ٹیگ کے محفوظات: جگاتا

کون اس راستے سے گزرا ہے؟

پتا پتا شجر سے لپٹا ہے
کون اس راستے سے گزرا ہے؟
آسماں بھی سراب ہی نکلا
بحر میں آب ہے کہ صحرا ہے
جانے کب اندمال ہو اس کا
دیکھنے میں تو زخم گہرا ہے
کوئی تو ہے جو کائنات مری
بےسبب روز و شب گھماتا ہے
دل کی نیّا میں جو لگی ہے آگ
اچھی لگتی ہے، کیوں بجھاتا ہے؟
میں نہ دیکھوں تو ہے ادھورا سا
وہ فلک پر جو ایک تارا ہے
کوئی دستک سنائی دی ہے مجھے
دیکھنا کون در پہ آیا ہے
اس طرح اضطرار سے آخر
کون میرے سوا بہلتا ہے؟
لا کے چھوڑیں گی ہی بہار یہاں
شور چڑیوں نے یوں مچایا ہے
مٹ نہ پائیں گی اس کی ریکھائیں
اس طرح کاہے، ہاتھ مَلتا ہے؟
خواب میں روز آ کے اک پنچھی
رات پچھلے پہر جگاتا ہے
یاد کی گلیوں میں کوئی راہی
کبھی گرتا، کبھی سنبھلتا ہے
آسماں کے توے پہ اک سورج
روز آتا ہے روز جلتا ہے
چاند جوبن پہ جب بھی آ جائے
ناؤ میری ہی کیوں ڈبوتا ہے؟
وقت ہے اژدھا کوئی شاید
کینچلی روز اک بدلتا ہے
صبح دم ٹہنیوں پہ شبنم کے
روز موتی کوئی پروتا ہے
روز جب آفتاب ڈھل جائے
دل مرا جانے کیوں مچلتا ہے
میں نے جو سوچا، جو کہا، ہے برا
تم نے جو بھی کہا وہ اچھا ہے
پیڑ وہ ہی رہے ہرا ہر دم
روز جو دھوپ میں جھلستا ہے
بھر لو آنکھوں میں اب افق یاؔور
اس سے آگے تو بس اندھیرا ہے
یاور ماجد

اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 196
راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص
اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص
قوسِ قزح پہ کیسے مرے پاؤں چلتے تھے
دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص
مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام
یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص
بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس
پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز
شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص
کوئی دعا تھی، یا کوئی نیکی نصیب کی
گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص
اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر
کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص
بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی
اور جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص
ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور
داغِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص
پاؤں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا
کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ
بے رحم سردیوں سے بچاتا تھا کون شخص
ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں
سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص
منصور بار بار ہوا کون کرچیاں
مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص
منصور آفاق

دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 195
صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص
دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص
تھا کون سوز سینہ ء صدیق کا امیں
خونِ جگر سے دیب جلاتا تھا کون شخص
تھامے ہوئے عدالتِ فاروق کا علم
پھر فتح نو کی آس جگاتا تھا کون شخص
تھا کون شخص سنتِ عثمان کا غلام
تقسیم زر کا فرض نبھاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا شجاعتِ حیدر کا جانثار
وہ آتشِ غرور بجھاتا تھا کون شخص
ہر سمت دیکھتا ہوں سیاست کی مصلحت
شبیریوں کی آن دکھاتا تھا کون شخص
ہم رقص میرا کون تھا شہرِ سلوک میں
رومی کی قبر پر اسے گاتا تھا کون شخص
صدیوں سے جس کی قبر بھی بستی ہے زندہ ہے
یہ کون گنج بخش تھا داتا تھا کون شخص
ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے
دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص
منصور آفاق