ٹیگ کے محفوظات: جواں

آگ جب دل میں سلگتی تھی‘ دھواں کیوں نہ ہوا

غمِ اُلفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہُوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی‘ دھواں کیوں نہ ہوا
سیلِ غم رُکتا نہیں ضبط کی دیواروں سے
جوشِ گریہ تھا تو میں گریہ کُناں کیوں نہ ہُوا
کہتے ہیں ‘ حُسن خدوخال کا پابند نہیں
ہر حَسیں شے پہ مجھے تیرا گماں کیوں نہ ہُوا
دشت بھی اس کے مکیں ‘ شہر بھی اس میں آباد
تو جہاں آن بسے دل وہ مکاں کیوں نہ ہوا
تو وہی ہے جو مرے دل میں چُھپا بیٹھا ہے
اک یہی راز کبھی مجھ پہ عیاں کیوں نہ ہُوا
یہ سمجھتے ہوئے‘ مقصودِ نظر ہے تُو ہی
میں ترے حُسن کی جانب نگراں کیوں نہ ہُوا
ا س سے پہلے کہ ترے لمس کی خوشبو کھو جائے
تجھ کو پالینے کا ارمان جواں کیوں نہ ہُوا
تپتے صحرا تو مری منزلِ مقصود نہ تھے
میں کہیں ہمسفرِ اَبرِرواں کیوں نہ ہُوا
اجنبی پر تو یہاں لطف سِوا ہوتا ہے
میں بھی اس شہر میں بے نام و نشاں کیوں نہ ہُوا
نارسائی تھی مرے شوق کا حاصل تو‘ شکیبؔ
حائلِ راہ کوئی سنگِ گراں کیوں نہ ہُوا
شکیب جلالی

ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپے جاں اور طرح کے
اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دُنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دَولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی

دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے

کچھ توں احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اُٹھتا ہوں
نشۂ خوابِ گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے
سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے
اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو اک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبورِ فغاں تھا پہلے
ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق
شعلہ پتھر میں نہاں تھا پہلے
ہم نے روشن کیا معمورۂ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے
ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے
ناصر کاظمی

کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 45
یہ کہہ کر حشر میں وہ رو دیا کچھ بد گماں ہو کر
کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر
یہ بچپن ہے جو پیش آتے ہو مجھ سے مہرباں ہو کر
نگاہیں کہہ رہیں ہیں آنکھ بدلو گے جواں ہو کر
کیا دستِ جنوں کو پیرہن نے جا بجا رسوا
گلی کوچوں میں دامن اڑ رہے ہیں دھجیاں ہو کر
چلا تھا توڑ کر زنجیر کو جب تیرا سودائی
خیالِ حلقۂ گیسو نے روکا بیڑیاں ہو کر
خدا رکھے تمھیں رنگِ حنا سے اتنا ڈرتے ہو
ابھی تو سینکڑوں کے خوں بہانے ہیں جواں ہو کر
خرامِ راز میں پنہاں نہ جانے کیسے محشر ہیں
وہیں اِک حشر ہوتا ہے نکلتے ہوں جہاں ہو کر
پریشاں بال، آنسو آنکھ میں، اتری ہوئی صورت
نصیبِ دشمناں ایسے میں آئے ہو کہاں ہو کر
قمر دل کو بچا کر لے گئے تھے تیر مژگاں سے
مگر ترچھی نگاہیں کام آئیں برچھیاں ہو کر
قمر جلالوی

زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 168
خوش گذران شہر غم ، خوش گذراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے
وادی غم کے خوش خرام ، خوش نفسان تلخ جام
نغمہ زناں ، نوازناں ، نعرہ زناں گزر گئے
سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ
صر صر بے اماں کے ساتھ ، دست فشاں گزر گئے
زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ
عشرتیان رزق غم ، نوش چکاں گزر گئے
اس در نیم وا سے ہم حلقہ بہ حلقہ صف بہ صف
سینہ زناں گزر گئے ، جامہ وراں گزر گئے
ہم نے خدا کا رد لکھا نفی بہ نفی لا بہ لا!
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گراں گزر گئے
اس کی وفاکے باوجود اس کو نہ پا کے بد گماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے ، کتنے گماں گزر گئے
مجمع مہ وشاں سے ہم زخم طلب کے باوجود
اپنی کلاہ کج کیے ، عشوہ کناں گزر گئے
خود نگران دل زدہ ، دل زدگان خود نگر!
کوچہ ءِ التفات سے خود نگراں گزر گئے
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلفات دل پہ گراں گزر گئے
رات تھی میرے سامنے فرد حساب ماہ و سال
دن ، مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے
کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاں وہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے
جون ایلیا

کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے

دیوان ششم غزل 1911
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے
بہت نامہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے
ہمیں جس جاے کل غش آگیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے
مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے
اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے
چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے
اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے
پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میر
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
میر تقی میر

نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے

دیوان ششم غزل 1891
کہو سو کریے علاج اپنا طپیدن دل بلاے جاں ہے
نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے
تلاش دل کی جو دلبری سے ہمارے پاس آ تمھیں رہے ہے
ستم رسیدہ شکستہ وہ دل گیا بھی خوں ہوکے یاں کہاں ہے
کڑھا کریں ہیں ہوا ہے مورد جہان اجسام جب سے اپنا
غم جدائی جہان جاں کا ہمارے دل میں جہاں جہاں ہے
نہیں جو دیکھا ہے ہم نے اس کو ہوا ہے نقصان جان اپنا
ادھر نہ دیکھے ہے وہ کبھو تو نگہ کا اس کی مگر زیاں ہے
بجا بھی ہے جو نہ ہووے مائل نگار سیر چمن کا ہرگز
گلوں میں ہمدم ہو کوئی اس کا سو کس کا ایسا لب و دہاں ہے
کسے ہے رنج و غم و الم سے دماغ سر کے اٹھانے کا اب
مصیبت اس کے زمانے میں تو ہمارے اوپر زماں زماں ہے
نہیں ہے اب میر پیر اتنا جو ذکر حق سے تو منھ چھپاوے
پگاہ نعرہ زنی کیا کر ابھی تو نام خدا جواں ہے
میر تقی میر

حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا

دیوان ششم غزل 1807
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا
حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا
جو قافلے گئے تھے انھوں کی اٹھی بھی گرد
کیا جانیے غبار ہمارا کہاں رہا
سوکھی پڑی ہیں آنکھیں مری دیر سے جو اب
سیلاب ان ہی رخنوں سے مدت رواں رہا
اعضا گداز عشق سے ایک ایک بہ گئے
اب کیا رہا ہے مجھ میں جو میں نیم جاں رہا
منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا
سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا
اس کے فریب لطف پہ مت جا کہ ہمنشیں
وہ دیر میرے حال پہ بھی مہرباں رہا
اب در پہ اس کے گھر کے گرا ہوں وگر نہ میں
مدت خرابہ گرد ہی بے خانماں رہا
ہے جان تو جہان ہے مشہور ہے مثل
کیا ہے گئے پہ جان کے گو پھر جہاں رہا
ترک شراب خانہ ہے پیری میں ورنہ میر
ترسا بچوں ہی میں رہا جب تک جواں رہا
میر تقی میر

مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا

دیوان ششم غزل 1793
میں رنج عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا
بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف
بیمار عشق چار ہی دن میں گراں ہوا
شاید کہ دل تڑپنے سے زخم دروں پھٹا
خونناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا
غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں
یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا
مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست
شیشہ ہوا نہ کیف کا پیر مغاں ہوا
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اسیر کر
صیاد کے کرم سے قفس آشیاں ہوا
ہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصان جاں کیا
ان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوا
ٹک رکھ لے ہاتھ تن میں نہیں اور جاے زخم
بس میرے دل کا یار جی اب امتحاں ہوا
وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آ کے پھر گئے
میں بے دیار و بیدل و بے خانماں ہوا
گردش نے آسماں کی عجائب کیا سلوک
پیر کبیر جب میں ہوا وہ جواں ہوا
مرغ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھی
میں آگ دی چمن کو جو گرم فغاں ہوا
دو پھول لاکے پھینک دیے میری گور پر
یوں خاک میں ملا کے مجھے مہرباں ہوا
سر کھینچا دود دل نے جہاں تیرہ ہو گیا
دم بھر میں صبح زیر فلک کیا سماں ہوا
کہتے ہیں میر سے کہیں اوباش لڑ گئے
ہنگامہ ان سے ایسا الٰہی کہاں ہوا
میر تقی میر

کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک

دیوان پنجم غزل 1665
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک
کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک
میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب ہوا
اس نیم جاں کے بدلے ہوا یک جہاں ہلاک
مقصود گم ہے پھرتا جو رہتا ہے رات دن
ہلکان ہو کے ہو گا کبھو آسماں ہلاک
اس ظلم کیش کی ہے طرب گاہ ہر کہیں
عاشق خدا ہی جانے ہوا ہے کہاں ہلاک
جی میر نے دیا نہ ہوا لیک وصل یار
افسوس ہے کہ مفت ہوا یہ جواں ہلاک
میر تقی میر

ورنہ سبھی دیکھا کرتے ہیں اپنے سود و زیاں کی طرف

دیوان پنجم غزل 1652
عشق سے ہم کو نگاہ نہیں کچھ ہائے زیان جاں کی طرف
ورنہ سبھی دیکھا کرتے ہیں اپنے سود و زیاں کی طرف
ازبس مکروہات سے یاں کا مزبلہ زار لبالب ہے
یاں سے گئے پر پھیر کے منھ دیکھا نہ کنھوں نے جہاں کی طرف
صورت کی شیرینی ایسی تلخی زباں کی ایسی کچھ
منھ دیکھے اس کا جو کوئی پھر دیکھے ہے زباں کی طرف
وہ محبوب تو راہ گیا ہے اپنی لیکن دیر تلک
آنکھیں اہل نظر کی رہیں گی اس کے قدم کے نشاں کی طرف
کس سے کہوں جو میر طرف کر اس سے داد دلا دیوے
چھوٹے بڑے ہر ایک نے لی ہے اس اوباش جواں کی طرف
میر تقی میر

ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد

دیوان پنجم غزل 1604
ہے عشق کا فسانہ میرا نہ یاں زباں زد
ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد
حسرت سے حسن گل کی چپکا ہوا ہوں ورنہ
طیران باغ میں ہوں میں خوش زباں زباں زد
مذکور عاشقی کا ہر چار سو ہے باہم
یعنی نہیں کہانی میری کہاں زباں زد
فرہاد و قیس و وامق ہر یک سے پوچھ لو تم
شہروں میں عشق کے ہوں میں ناتواں زباں زد
کیا جانے میر کس کے غم سے ہے چپ وگرنہ
حرف و سخن میں کیا ہی ہے یہ جواں زباں زد
میر تقی میر

خلل سا ہے دماغ آسماں میں

دیوان سوم غزل 1186
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
خلل سا ہے دماغ آسماں میں
ہوا تن ضعف سے ایسا کہے تو
کہ اب جی ہی نہیں اس ناتواں میں
کہا میں درد دل یا آگ اگلی
پھپھولے پڑ گئے میری زباں میں
متاع حسن یوسفؑ سی کہاں اب
تجسس کرتے ہیں ہر کارواں میں
بلاے جاں ہے وہ لڑکا پری زاد
اسی کا شور ہے پیر و جواں میں
بہت ناآشنا تھے لوگ یاں کے
چلے ہم چار دن رہ کر جہاں میں
تری شورش بھی بے کل ہے مگر میر
ملا دے پیس کر بجلی فغاں میں
میر تقی میر

ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1185
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میر
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
میر تقی میر

کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم

دیوان سوم غزل 1171
آ ٹک شتاب جاتے ہیں ورنہ جہاں سے ہم
کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم
ہر بات کے جواب میں گالی کہاں تلک
اب جاں بہ لب ہوئے ہیں تمھاری زباں سے ہم
وعدہ کرو تو سوچ لو مدت کو دل میں بھی
یہ حال ہے تو دیر رہیں گے کہاں سے ہم
الجھائو دل کا جس سے ہے جھنجھلاکے اس بغیر
جھگڑا کیا کریں ہیں زمین آسماں سے ہم
لاویں ہماری خاک پر اس کینہ ور کو بھی
یہ کہہ مریں گے اپنے ہر اک مہرباں سے ہم
دربان سنگدل نے خبر واں تلک نہ کی
سر مار مار صبح کی اس آستاں سے ہم
جب اس کی تیغ رکھنے لگا اپنے پاس میر
امید قطع کی تھی تبھی اس جواں سے ہم
میر تقی میر

یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے

دیوان دوم غزل 1024
کچھ بات ہے کہ گل ترے رنگیں دہاں سا ہے
یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے
آیا ہے زیر زلف جو رخسار کا وہ سطح
یاں سانجھ کے تئیں بھی سحر کا سماں سا ہے
ہے جی کی لاگ اور کچھ اے فاختہ ولے
دیکھے نہ کوئی سرو چمن اس جواں سا ہے
کیا جانیے کہ چھاتی جلے ہے کہ داغ دل
اک آگ سی لگی ہے کہیں کچھ دھواں سا ہے
اس کی گلی کی اور تو ہم تیر سے گئے
گو قامت خمیدہ ہمارا کماں سا ہے
جو ہے سو اپنی فکر خروبار میں ہے یاں
سارا جہان راہ میں اک کارواں سا ہے
کعبے کی یہ بزرگی شرف سب بجا ہے لیک
دلکش جو پوچھیے تو کب اس آستاں سا ہے
عاشق کی گور پر بھی کبھو تو چلا کرو
کیا خاک واں رہا ہے یہی کچھ نشاں سا ہے
زور طبیعت اس کا سنیں اشتیاق تھا
آیا نظر جو میر تو کچھ ناتواں سا ہے
میر تقی میر

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

دیوان دوم غزل 976
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے
تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے
جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے
کیا خوبی اس کے منھ کی اے غنچہ نقل کریے
تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے دہاں سے
آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے
سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے
کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے
دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے
خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے
اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھائو ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر تقی میر

ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے

دیوان دوم غزل 974
وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے
ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے
عزیزاں غم میں اپنے یوسفؑ گم گشتہ کے ہر دم
چلے جاتے ہیں آنسو کارواں در کارواں میرے
تمھاری دشمنی ہم دوستوں سے لا نہایت ہے
وگرنہ انتہا کینے کو بھی ہے مہرباں میرے
لب و لہجہ غزل خوانی کا کس کو آج کل ایسا
گھڑی بھر کو ہوئے مرغ چمن ہم داستاں میرے
نظر مت بے پری پر کر کہ آں سوے جہاں پھر ہوں
ہوئے پرواز کے قابل یہ ٹوٹے پر جہاں میرے
کہاں تک سر کو دیواروں سے یوں مارا کرے کوئی
رکھوں اس در پہ پیشانی نصیب ایسے کہاں میرے
مجھے پامال کر یکساں کیا ہے خاک سے تو بھی
وہی رہتا ہے صبح و شام درپے آسماں میرے
خزاں کی بائو سے حضرت میں گلشن کے تطاول تھا
تبرک ہو گئے یک دست خارآشیاں میرے
کہا میں شوق میں طفلان تہ بازار کے کیا کیا
سخن مشتاق ہیں اب شہر کے پیر و جواں میرے
زمیں سر پر اٹھا لی کبک نے رفتار رنگیں سے
خراماں ناز سے ہو تو بھی اے سرو رواں میرے
سخن کیا میر کریے حسرت و اندوہ و حرماں سے
بیاں حاجت نہیں حالات ہیں سارے عیاں میرے
میر تقی میر

ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو

دیوان دوم غزل 917
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو
یہی مشہور عالم ہیں دوعالم
خدا جانے ملاپ اس سے کہاں ہو
جہاں سجدے میں ہم نے غش کیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہو
نہ ہووے وصف ان بالوں کا مجھ سے
اگر ہر مو مرے تن پر زباں ہو
جگر تو چھن گیا تیروں کے مارے
تمھاری کس طرح خاطر نشاں ہو
نہ دل سے جا خدا کی تجھ کو سوگند
خدائی میں اگر ایسا مکاں ہو
تم اے نازک تناں ہو وہ کہ سب کے
تمناے دل و آرام جاں ہو
ہلے ٹک لب کہ اس نے مار ڈالا
کہے کچھ کوئی گر جی کی اماں ہو
سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمھارا
کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو
کنارہ یوں کیا جاتا نہیں پھر
اگر پاے محبت درمیاں ہو
ہوئے ہم پیر سو ساکت ہیں اب میر
تمھاری بات کیا ہے تم جواں ہو
میر تقی میر

برہم زدہ شہر ہے جہاں تو

دیوان دوم غزل 911
سب حال سے بے خبر ہیں یاں تو
برہم زدہ شہر ہے جہاں تو
اس تن پہ نثار کرتے لیکن
اپنی بھی نظر میں ٹھہرے جاں تو
برباد نہ دے کہیں سراسر
رہتی نہیں شمع ساں زباں تو
کیا اس کے گئے ہے ذکر دل کا
ویران پڑا ہے یہ مکاں تو
کیا کیا نہ عزیز خوار ہوں گے
ہونے دو اسے ابھی جواں تو
غنچہ لگے منھ تمھارے لیکن
صحبت کا اسے بھی ہو دہاں تو
کیا اس سے رکھیں امید بہبود
پھرتا ہے خراب آسماں تو
یہ طالع نارسا بھی جاگیں
سو جائے ٹک اس کا پاسباں تو
مت تربت میر کو مٹائو
رہنے دو غریب کا نشاں تو
میر تقی میر

اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں

دیوان دوم غزل 908
معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں
اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں
یوسفؑ کے تئیں دیکھ نہ کیوں بند ہوں بازار
یہ جنس نکلتی نہیں ہر اک کی دکاں میں
یک پرچۂ اشعار سے منھ باندھے سبھوں کے
جادو تھا مرے خامے کی گویا کہ زباں میں
یہ دل جو شکستہ ہے سو بے لطف نہیں ہے
ٹھہرو کوئی دم آن کے اس ٹوٹے مکاں میں
میں لگ کے گلے خوب ہی رویا لب جو پر
ملتی تھی طرح اس کی بہت سرو رواں میں
کیا قہر ہوا دل جو دیا لڑکوں کو میں نے
چرچا ہے یہی شہر کے اب پیر و جواں میں
وے یاسمن تازہ شگفتہ میں کہاں میر
پائے گئے لطف اس کے جو پائوں کے نشاں میں
میر تقی میر

جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور

دیوان دوم غزل 811
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگے ہے فنا میں کہ رفتگاں
منھ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگ سخن تو دیکھ کہ حیرت سے باغ میں
رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور
آنکھیں سی کھل ہی جائیں گی جو مر گیا کوئی
دیکھا نہ کر غضب سے کسو خستہ جاں کی اور
کیا بے خبر ہے رفتن رنگین عمر سے
جوے چمن میں دیکھ ٹک آب رواں کی اور
یاں تاب سعی کس کو مگر جذب عشق کا
لاوے اسی کو کھینچ کسو ناتواں کی اور
یارب ہے کیا مزہ سخن تلخ یار میں
رہتے ہیں کان سب کے اسی بد زباں کی اور
یا دل وہ دیدنی تھی جگہ یا کہ تجھ بغیر
اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اس مکاں کی اور
آیا کسے تکدر خاطر ہے زیرخاک
جاتا ہے اکثر اب تو غبار آسماں کی اور
کیا حال ہو گیا ہے ترے غم میں میر کا
دیکھا گیا نہ ہم سے تو ٹک اس جواں کی اور
میر تقی میر

ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح

دیوان دوم غزل 793
آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح
ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح
کیا میں ہی چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں
اچھی لگے ہے سب کو مرے بد زباں کی طرح
آگے تو بے طرح نہ کبھو کہتے تھے ہمیں
اب تازہ یہ نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
یہ شور دل خراش کب اٹھتا تھا باغ میں
سیکھے ہے عندلیب بھی ہم سے فغاں کی طرح
کرتے تو ہو ستم پہ نہیں رہنے کے حواس
کچھ اور ہو گئی جو کسو خستہ جاں کی طرح
نقشہ الٰہی دل کا مرے کون لے گیا
کہتے ہیں ساری عرش میں ہے اس مکاں کی طرح
مرغ چمن نے زور رلایا سبھوں کے تیں
میری غزل پڑھی تھی شب اک روضہ خواں کی طرح
لگ کر گلے سے اس کے بہت میں بکا کیا
ملتی تھی سرو باغ میں کچھ اس جواں کی طرح
جو کچھ نہیں تو بجلی سے ہی پھول پڑ گیا
ڈالی چمن میں ہم نے اگر آشیاں کی طرح
یہ باتیں رنگ رنگ ہماری ہیں ورنہ میر
آجاتی ہے کلی میں کبھو اس دہاں کی طرح
میر تقی میر

پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ

دیوان دوم غزل 789
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ
بے تامل اداے کیں مت کر
قتل میں میرے مہرباں ٹک سوچ
سرسری مت جہاں سے جا غافل
پائوں تیرا پڑے جہاں ٹک سوچ
پھیل اتنا پڑا ہے کیوں یاں تو
یار اگلے گئے کہاں ٹک سوچ
ہونٹ اپنا ہلا نہ سمجھے بن
یعنی جب کھولے تو زباں ٹک سوچ
گل و رنگ و بہار پردے ہیں
ہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سوچ
فائدہ سر جھکے کا شیب میں میر
پیری سے آگے اے جواں ٹک سوچ
میر تقی میر

تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب

دیوان دوم غزل 770
وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب
تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب
اتنا بھی منھ چھپانا خط آئے پہ وجہ کیا
لڑکا نہیں ہے نام خدا تو جواں ہے اب
پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے
سیل بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب
جن و ملک زمین و فلک سب نکل گئے
بارگران عشق و دل ناتواں ہے اب
نکلی تھی اس کی تیغ ہوئے خوش نصیب لوگ
گردن جھکائی میں تو سنا یہ اماں ہے اب
زردی رنگ ہے غم پوشیدہ پر دلیل
دل میں جو کچھ ہے منھ سے ہمارے عیاں ہے اب
پیش از دم سحر مرا رونا لہو کا دیکھ
پھولے ہے جیسے سانجھ وہی یاں سماں ہے اب
نالاں ہوئی کہ یاد ہمیں سب کو دے گئی
گلشن میں عندلیب ہماری زباں ہے اب
برسوں ہوئے گئے اسے پر بھولتا نہیں
یادش بخیر میر رہے خوش جہاں ہے اب
میر تقی میر

دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا

دیوان دوم غزل 741
کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا
دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا
منظر خراب ہونے کو ہے چشم تر کا حیف
پھر دید کی جگہ نہیں جو یہ مکاں گرا
روح القدس کو سہل کیا یار نے شکار
اک تیر میں وہ مرغ بلند آشیاں گرا
پہنچایا مجھ کو عجز نے مقصود دل کے تیں
یعنی کہ اس کے در ہی پہ میں ناتواں گرا
شور اک مری نہاد سے تجھ بن اٹھا تھا رات
جس سے کیا خیال کہ یہ آسماں گرا
کیا کم تھا شعلہ شوق کا شعلے سے طور کے
پتھر بھی واں کے جل گئے جاکر جہاں گرا
ڈوبا خیال چاہ زنخداں میں اس کے میر
دانستہ کیوں کنوئیں میں بھلا یہ جواں گرا
میر تقی میر

ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے

دیوان اول غزل 574
دو سونپ دود دل کو میرا کوئی نشاں ہے
ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے
بیٹھا جگر سے اپنے کھینچوں ہوں اس کے پیکاں
جینے کی اور سے تو خاطر مری نشاں ہے
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
اے شمع کچھ تو کہہ تو تیرے بھی تو زباں ہے
بھڑکے ہے آتش گل اے ابرتر ترحم
گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے
ہم زمزمہ تو ہو کے مجھ نالہ کش سے چپ رہ
اے عندلیب گلشن تیرا لب و دہاں ہے
کس دور میں اٹھایا مجھ سینہ سوختہ کو
پیوند ہو زمیں کا جیسا یہ آسماں ہے
کتنی ہی جی نے تجھ سے لی خاک گر اڑائی
وابستگی کر اس سے پر وہی جہاں ہے
ہے قتل گاہ کس کی کوچہ ترا ستمگر
یک عمر خضر ہو گئی خوں متصل رواں ہے
پیرمغاں سعادت تیری جو ایسا آوے
یہ میر مے کشوں میں اک طرز کا جواں ہے
میر تقی میر

رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے

دیوان اول غزل 561
تمام اس کے قد میں سناں کی طرح ہے
رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے
برے ہونا احوال کو سن کے میرے
بھلا تو ہی کہہ یہ کہاں کی طرح ہے
اڑے خاک گاہے رہے گاہ ویراں
خراب و پریشاں یہاں کی طرح ہے
تعلق کرو میر اس پر جو چاہو
مری جان یہ کچھ جہاں کی طرح ہے
میر تقی میر

شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ

دیوان اول غزل 422
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ
شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ
روسفیدی ہے نقاب رخ شور مستی
ریش قاضی کے سبب پنبہ دہاں ہے شیشہ
منزل مستی کو پہنچے ہے انھیں سے عالم
نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ
درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ
جاکے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کرکے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ
جھک گیا دیکھ کے میں میر اسے مجلس میں
چشم بد دور طرحدار جواں ہے شیشہ
میر تقی میر

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

دیوان اول غزل 358
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں
دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں
آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں
سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم
مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں
بے رحم ٹک تو پائوں تو چھاتی پہ رکھے رہ
مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں
اک گردش اے فلک کہ ہو اثناے راہ سے
کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
ہم تو ہوئے تھے میر سے اس دن ہی ناامید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں
میر تقی میر

مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں

دیوان اول غزل 349
سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں
لاویں اسے بھی بعد مرے میری لاش پر
یہ کہہ رکھا ہے اپنے ہر اک مہرباں کو میں
گردش فلک کی کیا ہے جو دور قدح میں ہے
دیتا رہوں گا چرخ مدام آسماں کو میں
جی جاوے تو قبول ترا غم نہ جائیو
رکھتا نپٹ عزیز ہوں اس میہماں کو میں
عاشق ہے یا مریض ہے پوچھو تو میر سے
پاتا ہوں زرد روز بروز اس جواں کو میں
میر تقی میر

سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا

دیوان اول غزل 76
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا
اک نگہ سے بیش کچھ نقصاں نہ آیا اس کے تیں
اور میں بے چارہ تو اے مہرباں مارا گیا
وصل و ہجراں یہ جو دو منزل ہیں راہ عشق کی
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا
دل نے سر کھینچا دیارعشق میں اے بوالہوس
وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا
کب نیاز عشق ناز حسن سے کھینچے ہے ہاتھ
آخر آخر میر سر برآستاں مارا گیا
میر تقی میر

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

دیوان اول غزل 25
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی
ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا
تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا
اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا
ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے
ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا
جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو
اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا
سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا
سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے
اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بدزباں کا
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
میر تقی میر

کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 53
شب کے پردے میں نہاں ہے تو سہی
کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی
ہم اگرچہ پا رہ لپتی ہیں مگر
سر پہ اپنے آسماں ہے تو سہی
ان گنت بدصورتوں کے شہر میں
ایک تو اے جانِ جاں ہے تو سہی
اس نشاطِ صحبت نایاب میں
کچھ طبیعت سرگراں ہے تو سہی
اب دفاعِ نظریہ کیا کیجئے
کل کا حاصل رائیگاں ہے تو سہی
راس امکان و گماں ہے یاس کو
اس سے آگے لامکاں ہے تو سہی
خواب ٹوٹا ہے تو لے آئیں گے اور
ہمتِ یاراں جواں ہے تو سہی
آفتاب اقبال شمیم

یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 330
جو سر پہ کل تھا وہی آسماں ابھی تک ہے
یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے
کسی جزیرے پہ شاید مجھے بھی پھینک آئے
سمندروں پہ ہوا حکمراں ابھی تک ہے
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے
یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے
تو رہزنوں کو بھی توفیقِ خواب دے یارب
کہ دشتِ شب میں مرا کارواں ابھی تک ہے
میں کس طرح مرے قاتل گلے لگاؤں تجھے
یہ تیر تیرے مرے درمیاں ابھی تک ہے
عرفان صدیقی

تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 179
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نگاہ میں ہر راہ کہکشاں تھی کبھی
مرے خیال سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا میری جواں تھی کبھی
ترے تبسم رنگیں سے پھول کھلتے تھے
مری حیات بہاروں کی داستاں تھی کبھی
وہ بے خودی مری، وہ تیرے قرب کا احساس
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں کھڑی ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی

وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 178
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نظر میں ہر اک راہ کہکشاں تھی کبھی
مری نگاہ سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا مری جواں تھی کبھی
براہ راست نظر تجھ سے بات کرتی تھی
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں نہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی