
یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
پیراک ہوں بحرِ لطفِ جاں کا
ہاں ہاں مجھے آزما کے دیکھو
اُترو بھی لہُو کی دھڑکنوں میں
کیا رنگ ہیں اِس فضا کے دیکھو
مخفی ہے جو خوں کی حِدتّوں میں
وہ حشر کبھی اٹُھا کے دیکھو
بے رنگ ہیں فرطِ خواب سے جو
لمحے وہ کبھی جگا کے دیکھو
بہلاؤ نہ محض گفتگو سے
یہ ربط ذرا بڑھا کے دیکھو
ملہار کے سُر ہیں جس میں پنہاں
وُہ سازِ طرب بجا کے دیکھو
طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
ماجد صدیقی

صبح کا دکھ بڑھا دیا، شام کا دکھ بڑھا دیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 38
ہم تھے نیاز مندِ شوق، شوق نے ہم کو کیا دیا
صبح کا دکھ بڑھا دیا، شام کا دکھ بڑھا دیا
دن میں عذابِ ذات کے، تُو مرا ساتھ بھی تو دے
نیند تھی میری زندگی، تُو نے مجھے جگا دیا
واعظ و زاہد و فقیہہ، تم کو بتائے بھی تو کون
وہ بھی عجیب شخص تھا، جس نے ہمیں خدا دیا
تُو نے بھی اپنے خدّ و خال، جانے کہاں گنوا دیئے
میں نے بھی اپنے خواب کو، جانے کہاں گنوا دیا
جانے وہ کاروانِ جاں، کیوں نہ گزر سکا جسے
تُو نے بھی راستہ دیا، میں نے بھی راستہ دیا
تُو مرا حوصلہ تو دیکھ، میں ہی کب اپنے ساتھ ہوں
تُو مرا کربِ جاں تو دیکھ، میں نے تجھے بھلا دیا
ہم جو گلہ گزار ہیں، کیوں نہ گلہ گزار ہوں
میں نے بھی اس کو کیا دیا، اس نے بھی مجھ کو کیا دیا
قید کے کھل رہے تھے در، وقت تھا دل نواز تر
رنگ کی موج آئی تھی، ہم نے اسے گنوا دیا
ہم بھی خدا سے کم نہیں، جو اسے ماننے لگے
وہ بھی خدا سے کم نہ تھا، جس نے ہمیں خدا دیا
جون ایلیا

کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر

دیوان ششم غزل 1824
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھاکر
کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر
شاید کہ منھ پھرا ہے بندوں سے کچھ خدا کا
نکلے ہے کام اپنا کوئی خدا خدا کر
کان اس طرف نہ رکھے اس حرف ناشنو نے
کہتے رہے بہت ہم اس کو سنا سنا کر
کہتے تھے ہم کسو کو دیکھا کرو نہ اتنا
دل خوں کیا نہ اپنا آنکھیں لڑا لڑا کر
آگے ہی مررہے ہیں ہم عشق میں بتاں کے
تلوار کھینچتے ہو ہم کو دکھا دکھا کر
وہ بے وفا نہ آیا بالیں پہ وقت رفتن
سو بار ہم نے دیکھا سر کو اٹھا اٹھا کر
جلتے تھے ہولے ہولے ہم یوں تو عاشقی میں
پر ان نے جی ہی مارا آخر جلا جلا کر
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تو نے ظالم
بہتیروں کو سلایا اس کو جگا جگا کر
مدت ہوئی ہمیں ہے واں سے جواب مطلق
دفتر کیے روانہ لکھ لکھ لکھا لکھا کر
کیا دور میر منزل مقصود کی ہے اپنے
اب تھک گئے ہیں اودھر قاصد چلا چلا کر
میر تقی میر

کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو

دیوان دوم غزل 914
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو
ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو
ہر لمحہ بے ادائی اس کی ادا تو دیکھو
سائے میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت
اس فتنۂ زماں کو کوئی جگا تو دیکھو
بلبل بھی گل گئے پر مرکر چمن سے نکلی
اس مرغ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو
طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے
دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو
ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو
پیری میں مول لے ہے منعم حویلیوں کو
ڈھہتا پھرے ہے آپھی اس پر بنا تو دیکھو
ڈوبی ہے کشتی میری بحر عمیق غم میں
بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو
آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا
اہل ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو
ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محو جلوہ
دیکھو جہاں وہی ہے کچھ اس سوا تو دیکھو
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
میر تقی میر

آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

دیوان دوم غزل 672
جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا
اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم
کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا
اب بھی دماغ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا
جانی نہ قدر اس گہر شب چراغ کی
دل ریزئہ خزف کی طرح میں اٹھا دیا
تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا
گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا
وہ آگ ہورہا ہے خدا جانے غیر نے
میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا
اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تونے مار مار کے آکر بچھا دیا
اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا
تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی
کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا
کی چشم تونے باز کہ کھولا درستم
کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا
کیا کیا زیان میر نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا
میر تقی میر

اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

دیوان اول غزل 144
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ باد صبح کہ آکر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما ومن کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
میر تقی میر

میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 174
اور اَب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بےحرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انھی حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈھتا، رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے، یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا
مجید امجد

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 48
وصل ہو جائے یہیں حشر ، حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
امیر مینائی

تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 72
اک آئینہ نظر میں سما کر چلا گیا
تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا
ہم دیکھ کر جہاں کو ہراساں ہیں اس طرح
یک لخت جیسے کوئی جگا کر چلا گیا
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
دل پر کھلا نہ تھا کبھی یہ تشنگی کا روپ
وہ میرا زہر مجھ کو پلا کر چلا گیا
رات اپنے سائے سائے میں چھپتا رہا ہوں میں
اتنے چراغ کوئی جلا کر چلا گیا
اس طرح چونک چونک اٹھا ہوں خیال میں
جیسے ابھی ابھی کوئی آ کر چلا گیا
اک پھول اتنے رنگ نہ لایا تھا اپنے ساتھ
راہوں میں جتنے خار بچھا کر چلا گیا
باقیؔ ابھی یہ کون تھا موج صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا
باقی صدیقی

چنگیاں دِناں دے ہاڑے، سِر تے ہور بھسوڑیاں پا گئے نیں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 34
جذبیاں نُوں بے تھانواں کر گئے، سفنیاں نُوں دہلا گئے نیں
چنگیاں دِناں دے ہاڑے، سِر تے ہور بھسوڑیاں پا گئے نیں
خورے کیہڑیاں رُتاں ہتھوں، مُدّتاں توں زنجیرے نیں
پاندھی پَیر اساڈے، اگّے ودّھن نُوں، سدھرا گئے نیں
صورت کوئی نہ بندی جاپے، سنگ مقصد، کڑمائی دی
وچ اُڈیکاں پھُل گانے دے، وِینیاں تے کُملا گئے نیں
ٹِنڈاں دا کیہ، ایتک تے، ماہلاں وی تَرُٹیاں ہون گیّاں
اچن چیتی کَھوہ تاہنگاں دے، اِنج اُلٹے چکرا گئے نیں
ویہندیاں ویہندیاں ائی راہ لبھ پئی، دل چ رُکیاں ہیکاں نوں
سَد وطنوں کُھنجیاں کُونجاں دے، سُتے درد جگا گئے نیں
ویلے نے کد پرتن دِتا، ودھدے ہوئے پرچھانویں نوں
سجن سانوں، اُنج ائی میل ملاپ دے، لارے لا گئے نیں
ہاں ماجدُ چُنجاں کُنجیاں، کانواں فر نانویں انڈیاں دے
چِڑیاں ہتھوں ککھ جوڑن دے، دن فر پرت کے آ گئے نیں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)