دیوان دوم غزل 1045
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے
ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے
واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار میں بھی
کیا جانیے کہ جی میں یہ کیسی گل جھڑی ہے
نادیدنی دکھاوے کیونکر نہ عشق ہم کو
کس فتنۂ زماں سے آنکھ اپنی جا لڑی ہے
وے دن گئے کہ پہروں کرتے نہ ذکر اس کا
اب نام یار اپنے لب پر گھڑی گھڑی ہے
آتش سی پھک رہی ہے سارے بدن میں میرے
دل میں عجب طرح کی چنگاری آ پڑی ہے
کیا کچھ ہمیں کو اس کی تلوار کھا گئی ہے
ایسی ہی اک جڑی ہے اس نے جہاں جڑی ہے
کیا میر سر جھکاویں ہر کم بغل کے آگے
نام خدا انھوں کی عزت بہت بڑی ہے
میر تقی میر