درونِ دل ترا ماتم ہے، کُو بہ کُو نہیں ہے
ہمارے مسلکِ غم میں یہ ہاؤ ہُو نہیں ہے
یہ کس کو اپنے سے باہر تلاش کرتے ہیں
یہ کون ہیں کہ جنھیں اپنی جستجو نہیں ہے
میں جیت بھی جو گیا تو شکست ہو گی مجھے
کہ میرا اپنے علاوہ کوئی عدو نہیں ہے
نہیں ہے اب کوئی زندان تک برائے قیام
رسن بھی اب پئے آرائشِ گُلو نہیں ہے
تمام عمر کی ایذا دہی کے بعد کھُلا
میں جس کی یاد میں روتا رہا وہ تُو نہیں ہے
تُو چیز کیا ہے جو کی جائے تیری قدر میاں
کہ اب تو شہر میں غالب کی آبرو نہیں ہے
نہیں چمن کے کسی گُل میں تجھ بدن سی مہک
شراب خانے میں تجھ لب سا اک سُبو نہیں ہے
تُو خود پسند، تعلی پسند تیرا مزاج
میں خود شناس، مجھے عادتِ غُلو نہیں ہے
ہے سرخ رنگ کی اک شے بغیرِجوش و خروش
تری رگوں میں جو بہتا ہے وہ لہُو نہیں ہے
ہر ایک اچھا سخن ور ہے لائقِ تحسین
کہ بددیانتی اہلِ سخن کی خُو نہیں ہے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا ہے اپنے حق میں دیلیل
جنابِ دل سا کوئی اور حیلہ جوُ نہیں ہے
مرے سخن کو میّسر ہے بزمِ حرف شناس
مجھے اب اِس سے زیادہ کی آرزو نہیں ہے
منافقت کا لبادہ اتار دے عرفان
اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے
عرفان ستار