ٹیگ کے محفوظات: جناب

ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب

اُن پہ لاتی نہیں عذاب کتاب
ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب
کبھی سورج کی آب و تاب کتاب
ہے کبھی سایہء سحاب کتاب
لکھ رہا ہوں میں آجکل واعظ
تیری تقریر کا جواب کتاب
آپ ہی نے تو کی تھی فرمائش
لیجیے پیش ہے جناب کتاب
ہم سے باصِرؔ کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شاملِ نصاب کتاب
باصر کاظمی

سمجھ لو اضطراب سے نکل گیا

اگر میں دشتِ خواب سے نکل گیا
سمجھ لو اضطراب سے نکل گیا
بری خبر سناؤں؟ سن سکو گے تم؟
میں حلقۂ جناب سے نکل گیا
رموزیں چھانٹنے لگا فضول میں
ارے میں کیوں حجاب سے نکل گیا!
نکل گیا وہ سایۂ امان سے
جو عشقِ بوتراب سے نکل گیا
شکست ہو گئی مرے رقیب کو
کہ پاؤں جب رکاب سے نکل گیا
خوشی منا!گلے لگا کہ آج میں
حجابِ خاک و آب سے نکل گیا
افتخار فلک

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

دل کی حالت بہت خراب نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 131
کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں
بُود پَل پَل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں
خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں
سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں
تُو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن تیرا جواب نہیں
حفظ ہے شمسِ بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں
تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو میری پنڈلیوں کو داب نہیں
نہیں جُڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں
جون ایلیا

خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 35
تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا
مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا
نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا
دوستو۔۔ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
جون ایلیا

یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 169
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

دیوان پنجم غزل 1751
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے
جان کو اضطراب ہے سو ہے
بس گئی جاں خراب مدت کی
حال اپنا خراب ہے سو ہے
خشکی لب کی ہے تری کیسی
چشم لیکن پرآب ہے سو ہے
خاک جل کر بدن ہوا ہے سب
دل جلا سا کباب ہے سو ہے
کر گئے کاروانیاں شب گیر
وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے
یاں تو رسوا ہیں کیسا پردئہ شرم
اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے
دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم
دوستی کا حساب ہے سو ہے
زلفیں اس کی ہوا کریں برہم
ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے
خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو
ان کی عالی جناب ہے سو ہے
شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز
میر ذلت کا باب ہے سو ہے
میر تقی میر

دل کو میرے ہے اضطراب بہت

دیوان پنجم غزل 1586
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے
تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت
دیر افسوس کرتے رہیے گا
عمر جاتی رہی شتاب بہت
مہر و لطف و کرم عنایت کم
ناز و خشم و جفا عتاب بہت
بے تفاوت ہے فرق آپس میں
وے مقدس ہیں میں خراب بہت
پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی
ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت
دختر رز سے رہتے ہیں محشور
شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت
آویں محشر میں کیوں نہ پاے حساب
ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت
واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت
گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میر
منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت
میر تقی میر

جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں

دیوان اول غزل 288
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں
بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے
ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں
جاکر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گوپہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں
دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں
آنکلے تھے جو حضرت میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں
تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں
میر تقی میر

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 36
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا
اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
امیر مینائی

ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 28
قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں
جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں
سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں
دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں
محشر کے دن بٹہائے گئے آفتاب میں
رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں
یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں
تیرِ دعا نشانے پہ کیونکر نہ بیٹھتا
کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں
وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے
کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں
حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا
پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں
مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ
جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں
سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل
کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں
چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع
کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں
دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے
ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں
ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں
موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں
اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر
بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں
چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے
شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں
کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں
بلبل بنے جو بلبلہ اٹھّے گلاب میں
چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے
مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں
ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند
اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں
جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر
اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں
امیر مینائی