ٹیگ کے محفوظات: جوان

اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر

دیوان دوم غزل 806
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر
اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر
کچھ ان دنوں اشارئہ ابرو ہیں تیزتیز
کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر
تھوڑے میں دور کھینچے ہے کیا آدم آپ کو
اس مشت خاک کا ہے دماغ آسمان پر
کس پر تھے بے دماغ کہ ابرو بہت ہے خم
کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس کمان پر
کس رنگ راہ پاے نگاریں سے تو چلا
ہونے لگے ہیں خون قدم کے نشان پر
چرچا سا کر دیا ہے مرے شور عشق نے
مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی زبان پر
پی پی کے اپنا لوہو رہیں گوکہ ہم ضعیف
جوں رینگتی نہیں ہے انھوں کے تو کان پر
یہ وہم ہے کہ اور کا ہے میرے تیں خیال
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان پر
کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ
دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر
دامن میں آج میر کے داغ شراب ہے
تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر
میر تقی میر

پر یہ تیرا نہ امتحان گیا

دیوان دوم غزل 739
سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا
پر یہ تیرا نہ امتحان گیا
واے احوال اس جفاکش کا
عاشق اپنا جسے وہ جان گیا
داغ حرماں ہے خاک میں بھی ساتھ
جی گیا پر نہ یہ نشان گیا
کل نہ آنے میں ایک یاں تیرے
آج سو سو طرف گمان گیا
حرف نشنو کوئی اسے بھی ملا
تب تو میں نے کہا سو مان گیا
دل سے مت جا کہ پھر وہ پچھتایا
ہاتھ سے جس کے یہ مکان گیا
پھرتے پھرتے تلاش میں اس کی
ایک میرا ہی یوں نہ جان گیا
اب جو عیسیٰ ؑ فلک پہ ہے وہ بھی
شوق میں برسوں خاک چھان گیا
کون جی سے نہ جائے گا اے میر
حیف یہ ہے کہ تو جوان گیا
میر تقی میر

زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا

دیوان دوم غزل 717
اس کام جان و دل نے عالم کا جان مارا
زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا
بلبل کا آتشیں دم دل کو لگا ہمارے
ایسا کنھوں نے جیسے چھاتی میں بان مارا
خوں کچھ نہ تھا ہمارا مرکوز خاطر اس کو
للہ اک ہمیں بھی یوں درمیان مارا
سرچشمہ حسن کا وہ آیا نظر نہ مجھ کو
اس راہزن نے غافل کیا کاروان مارا
صبر و حواس و دانش سب عشق کے زبوں ہیں
میں کاوش مژہ سے عالم کو چھان مارا
کیا خون کا مزہ ہے اے عشق تجھ کو ظالم
ایک ایک دم میں تونے سو سو جوان مارا
ہم عاجزوں پر آکر یوں کوہ غم گرا ہے
جیسے زمیں کے اوپر اک آسمان مارا
کب جی بچے ہے یارو خوش رو و مو بتاں سے
گر صبح بچ گیا تو پھر شام آن مارا
کہتے نہ تھے کہ صاحب اتنا کڑھا نہ کریے
اس غم نے میر تم کو جی سے ندان مارا
میر تقی میر

ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا

دیوان دوم غزل 699
غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا
ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا
میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے
اب تلک مجھ میں جان ہے گویا
چاہیے جیتے گذرے اس کا نام
منھ میں جب تک زبان ہے گویا
سربسر کیں ہے لیک وہ پرکار
دیکھو تو مہربان ہے گویا
حیرت روے گل سے مرغ چمن
چپ ہے یوں بے زبان ہے گویا
مسجد ایسی بھری بھری کب ہے
میکدہ اک جہان ہے گویا
جائے ہے شور سے فلک کی طرف
نالۂ صبح بان ہے گویا
بسکہ ہیں اس غزل میں شعر بلند
یہ زمین آسمان ہے گویا
وہی شور مزاج شیب میں ہے
میر اب تک جوان ہے گویا
میر تقی میر

شور سے جیسے بان جاتا ہے

دیوان اول غزل 535
نالہ تا آسمان جاتا ہے
شور سے جیسے بان جاتا ہے
دل عجب جاے ہے ولیکن مفت
ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے
گاہے آتا ہوں آپ میں سو بھی
جیسے کوئی میہمان جاتا ہے
کیا خرابی ہے میکدے کی سہل
محتسب اک جہان جاتا ہے
جب سرراہ آوے ہے وہ شوخ
ایک عالم کا جان جاتا ہے
اس سخن ناشنو سے کیا کہیے
غیر کی بات مان جاتا ہے
عشق کے داغ کا عبث ہے علاج
کوئی اب یہ نشان جاتا ہے
گو وہ ہرجائی آئے اپنی اور
سو طرف ہی گمان جاتا ہے
میر تو عمر طبعی کو پہنچا
عشق میں جوں جوان جاتا ہے
میر تقی میر

یہ بلا آسمان پر آئی

دیوان اول غزل 436
آہ میری زبان پر آئی
یہ بلا آسمان پر آئی
عالم جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہان پر آئی
پیری آفت ہے پھر نہ تھا گویا
یہ بلا جس جوان پر آئی
ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی
تب ٹھکانے لگی ہماری خاک
جب ترے آستان پر آئی
آتش رنگ گل سے کیا کہیے
برق تھی آشیان پر آئی
طاقت دل برنگ نکہت گل
پھیر اپنے مکان پر آئی
ہو جہاں میر اور غم اس کا
جس سے عالم کی جان پر آئی
میر تقی میر

آرزوے جہان ہوتے ہیں

دیوان اول غزل 336
خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوے جہان ہوتے ہیں
گوش دیوار تک تو جا نالے
اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں
کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں
دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستان ہوتے ہیں
حرف تلخ ان کے کیا کہوں میں غرض
خوبرو بدزبان ہوتے ہیں
غمزئہ چشم خوش قدان زمیں
فتنۂ آسمان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
میر تقی میر

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

دیوان اول غزل 128
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بدگمان کا
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا
مت مانیو کہ ہو گا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا
خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب
ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا
ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں
اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا
کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو
دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا
تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی
مت پوچھ کچھ سلوک مرے بدزبان کا
یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا
گل یادگار چہرئہ خوباں ہے بے خبر
مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا
توبرسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میر سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا
میر تقی میر

ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا

دیوان اول غزل 111
خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا
سارے رئیس اعضا ہیں معرض تلف میں
یہ عشق بے محابا کس کو امان دے گا
پاے پر آبلہ سے میں گم شدہ گیا ہوں
ہر خار بادیے کا میرا نشان دے گا
داغ اور سینے میں کچھ بگڑی ہے عشق دیکھیں
دل کو جگر کو کس کو اب درمیان دے گا
نالہ ہمارا ہر شب گذرے ہے آسماں سے
فریاد پر ہماری کس دن تو کان دے گا
مت رغم سے ہمارے پیارے حنا لگائو
پابوس پر تمھارے سر سو جوان دے گا
ہوجو نشانہ اس کا اے بوالہوس سمجھ کر
تیروں کے مارے سارے سینے کو چھان دے گا
اس برہمن پسر کے قشقے پہ مرتے ہیں ہم
ٹک دے گا رو تو گویا جی ہم کو دان دے گا
گھر چشم کا ڈبو مت دل کے گئے پہ رو رو
کیا میر ہاتھ سے تو یہ بھی مکان دے گا
میر تقی میر

جگر مرغ جان سے نکلا

دیوان اول غزل 38
تیر جو اس کمان سے نکلا
جگر مرغ جان سے نکلا
نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی
میں ہی اک امتحان سے نکلا
گو کٹے سر کہ سوز دل جوں شمع
اب تو میری زبان سے نکلا
آگے اے نالہ ہے خدا کا ناؤں
بس تو نُہ آسمان سے نکلا
چشم و دل سے جو نکلا ہجراں میں
نہ کبھو بحر و کان سے نکلا
مر گیا جو اسیر قید حیات
تنگناے جہان سے نکلا
دل سے مت جا کہ حیف اس کا وقت
جو کوئی اس مکان سے نکلا
اس کی شیریں لبی کی حسرت میں
شہد پانی ہو شان سے نکلا
نامرادی کی رسم میر سے ہے
طور یہ اس جوان سے نکلا
میر تقی میر

سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 114
جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی
سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی
سب تری ہی اماں میں شب بیدار
مورچے بھی، مکان بھی، ہم بھی
تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں
چھاؤنی کے جوان بھی، ہم بھی
دیکھنے والے، یہ نظارہ بھی دیکھ
عزم بھی، امتحان بھی، ہم بھی
اک عجب اعتماد سینوں میں
فتح کا یہ نشان بھی، ہم بھی
تو بھی اور تیری نصرتوں کے ساتھ
شہر میں ٹکا خان بھی، ہم بھی
مجید امجد