ٹیگ کے محفوظات: جواہر

قربِ منزل کے لیے مر جانا

چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لیے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانہِ دل کو منّور جانا
رشتہِ غم کو رگِ جاں سمجھے
زخمِ خنداں کو گُلِ تر جانا
یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری
پتّی پتّی کو جُدا کر جانا
اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا
دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا
کاسہِ سرکو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا
اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخن ور جانا
شکیب جلالی

کہیں ہُما نہ گزر جائے میرے سَر پَر سے

کچھ اِس لیے بھی نِکلتا نہیں ہوں میں گھر سے
کہیں ہُما نہ گزر جائے میرے سَر پَر سے
وہ جس کے پاؤں تلے پائمال تھے کہسار
گِرا تو حیف اُلجھ کر ذرا سے پتھر سے
گَلے کا ہار ہیں جو آج کل رسن ہوں گے
ہمارے زخم ہی اچھے زر و جواہر سے
یہ اور بات کہ ظلمت کدے میں سب کچھ ہے
میں بے نیاز نہیں مہر و ماہ و اختر سے
کرم چلا تو ہے باصِرؔ کی اشک شوئی کو
خبر نہیں ہے کہ پانی گزر چکا سَر سے
باصر کاظمی

موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دیوان اول غزل 46
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جاکے سو مر کر نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشک تر قطرئہ خوں لخت جگر پارئہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہ کر نکلا
کنج کاوی جو کی سینے کی غم ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
میر تقی میر