ٹیگ کے محفوظات: جلا

بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے

 
 
شعلہ جو ہے اس دل میں چھپا، تیز بہت ہے
بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے
اک تیری جھلک یاد کے در سے ہے در آئی
اک درد مرے دل میں اُٹھا تیز بہت ہے
چپکے سے بس اک سسکی ہی لی ہے مرے دل نے
کیوں گونجتی کانوں میں صدا تیز بہت ہے
اب راکھ تلک ڈھونڈے سی ملتی نہیں اس کی
اک جسم تری لو میں جلا تیز بہت ہے
پھر ٹوٹ گئے، گم ہوئے سب محور و مرکز
کیا کرتے کہ گردش کی بلا تیز بہت ہے
جس زہر نے کر ڈالا گگن نیلا سحر تک
وہ زہر مرے خوں میں گھُلا تیز بہت ہے
یاور ماجد
 

کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا

وہ کون ہے جو تمھارا سُراغ پا نہ سکا
کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا
وہ اپنا معنوی چہرہ مجھے دِکھا نہ سکا
اس آئنے سے کوئی بھی نظر مِلا نہ سکا
یہ ٹھنڈی آگ جُدا ہے بدن کے شعلے سے
بدن کا شعلہ مری روح کو جلا نہ سکا
کسی کی بات تھی جو اُس نے ڈال دی مجھ پر
وہ آج خود تو ہنسا، پر مجھے ہنسا نہ سکا
اسی لیے تو اُجالا ہے میرے سینے میں
میں بھول کر بھی کسی کا دیا بُجھا نہ سکا
کچھ اتنے ہاتھ بڑھے تھے مجھے گرانے کو
کہ ڈگمگانا بھی چاہا تو ڈگمگا نہ سکا
وہ پیرہن ہوں میں اپنے برہنہ جوئی کا
جو کوئی زخم تری آنکھ سے چھپا نہ سکا
جو لوحِ دل ہوئی ٹکڑے تو یہ خیال آیا
کہ میں بھی سَنگ اٹھاؤں ، مگر اٹھا نہ سکا
شکیبؔ! روح میں طوفاں کا شور باقی ہے
میں اپنا درد، کسی ساز پر سنا نہ سکا
شکیب جلالی

جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم

ان کی نقاب ہی رہے حُسنِ طلب اٹھا کے ہم
جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم
جن کو یقین ہی نہ ہو، ان سے اَلم کا ذکر کیا
پُرسشِ حالِ زار پر رہ گئے مسکرا کے ہم
فرطِ خوشی ہے یا فقط وہم و خیال کا سراب
منزلِ زیست کے نشاں کھو سے گئے ہیں پآ کے ہم
خطرہِ برق و باد ہے اور نہ فکرِ آشیاں
بیٹھ گئے ہیں آشیاں اپنا ہی خود جلا کے ہم
زیست کی غم سے نسبتیں کام ہی آج آگئیں
’’ہر غمِ بے پناہ پر رہ گئے مسکرا کے ہم،،
ایسے بھی داغ عشق نے بخشے ہیں قلبِ زار کو
چاہیں بھی گر شکیبؔ تو، رکھ نہ سکیں چھپا کے ہم
شکیب جلالی

غم کا خُوگر بنا دیا تم نے

یہ وفا کا صلہ دیا تم نے
غم کا خُوگر بنا دیا تم نے
جام و مِینا ہے ہر گھڑی درکار
رِند گویا بنا دیا تم نے
ہوشِ دیدار بھی نہیں باقی
کیا نظر سے پلا دیا تم نے
غمِ ہستی اُٹھائے پھرتا ہے
خاک کو کیا بنا دیا تم نے
درد کی لذّتیں، ارے توبہ
مر کے جینا سکھا دیا تم نے
بجلیو! کچھ کمی ہے شاخوں کی
اک نشیمن جلا دیا تم نے
تم سے لطف و کرم کی کیا اُمّید
ہنستے ہنستے رُلا دیا تم نے
درد میں اب خلش نہیں باقی
عینِ درماں بنا دیا تم نے
جس میں پنہاں، شکیبؔ، تھا غمِ دل
وہ فسانہ سُنا دیا تم نے
شکیب جلالی

چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں

یاد رکھّوں کہ بھلا دوں مجھے معلوم نہیں
چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں
اُسی غارت گرِ تسکین سے تسکین بھی ہے
بد دُعا دوں کہ دُعا دوں مجھے معلوم نہیں
جا چکا ہوں میں بہت دُور بتا دو اُس کو
کس طرح خود کو صدا دوں مجھے معلوم نہیں
صِرف قرطاس و قلم رہ گئے ماضی کے اَمیں
اِن کو رکّھوں کہ جَلا دوں مجھے معلوم نہیں
میں ہَر اِک حَرف میں خُود بِکھرا ہُوا ہُوں ضامنؔ
کون سا لفظ مٹا دوں مجھے معلوم نہیں
ضامن جعفری

زمیں زیرِ قَدَم سَر پَر خدا محسوس ہوتا ہے

جہاں میں ہُوں ہر اِک بے آسرا محسوس ہوتا ہے
زمیں زیرِ قَدَم سَر پَر خدا محسوس ہوتا ہے
شَجَر کی یاد نے پوچھا ہے ہم سے دَشتِ غُربَت میں
نہیں ہے سَر پہ اَب سایہ تَو کیا محسوس ہوتا ہے
میں کِس رَستے سے تجھ تَک آؤں کہ تُو دَنگ رہ جائے
ہر اِک رَستے پہ کوئی نقشِ پا محسوس ہوتا ہے
ہمارے شعر سُن کر اُن پہ خاموشی سی ہے طاری
سکوتِ ذات میں شورِ اَنا محسوس ہوتا ہے
جُدا ہو راہ و منزل سَب کی اُس کو بِھیڑ کہتے ہیں
نہ جانے آپ کو کیوں قافلہ محسوس ہوتا ہے
کسی کو جب غزل میری سُناتا ہے کوئی ضامنؔ
وہ کہتا ہے یہ کوئی دِل جَلا محسوس ہوتا ہے
ضامن جعفری

میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں

جنونِ خفتہ جگا رہے ہیں وہ سامنے کھل کے آ رہے ہیں
میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں
مرے بھی ہمدرد، مُنہ پہ ہیں ، اُن کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں
خدا ہی جانے جنابِ ناصح یہ اونٹ کس کل بٹھا رہے ہیں
علامتِ عشق ہے یہ دن میں نظر جو تارے سے آ رہے ہیں
جھکے ہیں سر عاشقوں کے اُور وہ جو مُنہ میں آئے سنا رہے ہیں
حیاتِ دو روزہ تم سے مل کر ذرا سی رنگین ہو گئی تھی
گرانیِ طبع دُور کر لو، ہم اپنی دنیا میں جا رہے ہیں
سُنانا چاہی جو ایک تازہ غزل اُنہیں تَو وہ بولے ضامنؔ
ہمیں پتہ ہے جو اس میں ہو گا، یہ آپ پھر دل جَلا رہے ہیں
ضامن جعفری

دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

دُھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا
میں اِس جانب تو اُس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
اک ٹہنی پر دِیا جلا تھا
دیکھ کے دو چلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا
ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا
ایک کے اُلٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا
اُن سے اُلجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

تیرا درد چھپا رکھا ہے

دل میں اَور تو کیا رکھا ہے
تیرا درد چھپا رکھا ہے
اِتنے دُکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دِیپ جلا رکھا ہے
دُھوپ سے چہروں نے دُنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دُکھ کا نام دوا رکھا ہے
وعدئہ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
اِن باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
ناصر کاظمی

دھیان کی شمع جلا کر دیکھو

حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
دھیان کی شمع جلا کر دیکھو
کیا خبر کوئی دفینہ مل جائے
کوئی دیوار گرا کر دیکھو
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
کیوں چمن چھوڑ دیا خوشبو نے
پھول کے پاس تو جا کر دیکھو
نہر کیوں سو گئی چلتے چلتے
کوئی پتھر ہی گرا کر دیکھو
دل میں بیتاب ہیں کیا کیا منظر
کبھی اِس شہر میں آ کر دیکھو
ان اندھیروں میں کرن ہے کوئی
شب زدو آنکھ اُٹھا کر دیکھو
ناصر کاظمی

وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا

کہاں کی آہ و فغاں لب ہلا نہیں سکتا
وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا
وہ نقش چھوڑ گئے زندگی میں اہلِ ہنر
فنا کا ہاتھ بھی جن کو مٹا نہیں سکتا
وہ پیڑ دیکھے ہیں میں نے سفر میں اب کے برس
زمینِ شعر میں جن کو اُگا نہیں سکتا
جو میرا دوست نہ ہو کر بھی میرے کام آیا
میں ایسے شخص کو دشمن بنا نہیں سکتا
شریکِ سازشِ دل ایسا کون تھا باصرِؔ
تُو جس کا نام بھی ہم کو بتا نہیں سکتا
باصر کاظمی

ہاں سانس یہی خُدا نُما ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
یہ سانس عطّیۂ خُدا ہے
ہاں سانس یہی خُدا نُما ہے
قربت میں بھی فاصلہ ہے لازم
یہ راز اِک عمر میں کُھلا ہے
پِھرپنکھ کسی کے پھڑپھڑائے
ہاں گھونسلا پھر کوئی جلا ہے
ہونٹوں پِہ سجی ہے بات دل کی
غنچہ سرِ شاخ کِھل چلا ہے
آئی ہے تری گلی سے ہو کر
سرمست وگرنہ کیوں ہوا ہے
ماجِد یہ شریر موسمِ گلُ
تیری ہی طرح کا منچلا ہے
ماجد صدیقی

رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دینا
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا
ہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا
ماجد صدیقی

تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
سبزہ و گل کو اپنا پتا دیجیے
تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے
اس میں بھی بِن تمہارے کشش کچھ نہیں
موسمِ گل کو اتنا بتا دیجیے
دل میں پھر اَوج پر ہے تمہاری لگن
آگ بھڑکی ہے اِس کو ہوا دیجیے
میں نے گستاخ نظروں کو روکا نہیں
اِس بغاوت کی مجھ کو سزا دیجیے
لطف و راحت کے غنچے کِھلے جس قدر
ہجر کی آنچ سے سب جلا دیجیے
ماجد صدیقی

خاموش رہا جائے، کُچھ بھی نہ کہا جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
ہوتا ہے جو ہو گزرے، دَم سادھ لیا جائے
خاموش رہا جائے، کُچھ بھی نہ کہا جائے
اظہارِ غم جاں کو، قرطاس ہو یہ چہرہ
ہو حرف رقم جو بھی، اشکوں سے لکھا جائے
ہونے کو ستم جو بھی ہو جائے، پہ عدل اُس کا
آئے گا جو وقت اُس پر، بس چھوڑ دیا جائے
خدشہ ہے نہ کٹ جائے، شعلے کی زباں تک بھی
ہر رنج پہ رسی سا، چپ چاپ جلا جائے
بالجبر ملے رُتبہ جس بات کو بھی، حق کا
ماجدؔ نہ سخن ایسا، کوئی بھی سُنا جائے
ماجد صدیقی

کس دن کنجِ قفس دیکھا تھا یاد نہیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
راہوں میں کب جال بچھا تھا یاد نہیں ہے
کس دن کنجِ قفس دیکھا تھا یاد نہیں ہے
آناً فاناً ہی اِک حشر نظر میں اُٹھا
کاشانہ کس آن جلا تھا یاد نہیں ہے
چپّو چّپو کب گرداب بنے تھے پہلے
طوفاں نے کب گھیر لیا تھا یاد نہیں ہے
یاد ہے آنکھوں کے آگے اِک دُھند کا منظر
کس پل مجھ سے وُہ بچھڑا تھا یاد نہیں ہے
اپنوں ہی میں شاید کُچھ بیگانے بھی تھے
کس جانب سے تیر چلا تھا یاد نہیں ہے
طولِ شبِ ہجراں میں دل کے بانجھ اُفق پر
آس کا چندا کب ڈوبا تھا یاد نہیں ہے
تلخ ہوئی کب اُس کے لہجے کی شیرینی
سانسوں میں کب زہر گھُلا تھا یاد نہیں ہے
تنُد ہوا کو تیغوں جیسا تنتے ویکھا
پیڑ سے رشتہ کب ٹوٹا تھا یاد نہیں ہے
اُس سے اپنا ناتا جُڑتے تو دیکھا تھا
یہ دھاگا کیونکر اُلجھا تھا یاد نہیں ہے
جس پر اُس چنچل کے حکم کی چھاپ لگی تھی
مَیں نے وہ پھل کیوں چکّھا تھا یاد نہیں ہے
گھر گھر فریادی بانہوں کی فصل اُگی تھی
شہر کا موسم کیوں ایسا تھا یاد نہیں ہے
سجتی دیکھ کے سرمے سی شب آنکھوں آنکھوں
میں جانے کیوں چیخ پڑا تھا یاد نہیں ہے
نیل گگن کے نیچے ننھی آشاؤں کا
خیمہ کیسے خاک ہوا تھا یاد نہیں ہے
جگنو جگنو روشنیوں پر لُوٹ مچاتے
اُس کا ماتھا کب چمکا تھا یاد نہیں ہے
طیش میں آ کر جب وہ برسا تو آگے سے
ماجدؔ نے کیا اُس سے کہا تھا یاد نہیں ہے
ماجد صدیقی

کہ جو گفتنی ہے، زبان پر نہ کوئی بھی شہر میں لا سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
جو مِلے تو والیٔ شہر کو یہی بات ہم بھی بتا سکے
کہ جو گفتنی ہے، زبان پر نہ کوئی بھی شہر میں لا سکے
جو ٹلا عقاب تو برق نے ہیں چڑھائے تیر سرِکماں
ہے کوئی کہ جور سے فاختہ کو جو آسماں کے بچا سکے
ہے یہی تو اُس کا کمالِ فن، کہ ہے راستی میں وُہ پُرفتن
نہ بچا کوئی سرِانجمن، جو فریب اُس کا نہ کھا سکے
سبھی کشتیاں سرِ آب ہیں کہ جو مبتلائے عذاب ہیں
جو بُکا کسی کی سُنے بھی تو کوئی کیا کرشمہ دکھا سکے
جو نہیں ہے ابرِ کرم کہیں تو فلک سے بھیج وُہ آگ ہی
کہ جو کشتِ جاں میں بسی ہوئی نمِ آرزو ہی جلا سکے
ہوئے شل جو وار سے غیر کے اُنہی بازوؤں کی کمان پر
یہ ہمِیں تھے تیرِ سخن تلک کسی طَور جو نہ چڑھا سکے
سبھی مصلحت کے اسیر تھے کوئی تھا نہ ہم ساخسارہ جُو
ہمِیں ایکِماجدؔ سادہ دل‘ نہ ابال دل کا دبا سکے
ماجد صدیقی

کسی طرح ہی سے دیجے، مجھے سزا دیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
ثبوتِ جرم کی صورت کوئی بنا دیجے
کسی طرح ہی سے دیجے، مجھے سزا دیجے
اُٹھے جو حرفِ حمایت کوئی مرے حق میں
دمِ نمود سے پہلے اُسے دبا دیجے
دراز قد ہوں تو پھر گاڑئیے زمیں میں مجھے
جو فرق اعلیٰ و ادنیٰ میں ہے مٹا دیجے
گرفت گر مری پرواز پر نہیں ہے تو کیا
نظر کی آگ سے ہی پر مرے جلا دیجے
کتابِ عدل میں کیا؟ جو تہہِ خیال میں ہے
وُہ حکمِ خاص بھی اَب خیر سے سُنا دیجے
کھنچو نہ میرے نشیمن کے ہم نشیں پتّو!
یہ جل اٹُھا ہے تو تُم بھی اِسے ہوا دیجے
میانِ دیدہ و لب، شعلۂ بیاں ماجدؔ!
کہو اُنہیں کہ جہاں بھی اُٹھے،بُجھا دیجے
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
وہ برگ کہ جھڑتا ہے اِس راز کو کیا جانے
کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے
جس بِل سے ڈسا جائے جائے یہ اُدھر ہی کیوں
پوچھے یہ وہی دل سے جو طرزِ وفا جانے
آتے ہوئے لمحوں کی مُٹھی میں شرارے میں
یا اشک ہیں خوشیوں کے، کیا ہے، یہ خدا جانے
ہونٹوں سے فلک تک ہے پُر پیچ سفر کیسا
یہ بات تو میں سمجھوں یا میری دُعا جانے
بھرنا نہ جنہیں آئے اُن ہجر کے زخموں کو
کیوں چھیڑنے آتی ہے پنجرے میں ہوا جانے
ہر روز جلے جس میں ماجدؔ اُسی آتش سے
ہر شخص کے سینے کو ویسا ہی جلا جانے
ماجد صدیقی

کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
نجانے جرم تھا کیا جس کی یہ سزا دی ہے
کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے
رواں دواں ہے ہر اک بازوئے توانا میں
جو رسم خیر سے چنگیز نے چلا دی ہے
کھلی ہے اُس کی حقیقت تو سب ہیں افسردہ
وہ بات جس کو بھرے شہر نے ہوا دی ہے
کمالِ فن ہے یہی عہدِ نو کے منصف کا
کہ جو پُکار بھی اٹھی کہیں، دبا دی ہے
یہی کِیا کہ رہِ شوق میں مری اُس نے
بڑے سکون سے دیوار سی اُٹھا دی ہے
جو آ رہا ہے وہ دن آج سا نہیں ہو گا
تمام عمر اِسی آس پر بِتا دی ہے
جو رہ گیا تھا اُترنے سے آنکھ میں ماجد!ؔ
سخن نے اور بھی اُس دَرد کو جِلا دی ہے
ماجد صدیقی

اور بھید میں کائنات کا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 128
پانی یہ حباب سا اٹھا ہوں
اور بھید میں کائنات کا ہوں
خلوت میں وہ چاند دیکھنے کو
اشکوں میں کنول سا تیرتا ہوں
پانے کو فراز چاہتوں کا
مَیں دار پہ بارہا سجا ہوں
کیوں ہجر قبول کرکے اُس کا
پھر آگ میں کُودنے لگا ہوں
ہو کچھ بھی جو اختیار حاصل
خود وقت ہوں خود ہی مَیں خدا ہوں
کندن ہی مجھے کہو کہ لوگو!
مَیں دہر کی آگ میں جلا ہوں
رُکنے کا نہ ہو کہیں جو ماجدؔ
فریاد کا مَیں وہ سلسلہ ہوں
ماجد صدیقی

نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
جو سو چکے تھے وُہ جذبے جگا دئیے تُو نے
نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے
شگفتِ تن سے، طلوعِ نگاہِ روشن سے
تمام رنگ رُتوں کے بھلا دئیے تُو نے
تھا پور پور میں دیپک چھُپا کہ لمس ترا
چراغ سے رگ و پے میں جلا دئیے تُو نے
لباسِ ابر بھی اُترا مِہ بدن سے ترے
حجاب جو بھی تھے حائل اُٹھا دئیے تُو نے
ذرا سے ایک اشارے سے یخ بدن کو مرے
روانیوں کے چلن سب سِکھا دئیے تُو نے
کسی بھی پل پہ گماں اب فراق کا نہ رہا
خیال و خواب میں وہ گُل کھلا دئیے تُو نے
جنم جنم کے تھے سُرتال جن میں خوابیدہ
کُچھ ایسے تار بھی اب کے ہلا دئیے تُو نے
سخن میں لُطفِ حقائق سمو کے اے ماجدؔ
یہ کس طرح کے تہلکے مچا دئیے تُو نے
ماجد صدیقی

یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
آنکھوں میں مری سما کے دیکھو
یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
پیراک ہوں بحرِ لطفِ جاں کا
ہاں ہاں مجھے آزما کے دیکھو
اُترو بھی لہُو کی دھڑکنوں میں
کیا رنگ ہیں اِس فضا کے دیکھو
مخفی ہے جو خوں کی حِدتّوں میں
وہ حشر کبھی اٹُھا کے دیکھو
بے رنگ ہیں فرطِ خواب سے جو
لمحے وہ کبھی جگا کے دیکھو
بہلاؤ نہ محض گفتگو سے
یہ ربط ذرا بڑھا کے دیکھو
ملہار کے سُر ہیں جس میں پنہاں
وُہ سازِ طرب بجا کے دیکھو
طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
ماجد صدیقی

میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یک جا میری
میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی
وہ تو ہو گا، جو مرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے
وقت سے پہلے ہی دریا میں بہا دے کوئی
میں بتاؤں گا گئی رُت نے کیا ہے کیا کیا
میرے چہرے سے جمی گرد ہٹا دے کوئی
موسمِ گل نہ سہی، بادِ نم آلود سہی
شاخِ عریاں کو دلاسہ تو دلا دے کوئی
ہے پس و پیش جو اپنا یہ مقّدر ماجدؔ
آخری تیر بھی ترکش سے چلا دے کوئی
ماجد صدیقی

حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
پھول کہو یا دل کے فسانے
حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے
برف سے اُجلے چہروں والے
آ جاتے ہیں جی کو جلانے
داغ رُخِ مہ کا دُکھ میرا
میری حقیقت کون نہ جانے
فکر و نظر پر دھُول جمائی
آہوں کی بے درد ہوا نے
دو آنکھوں کے جام لُنڈھا کر
دو ہونٹوں کے پھُول کھِلانے
دونوں ہاتھ نقاب کی صُورت
رکھنے، اور رُخ پر سے ہٹانے
ماجدؔ انجانے میں ہم بھی
بیٹھ رہے کیوں جی کو جلانے
ماجد صدیقی

حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 72
سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں
حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں
ہم کبھی بد دعا نہیں دیتے
ہم سلیقے دعا کے رکھتے ہیں
ہم نہیں ہیں شکست کے قائل
ہم سفینے جلا کے رکھتے ہیں
ان کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں
وہ جو دامن بچا کے رکھتے ہیں
احمد فراز

وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 58
دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں
ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں
ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُ کھ کا صلہ ہے سو کہاں
آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم قرینے سے سِلا ہے سو کہاں
بارہا کوچۂ جاناں سے بھی ہو آئے ہیں
ہم نے مانا کہیں جنت بھی دلا ہے سو کہاں
جلوۂ دوست بھی دُھندلا گیا آخر کو فراز
ورنہ کہنے کو تو غم، دل کی جلا ہے سو کہاں
احمد فراز

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 75
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
جون ایلیا

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 245
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے
قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگرِان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی

دیوان ششم غزل 1894
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغ سودا کی ہے سر سے
بہار اب ہے جنوں کی ابتدا کی
نہ ہو گلشن ہمارا کیونکے بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حر عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انھیں نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی
ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی
پیام اس گل کو پہنچا پھر نہ آئی
نہ خوش آئی میاں گیری صبا کی
سبب حیرت کا ہے اس کا توقف
سبک پا واں یہ اب تک کیا کیا کی
جفائیں سہیے گا کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی
جواں ہونے کی اس کے آرزو تھی
سو اب بارے ہمیں سے یہ جفا کی
گیا تھا رات دروازے پر اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی
لگا کہنے کہ یہ تو ہم نشیناں
صدا ہے دل خراش اس ہی گدا کی
رہا تھا دیکھ پہلے جو نگہ کر
ہمارے میر دل میں ان نے جا کی
ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی
میر تقی میر

افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے

دیوان ششم غزل 1887
وہ اب ہوا ہے اتنا کہ جور و جفا کرے
افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے
ہجران یار ایک مصیبت ہے ہم نشیں
مرنے کے حال سے کوئی کب تک جیا کرے
صورت ہو ایسی کوئی تو کچھ میری قدر ہو
مشتاق یار کو بھی کسو کا خدا کرے
مرنا قبول ہے نہیں زنہار یہ قبول
منت سے آن کر جو معالج دوا کرے
مستی شراب کی ہی سی ہے آمد شباب
ایسا نہ ہو کہ تم کو جوانی نشہ کرے
یارب نسیم لطف سے تیری کہیں کھلے
دل اس چمن میں غنچہ سا کب تک رہا کرے
میں نے کہا کہ آتش غم میں جلے ہے دل
وہ سردمہر گرم ہو بولا جلا کرے
رکنے سے میرے رات کے سارا جہاں رکا
آئے نسیم صبح کہ اک دم ہوا کرے
برسوں کیا کرے مری تربت کو گل فشاں
مرغ چمن اگر حق صحبت ادا کرے
عارف ہے میر اس سے ملا بیشتر کرو
شاید کہ وقت خاص میں تم کو دعا کرے
میر تقی میر

بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو

دیوان ششم غزل 1867
چاہت میں خوبرویوں کی کیا جانے کیا نہ ہو
بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو
بے لاگ عشق بازی میں مفلس کا ہے ضرر
کیا کھیلے وہ جوا جسے کچھ آسرا نہ ہو
کرتے دعا مجھے وہ دغاباز دیکھ کر
بولا کہ اس فقیر کے دل میں دغا نہ ہو
آزاد پرشکستہ کو صد رنگ قید ہے
یارب اسیر ایسا قفس سے رہا نہ ہو
دوری مہ سے کبک ہیں کہسار میں خراب
دلبر سے اپنے کوئی الٰہی جدا نہ ہو
کھولے ہے آنکھ اس کے گل رو پہ ہر سحر
غالب کہ میری آئینے کی اب صفا نہ ہو
آہوں کے میری دود سے گھر بھر گیا ہے سب
سدھ ہمنشیں لے دل کی کہیں وہ جلا نہ ہو
ہم گر جگر نکال رکھیں اس کے زیر پا
بے دید کی ادھر سے نظر آشنا نہ ہو
رہتے ہیں میر بے خود و وارفتہ ان دنوں
پوچھو کنایۃً کسو سے دل لگا نہ ہو
میر تقی میر

منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو

دیوان ششم غزل 1859
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو
منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو
بندے سے کی ہے جن نے یہ خصمی خدا کرے
اس سے بھی تم خصومت جانی رکھا کرو
عنقا سا شہرہ ہوں پہ حقیقت میں کچھ نہیں
تم دور ہی سے نام کو میرے سنا کرو
بیماری جگر کی شفا سے تو دل ہے جمع
اب دوستی سے مصلحتاً کچھ دوا کرو
ہم بے خودان مجلس تصویر اب گئے
تم بیٹھے انتظار ہمارا کیا کرو
جی مارتے ہیں ناز و کرشمہ بالاتفاق
جینا مرا جو چاہو تو ان کو جدا کرو
میں نے کہا کہ پھنک رہی ہے تن بدن میں آگ
بولا کہ عشق ہے نہ پڑے اب جلا کرو
دل جانے کا فسانہ زبانوں پہ رہ گیا
اب بیٹھے دور سے یہ کہانی کہا کرو
اب دیکھوں اس کو میں تو مرا جی نہ چل پڑے
تم ہو فقیر میر کبھو یہ دعا کرو
میر تقی میر

وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں

دیوان ششم غزل 1853
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بودو باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بدخواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میر کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
میر تقی میر

دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں

دیوان ششم غزل 1845
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آجاتا ہوں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
سعی دشمن کو نہیں دخل مری ایذا میں
رنج سے عشق کے میں آپھی کھپا جاتا ہوں
گرچہ کھویا سا گیا ہوں پہ تہ حرف و سخن
اس فریبندۂ عشاق کی پا جاتا ہوں
خشم کیوں بے مزگی کاہے کو بے لطفی کیا
بدبر اتنا بھی نہ ہو مجھ سے بھلا جاتا ہوں
استقامت سے ہوں جوں کوہ قوی دل لیکن
ضعف سے عشق کے ڈھہتا ہوں گرا جاتا ہوں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
در و دیوار کو احوال سنا جاتا ہوں
گاہ باشد کہ سمجھ جائے مجھے رفتۂ عشق
دور سے رنگ شکستہ کو دکھا جاتا ہوں
یک بیاباں ہے مری بیکسی و بیتابی
مثل آواز جرس سب سے جدا جاتا ہوں
تنگ آوے گا کہاں تک نہ مرا قلب سلیم
بگڑی صحبت کے تئیں روز بنا جاتا ہوں
گرمی عشق ہے ہلکی ابھی ہمدم دل میں
روز و شب شام و سحر میں تو جلا جاتا ہوں
میر تقی میر

کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر

دیوان ششم غزل 1824
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھاکر
کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر
شاید کہ منھ پھرا ہے بندوں سے کچھ خدا کا
نکلے ہے کام اپنا کوئی خدا خدا کر
کان اس طرف نہ رکھے اس حرف ناشنو نے
کہتے رہے بہت ہم اس کو سنا سنا کر
کہتے تھے ہم کسو کو دیکھا کرو نہ اتنا
دل خوں کیا نہ اپنا آنکھیں لڑا لڑا کر
آگے ہی مررہے ہیں ہم عشق میں بتاں کے
تلوار کھینچتے ہو ہم کو دکھا دکھا کر
وہ بے وفا نہ آیا بالیں پہ وقت رفتن
سو بار ہم نے دیکھا سر کو اٹھا اٹھا کر
جلتے تھے ہولے ہولے ہم یوں تو عاشقی میں
پر ان نے جی ہی مارا آخر جلا جلا کر
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تو نے ظالم
بہتیروں کو سلایا اس کو جگا جگا کر
مدت ہوئی ہمیں ہے واں سے جواب مطلق
دفتر کیے روانہ لکھ لکھ لکھا لکھا کر
کیا دور میر منزل مقصود کی ہے اپنے
اب تھک گئے ہیں اودھر قاصد چلا چلا کر
میر تقی میر

ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا

دیوان ششم غزل 1788
سوز دروں سے مجھ پہ ستم برملا ہوا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
بدحال ہوکے چاہ میں مرنے کا لطف کیا
دل لگتے جو موا کوئی عاشق بھلا ہوا
نکلا گیا نہ دام سے پرپیچ زلف کے
اے وائے یہ بلا زدہ دل مبتلا ہوا
کیا اور لکھیے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا
رہتا نہیں تڑپنے سے ٹک ہاتھ کے تلے
کیا جانوں میر دل کو مرے کیا بلا ہوا
میر تقی میر

نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا

دیوان ششم غزل 1787
موئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا
معالج کی نہیں تقصیر ہرگز
مرض ہی عاشقی کا لا دوا تھا
نہ خود سر کیونکے ہوں ہم یار اپنا
خودآرا خودپسند و خودستا تھا
رکھا تھا منھ کبھو اس کنج لب پر
ہمارے ذوق میں اب تک مزہ تھا
نہ ملیو چاہنے والوں سے اپنے
نہ جانا تجھ سے یہ کن نے کہا تھا
پریشاں کر گئی فریاد بلبل
کسو سے دل ہمارا پھر لگا تھا
ملے برسوں وہی بیگانگی تھی
ہمارے زعم میں وہ آشنا تھا
نہ دیوانے تھے ہم سے قیس و فرہاد
ہمارا طور عشق ان سے جدا تھا
بدن میں صبح سے تھی سنسناہٹ
انھیں سنّاہٹوں میں جی جلا تھا
صنم خانے سے اٹھ کعبے گئے ہم
کوئی آخر ہمارا بھی خدا تھا
بدن میں اس کے ہے ہرجاے دلکش
جہاں اٹکا کسو کا دل بجا تھا
کوئی عنقا سے پوچھے نام تیرا
کہاں تھا جب کہ میں رسوا ہوا تھا
چڑھی تیوری چمن میں میر آیا
کلک خسپ آج شاید کچھ خفا تھا
میر تقی میر

خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1782
ترے بندے ہم ہیں خدا جانتا ہے
خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے
ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن
مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے
گہے زیر برقع گہے گیسوئوں میں
غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے
مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی
دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے
جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ
جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے
لگا لے ہے جھمکے دکھاکر اسی کو
جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے
اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا
یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے
بلا شور انگیز ہے چال اس کی
اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے
نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی
مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے
یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے
ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے
مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو
جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے
پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ
وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے
جہاں میر عاشق ہوا خوار ہی تھا
یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے
میر تقی میر

شاید اس کے بھی دل میں جا کریے

دیوان پنجم غزل 1762
داد فریاد جابجا کریے
شاید اس کے بھی دل میں جا کریے
اب سلگنے لگی ہے چھاتی بھی
یعنی مدت پڑے جلا کریے
چشم و دل جان مائل خوباں
بدی یاروں کی کیا کیا کریے
دیکھیں کب تک رہے ہے یہ صحبت
گالیاں کھائیے دعا کریے
کچھ کہیں تو کہے ہے یہ نہ کہو
کیونکر اظہار مدعا کریے
اتفاق ان کا مارے ڈالے ہے
ناز و انداز کو جدا کریے
عید ہی کاشکے رہے ہر روز
صبح اس کے گلے لگا کریے
راہ تکنے کو بھی نہایت ہے
منتظر کب تلک رہا کریے
ہستی موہوم و یک سرو گردن
سینکڑوں کیونکے حق ادا کریے
وہ نہیں سرگذشت سنتا میر
یوں کہانی سی کیا کہا کریے
مترتب ہو نفع جو کچھ بھی
دل کی بیماری کی دوا کریے
سو تو ہر روز ہے بتر احوال
متحیر ہیں آہ کیا کریے
میر تقی میر

لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو ہو

دیوان پنجم غزل 1709
کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو
لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو ہو
کیا روویں قدر و قیمت کو یہیں سے ہے معلوم ہمیں
کام ہمارا پاس تمھارے جو آتا ہے بہادو ہو
اتنی تو جا خالی رہی ہے بزم خوش میں تمھارے سوا
جن کو کہیں جاگہ نہیں ملتی پہلو میں ان کو جا دو ہو
زنگ تو جاوے دل سے ہمارے غیر سیہ روبدگو کے
کھینچ کے تو ایک ایسی لگائو تیغ ستم کی تا دو ہو
صحبت گرم ہماری تمھاری شمع پتنگے کی سی ہے
یعنی ہو دل سوز جو کوئی اس کو تم تو جلا دو ہو
رنگ صحبت کس کو دکھاویں خوبی اپنی قسمت کی
ساغر مے دشمن کو دو ہو ہم کو زہر منگا دو ہو
بند نہیں جو کرتے ہو تم سینے کے سوراخوں کو
جی کی رکن میں ان رخنوں سے شاید دل کو ہوا دو ہو
آنکھ جھپک جاتی نہیں تنہا آگے چہرئہ روشن کے
ماہ بھی بیٹھا جاتا ہے جب منھ سے نقاب اٹھا دو ہو
غیر سے غیریت ہے آساں لیکن تہ کچھ ہم کو نہیں
بات بتاویں کیا ہم تم کو تم ہم کو تو بنا دو ہو
میر حقارت سے ہم اپنی چپ رہ جاتے ہیں جان جلے
طول ہمارے گھٹنے کو دے کر جیسے چراغ بڑھا دو ہو
میر تقی میر

عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں

دیوان پنجم غزل 1698
حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں
عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں
ہم وے ہر چند کہ ہم خانہ ہیں دونوں لیکن
روش عاشق و معشوق جدا بیٹھے ہیں
ان ستم کشتوں کو ہے عشق کہ اٹھ کر یک بار
تیغ خوں خوار تلے یار کی جا بیٹھے ہیں
کیونکے یاں اس کا خیال آوے کہ آگے ہی ہم
دل سا گھر آتشیں آہوں سے جلا بیٹھے ہیں
پیش رو دست دعا ہے وہی شے خواہش ہے
اور سب چیز سے ہم ہاتھ اٹھا بیٹھے ہیں
ساری رات آنکھوں کے آگے ہی مری رہتا ہے
گوکہ وے چاند سے مکھڑے کو چھپا بیٹھے ہیں
باغ میں آئے ہیں پر اس گل تر بن یک سو
غنچہ پیشانی و دل تنگ و خفا بیٹھے ہیں
کیا کہوں آئے کھڑے گھر سے تو اک شوخی سے
پائوں کے نیچے مرے ہاتھ دبا بیٹھے ہیں
قافلہ قافلہ جاتے ہیں چلے کیا کیا لوگ
میر غفلت زدہ حیران سے کیا بیٹھے ہیں
میر تقی میر

دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا ہے

دیوان چہارم غزل 1512
کہو سو کریے فراق اس کا تو جی کو میرے کھپا گیا ہے
دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا ہے
اگرچہ مارا بگڑ کے مجھ کو و لیک لطف و کرم سے پھر بھی
نشان میرے مزار کا وہ سررہ اپنی بنا گیا ہے
خرام شوخی کے ہمرہ اس کے ہزار جانیں چلی گئی ہیں
رکھا ہے رہ میں قدم جو ان نے تو میر کس سے رہا گیا ہے
میر تقی میر

رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے

دیوان چہارم غزل 1511
اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے
رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے
فرہاد و قیس گذرے اب شور ہے ہمارا
ہر کوئی اپنی نوبت دو دن بجا گیا ہے
ضعف دماغ سے میں بھر کر نظر نہ دیکھا
کیا دیر میں پلک سے میری اٹھا گیا ہے
بے جا ہوئے بہت دل رفتار دیکھ اس کی
عزلت گزینوں سے بھی کم ہی رہا گیا ہے
رسوا خراب و غم کش دل باختہ محبت
عاشق کو تیرے غم میں کیا کیا کہا گیا ہے
اے میر شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آ گیا ہے
شاعر نہیں جو دیکھا تو تو ہے کوئی ساحر
دو چار شعر پڑھ کر سب کو رجھا گیا ہے
میر تقی میر

لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے

دیوان چہارم غزل 1499
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے
لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
پانی کی سی بوندیں تھیں سب اشک نہ میں جانا
کپڑوں پہ گریں گے تو وے آگ جلا دیں گے
سرگشتہ سا پھرتا ہے کہتے ہیں بیاباں میں
گر خضر ملے گا تو ہم راہ بتا دیں گے
اے کاش قیامت میں دیویں اسے عاشق کو
گر حسن عمل کی واں لوگوں کو جزا دیں گے
حاصل کڑی ہونے کا ابرو کی کمان اس کی
دیکھیں گے چڑھی جس دم ہم سر کو نوا دیں گے
ایدھر نہیں آتا وہ آوے تو تصدق کر
جی جامہ اٹھا دیں گے گھر بار لٹا دیں گے
معشوقوں کی گرمی بھی اے میر قیامت ہے
چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگا دیں گے
میر تقی میر

روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے

دیوان چہارم غزل 1494
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے
غیرت عشق کسو وقت بلا تھی ہم کو
تھوڑی آزردگی میں ترک وفا کرتے تھے
دل کی بیماری سے خاطر تو ہماری تھی جمع
لوگ کچھ یوں ہی محبت سے دوا کرتے تھے
جب تلک شرم رہی مانع شوخی اس کی
تب تلک ہم بھی ستم دیدہ حیا کرتے تھے
مائل کفر جوانی میں بہت تھے ہم لوگ
دیر میں مسجدوں میں دیر رہا کرتے تھے
آتش عشق جہاں سوز کی لپٹیں تھیں قہر
دل جگر جان درونے میں جلا کرتے تھے
اب تو بیتابی دل نے ہمیں بٹھلا ہی دیا
آگے رنج و تعب عشق اٹھا کرتے تھے
اٹھ گئے پر مرے تکیے کو کہیں گے یاں میر
درد دل بیٹھے کہانی سی کہا کرتے تھے
میر تقی میر

درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ

دیوان چہارم غزل 1486
چاہ میں دل پر ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے کیا کیا کچھ
درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ
عاشق کے مر جانے کے اسباب بہت رسوائی میں
دل بھی لگا ہے شرم و حیا ہے مہر و وفا ہے کیا کیا کچھ
عشق نے دے کر آگ یکایک شہر تن کو پھونک دیا
دل تو جلا ہے دماغ جلا ہے اور جلا ہے کیا کیا کچھ
دل لینے کو فریفتہ کے بہتیرا کچھ ہے یار کنے
غمزہ عشوہ چشمک چتون ناز و ادا ہے کیا کیا کچھ
کیا کیا دیدہ درائی سی تم کرتے رہے اس عالم میں
تم سے آگے سنو ہو صاحب نہیں ہوا ہے کیا کیا کچھ
حسرت وصل اندوہ جدائی خواہش کاوش ذوق و شوق
یوں تو چلا ہوں اکیلا لیکن ساتھ چلا ہے کیا کیا کچھ
کیا کہیے جب میں نے کہا ہے میر ہے مغرور اس پر تو
اپنی زباں مت کھول تو ان نے اور کہا ہے کیا کیا کچھ
میر تقی میر

پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ

دیوان چہارم غزل 1482
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے ہیں
بیماری دلی کی شاید نہیں دوا کچھ
وارفتہ ہے گلستاں اس روے چمپئی کا
ہے فصل گل پہ گل کا اب وہ نہیں مزہ کچھ
وہ آرسی کے آگے پہروں ہے بے تکلف
منھ سے ہمارے اس کو آتی نہیں حیا کچھ
دل ہی کے غم میں گذرے دس دن جو عمر کے تھے
اچرج ہے اس نگر سے جاتا نہیں دہا کچھ
منھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرف سے کیا کچھ
دل لے فقیر کا بھی ہاتھوں میں دل دہی کر
آجائے ہے جہاں میں آگے لیا دیا کچھ
یاروں کی آہ و زاری ہووے قبول کیوں کر
ان کی زباں میں کچھ ہے دل میں ہے کچھ دعا کچھ
ساری وہی حقیقت ملحوظ سب میں رکھیے
کہیے نمود ہووے جو اس کے ماسوا کچھ
حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ
کب تک یہ بدشرابی پیری تو میر آئی
جانے کے ہو مہیا اب کر چلو بھلا کچھ
میر تقی میر

بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں

دیوان چہارم غزل 1455
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ان طیوروں سے ہوں میں بھی اگر آتی ہے صبا
باغ کے چار طرف آگ لگا دیتے ہیں
گرچہ ملتے ہیں خنک غیرت مہ یہ لڑکے
دل جگر دونوں کو یک لخت جلا دیتے ہیں
دیر رہتا ہے ہما لاش پہ غم کشتوں کی
استخواں ان کے جلے کچھ تو مزہ دیتے ہیں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
ہر طرف سینکڑوں درویش دعا دیتے ہیں
دل جگر ہو گئے بیتاب غم عشق جہاں
جی بھی ہم شوق کے ماروں کے دغا دیتے ہیں
کیونکے اس راہ میں پا رکھیے کہ صاحب نظراں
یاں سے لے واں تئیں آنکھیں ہی بچھا دیتے ہیں
ملتے ہی آنکھ ملی اس کی تو پر ہم بے تہ
خاک میں آپ کو فی الفور ملا دیتے ہیں
طرفہ صناع ہیں اے میر یہ موزوں طبعاں
بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں
میر تقی میر

ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا

دیوان چہارم غزل 1327
دل سنبھالے کہیں میں کل جو چلا جاتا تھا
ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا
بے دماغی کا سماں دیکھنے کی کس کو تاب
آنکھیں ملتا تھا جو وہ جی ہی ملا جاتا تھا
سوزش دل کے سبب مرگ نہ تھی عاشق کی
اپنی غیرت میں وہ کچھ آپھی جلا جاتا تھا
ہلہلاوے ہے حقیری سے مجھے اب وہ بھی
جس شکستے سے نہ جاگہ سے ہلا جاتا تھا
میر کو واقعہ کیا جانیے کیا تھا درپیش
کہ طرف دشت کے جوں سیل چلا جاتا تھا
میر تقی میر

اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا

دیوان چہارم غزل 1320
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغ گور اکیلا جلا کیا
آیا نہ اس طرف سے جواب ایک حرف کا
ہر روز خط شوق ادھر سے چلا کیا
ڈرتا ہی میں رہا کہ پلک کوئی گڑ نہ جائے
آنکھوں سے اس کے رات جو تلوے ملا کیا
بدحال ٹھنڈی سانسیں بھرا کب تلک کرے
سرگرم مرگ میر ہوا تو بھلا کیا
میر تقی میر

پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا

دیوان چہارم غزل 1319
مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا
بازار میں ہو جانا اس مہ کا تماشا تھا
یوسفؑ بھی جو واں ہوتا تو اس پہ بکا جاتا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظر پھر میں
جی مفت مرا جاتا اس شوخ کا کیا جاتا
شب آہ شرر افشاں ہونٹوں سے پھری میرے
سر کھینچتا یہ شعلہ تو مجھ کو جلا جاتا
کیا شوق کی باتوں کی تحریر ہوئی مشکل
تھے جمع قلم کاغذ پر کچھ نہ لکھا جاتا
آنکھیں مری کھلتیں تو اس چہرے ہی پر پڑتیں
کیا ہوتا یکایک وہ سر پر مرے آجاتا
سبزے کا ہوا روکش خط رخ جاناں کے
جو ہاتھ مرے چڑھتا تو پان کو کھا جاتا
ہے شوق سیہ رو سے بدنامی و رسوائی
کیوں کام بگڑ جاتا جو صبر کیا جاتا
تھا میر بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
میر تقی میر

ٹھہرائو سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا

دیوان چہارم غزل 1318
اے کاش مرے سر پر اک بار وہ آجاتا
ٹھہرائو سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا
تب تک ہی تحمل ہے جب تک نہیں آتا وہ
اس رستے نکلتا تو ہم سے نہ رہا جاتا
اک آگ لگا دی ہے چھاتی میں جدائی نے
وہ مہ گلے لگتا تو یوں دل نہ جلا جاتا
یا لاگ کی وے باتیں یا ایسی ہے بیزاری
وہ جو نہ لگا لیتا تو میں نہ لگا جاتا
کیا نور کا بکّا ہے چہرہ کہ شب مہ میں
منھ کھولے جو سو رہتا تو ماہ چھپا جاتا
اس شوق نے دل کے بھی کیا بات بڑھائی تھی
رقعہ اسے لکھتے تو طومار لکھا جاتا
یہ ہمدمی کا دعویٰ اس کے لب خنداں سے
بس کچھ نہ چلا ورنہ پستے کو چبا جاتا
اب تو نہ رہا وہ بھی طاقت گئی سب دل کی
جو حال کبھو اپنا میں تم کو سنا جاتا
وسواس نہ کرتا تھا مر جانے سے ہجراں میں
تھا میر تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا
میر تقی میر

خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے

دیوان سوم غزل 1269
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
بہت روئے ہمارے دیدئہ تر اب نہیں کھلتے
متاع آب دیدہ ہے کوئی اس کو ہوا دیوے
تمھارے پائوں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے
تم آئو تو تمھیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جا دیوے
دلیل گم رہی ہے خضر جو ملتا ہے جنگل میں
پھرے ہے آپھی بھولا کیا ہمیں رستہ بتا دیوے
گئے ہی جی کے فیصل ہو نیاز و ناز کا جھگڑا
کہیں وہ تیغ کھینچے بھی کہ بندہ سر جھکا دیوے
لڑائی ہی رہی روزوں میں باہم بے دماغی سے
گلے سے اس کے ہم کو عید اب شاید ملا دیوے
ہوا میں میر جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا
لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے
میر تقی میر

کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں

دیوان سوم غزل 1182
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں
ہوئی یہ چاہ میں مشکل کہ جی گیا ہوتا
نہ رہتے جیتے اگر ہم مساہلہ نہ کریں
ہمارے حرف پریشاں ہی لطف رکھتے ہیں
جنوں ہے بحث جو وحشت میں عاقلانہ کریں
صفاے دل جو ہوئی ٹک تو دیکھیں ہیں کیا کیا
ہم ایسے آئینے کو اپنے کیوں جلا نہ کریں
وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں
دل اب تو ہم سے ہے بدباز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں
سخن کے ملک کا میں مستقل امیر ہوں میر
ہزار مدعی بھی مجھ کو دہ دلا نہ کریں
میر تقی میر

خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا

دیوان سوم غزل 1100
کل رات رو کے صبح تلک میں رہا گرا
خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا
اب شہر خوش عمارت دل کا ہے کیا خیال
ناگاہ آ کے عشق نے مارا جلا گرا
کیا طے ہو راہ عشق کی عاشق غریب ہے
مشکل گذر طریق ہے یاں رہگرا گرا
لازم پڑی ہے کسل دلی کو فتادگی
بیمار عشق رہتا ہے اکثر پڑا گرا
ٹھہرے نہ اس کے عشق کا سرگشتہ و ضعیف
ٹھوکر کہیں لگی کہ رہا سرپھرا گرا
دے مارنے کو تکیہ سے سر ٹک اٹھا تو کیا
بستر سے کب اٹھے ہے غم عشق کا گرا
پھرتا تھا میر غم زدہ یک عمر سے خراب
اب شکر ہے کہ بارے کسی در پہ جا گرا
میر تقی میر

گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے

دیوان دوم غزل 1050
کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے
اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے
فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے
سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے
کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ
مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا
جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے
اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے
گرم آکر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا
تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے
کیا چال یہ نکالی ہوکر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے
دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے
ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے
سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی
کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے
حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت
اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے
سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں
منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے
بیٹھے ہے یار آکر جس جا پہ ایک ساعت
ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے
سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے
کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم
اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے
گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے
ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے
گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی
مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے
ایک آفت زماں ہے یہ میر عشق پیشہ
پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے
میر تقی میر

دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

دیوان دوم غزل 1030
کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے
ان چار دن سے ہوں میں افسردہ کچھ وگرنہ
پھوڑا سا دل بغل میں برسوں جلا کیا ہے
اس گل کی اور اپنا تب منھ کیا ہے میں نے
جب آشنا لبوں سے صلِّ علیٰ کیا ہے
دل داغ کب نہ دیکھا جی بار کب نہ پایا
کیا کیا نہال خواہش پھولا پھلا کیا ہے
تڑپا ہے ایسا ایسا جو غش رہا ہے مجھ کو
دل اک بغل میں جی کا دشمن پلا کیا ہے
کیا خاک میں ہمیں کو ان نے نیا ملایا
ٹیڑھی ہی چال گردوں اکثر چلا کیا ہے
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے
ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہو گا
تونے بدی تو کی ہے ظالم بھلا کیا ہے
ہے منھ پہ میر کے کیا گرد ملال تازہ
یہ خاک میں ہمیشہ یوں ہی رلا کیا ہے
میر تقی میر

اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے

دیوان دوم غزل 1007
اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے
مرتے ہوئے بھی ہم کو صورت نہ آ دکھائی
وقت اخیر اچھا منھ کو چھپا کے بیٹھے
عزلت نشیں ہوئے جب دل داغ ہو گیا تب
یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے
جو کفر جانتے تھے عشق بتاں کو وہ ہی
مسجد کے آگے آخر قشقہ لگا کے بیٹھے
شور متاع خوبی اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
کیا اپنی اور اس کی اب نقل کریے صحبت
مجلس سے اٹھ گیا وہ ٹک ہم جو آ کے بیٹھے
کیا جانے تیغ اس کی کب ہو بلند عاشق
یوں چاہیے کہ سر کو ہر دم جھکا کے بیٹھے
پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے
مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے
کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی
خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے
وادی قیس سے پھر آئے نہ میر صاحب
مرشد کے ڈھیر پر وے شاید کہ جا کے بیٹھے
میر تقی میر

مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے

دیوان دوم غزل 1000
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے دور جاناں سے
کوئی کاش اس گلی میں ہم کو اک تکیہ بنا دیوے
ہوئے برسوں کہ وہ ظالم رہے ہے مجھ پہ کچھ ٹیڑھا
کوئی اس تیغ برکف کو گلے میرے ملا دیوے
وفا کی مزد میں ہم پر جفا و جور کیا کہیے
کسو سے دل لگے اس کا تو وہ اس کی جزا دیوے
کہیں کچھ تو برا مانو بھلا انصاف تو کریے
بدی کو بھی نہایت ہے تمھیں نیکی خدا دیوے
صنوبر آدمی ہو تو سراپا بار دل لاوے
کہاں سے کوئی تازہ دل اسے ہر روز لا دیوے
بہت گمراہ ہے وہ شوخ لگتا ہے کہے کس کے
کوئی کیا راہ کی بات اس جفاجو کو بتا دیوے
جگر سب جل گیا لیکن زباں ہلتی نہیں اپنی
مباد اس آتشیں خو کو مخالف کچھ لگا دیوے
کوئی بھی میر سے دل ریش سے یوں دور پھرتا ہے
ٹک اس درویش سے مل چل کہ تجھ کو کچھ دعا دیوے
میر تقی میر

کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی

دیوان دوم غزل 962
تجھ کنے بیٹھے گھٹا جاتا ہے جی
کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی
یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم
پر وہ آتا ہے تو آجاتا ہے جی
ہائے اس کے شربتی لب سے جدا
کچھ بتاشا سا گھلا جاتا ہے جی
اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو
یا دب ہی آتا ہے یا جاتا ہے جی
کیا کہیں تم سے کہ اس شعلے بغیر
جی ہمارا کچھ جلا جاتا ہے جی
عشق آدم میں نہیں کچھ چھوڑتا
ہولے ہولے کوئی کھا جاتا ہے جی
اٹھ چلے پر اس کے غش کرتے ہیں ہم
یعنی ساتھ اس کے چلا جاتا ہے جی
آ نہیں پھرتا وہ مرتے وقت بھی
حیف ہے اس میں رہا جاتا ہے جی
رکھتے تھے کیا کیا بنائیں پیشتر
سو تو اب آپھی ڈھہا جاتا ہے جی
آسماں شاید ورے کچھ آگیا
رات سے کیا کیا رکا جاتا ہے جی
کاشکے برقع رہے اس رخ پہ میر
منھ کھلے اس کے چھپا جاتا ہے جی
میر تقی میر

ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی

دیوان دوم غزل 947
ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی
ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی
کس کو لاگی کہ نہ لوہو میں ڈبایا اس کو
اس کی شمشیر کی جدول بھی بہا کیا کیا کی
جان کے ساتھ ہی آخر مرض عشق گیا
جی بھلا ٹک نہ ہوا ہم نے دوا کیا کیا کی
ان نے چھوڑی نہ طرف جور و جفا کی ہرگز
ہم نے یوں اپنی طرف سے تو وفا کیا کیا کی
سجدہ اک صبح ترے در کا کروں اس خاطر
میں نے محراب میں راتوں کو دعا کیا کیا کی
آگ سی پھنکتی ہی دن رات رہا کی تن میں
جان غمناک ترے غم میں جلا کیا کیا کی
میر نے ہونٹوں سے اس کے نہ اٹھایا جی کو
خلق اس کے تئیں یہ سن کے کہا کیا کیا کی
میر تقی میر

محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو

دیوان دوم غزل 933
عنایت ازلی سے جو دل ملا مجھ کو
محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو
تنک شراب ضعیف الدماغ ہوں ساقی
دم سحر مئے پرزور مت پلا مجھ کو
پڑا رہے کوئی مردہ سا کب تلک خاموش
ہلا کہیں لب جاں بخش کو جلا مجھ کو
جنوں میں سخت ہے اس زلف سے علاقۂ دل
خوش آگیا ہے نہایت یہ سلسلہ مجھ کو
فلک کی چرخ زنی برسوں ہو تو مجھ سا ہو
سمجھ سمجھ کے تنک خاک میں ملا مجھ کو
رہا تھا خوں تئیں ہمرہ سو آپھی خون ہے حیف
رفیق تجھ سا ملے گا کہاں دلا مجھ کو
درستی جیب کی اتنی نہیں ہے اے ناصح
بنے تو سینۂ صدچاک دے سلا مجھ کو
ہوا ہوں خاک پہ دل کی وہی ہے ناصافی
ابھی اس آئینے کی کرنی ہے جلا مجھ کو
مگر کہ مردن دشوار میر سہل ہے شوخ
ہلاک کرتا ہے تیرا مساہلہ مجھ کو
میر تقی میر

جلے کو اور تو اتنا جلا مت

دیوان دوم غزل 787
ملامت گر نہ مجھ کو کر ملامت
جلے کو اور تو اتنا جلا مت
گلے مل عید قرباں کو سبھوں کے
ہمارا آہ تم کاٹو گلا مت
تری ناآشنائی کے ہیں بندے
نہ وہ اب ربط نے صاحب سلامت
بہت رونے نے رسوا کر دکھایا
نہ چاہت کی چھپی ہم سے علامت
کبھو تلوار وہ کھینچے ہے اے میر
لڑی قسمت تو سر کو ٹک ہَلا مت
میر تقی میر

سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات

دیوان دوم غزل 781
کام کیا تھا جیب و دامن سے مجھے پیش از جنوں
سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات
جن دنوں کھینچا تھا سر اس بادشاہ حسن نے
ہر گلی میں اک فقیر اس کو دعا کرتا تھا رات
اب جہاں کچھ بات چھیڑی سوچ لایا پیش ازیں
میں کہا کرتا غم دل وہ سنا کرتا تھا رات
ہجر میں کیا کیا سمیں دیکھے ہیں ان آنکھوں سے میں
زرد رخ پر لالہ گوں آنسو بہا کرتا تھا رات
کیا کہوں پھر کیسے کیسے دن دکھاتا سالہا
وہ سخن نشنو جو ٹک میرا کہا کرتا تھا رات
دیکھنے والے ترے دیکھے میں سب اے رشک شمع
جوں چراغ وقف دل سب کا جلا کرتا تھا رات
بعد میرے اس غزل پر بھی بہت روویں گے لوگ
میں بھی ہر ہر بیت پر اس کی بکا کرتا تھا رات
دیکھ خالی جا کہیں گے برسوں اہل روزگار
میر اکثر دل کا قصہ یاں کہا کرتا تھا رات
میر تقی میر

کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا

دیوان دوم غزل 736
کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا
کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا
کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو ملا کرتا
تو تیرے جی میں مخالف نہ اتنی جا کرتا
چمن میں پھول گل اب کے ہزار رنگ کھلے
دماغ کاش کہ اپنا بھی ٹک وفا کرتا
فقیر بستی میں تھا تو ترا زیاں کیا تھا
کبھو جو آن نکلتا کوئی صدا کرتا
علاج عشق نے ایسا کیا نہ تھا اس کا
جو کوئی اور بھی مجنوں کی کچھ دوا کرتا
قدم کے چھونے سے استادگی مجھی سے ہوئی
کبھو وہ یوں تو مرے ہاتھ بھی لگا کرتا
بدی نتیجہ ہے نیکی کا اس زمانے میں
بھلا کسو سے جو کرتا تو تو برا کرتا
تلاطم آنکھ کے صد رنگ رہتے تھے تجھ بن
کبھو کبھو جو یہ دریاے خوں چڑھا کرتا
کہاں سے نکلی یہ آتش نہ مانتا تھا میں
شروع ربط میں اس کے جو دل جلا کرتا
گلی سے یار کی ہم لے گئے سر پر شور
وگرنہ شام سے ہنگامہ ہی رہا کرتا
خراب مجھ کو کیا دل کی لاگ نے ورنہ
فقیر تکیے سے کاہے کو یوں اٹھا کرتا
گئے پہ تیرے نہ تھا ہم نفس کوئی اے گل
کبھو نسیم سے میں درد دل کہا کرتا
کہیں کی خاک کوئی منھ پہ کب تلک ملتا
خراب و خوار کہاں تک بھلا پھرا کرتا
موئی ہی رہتی تھی عزت مری محبت میں
ہلاک آپ کو کرتا نہ میں تو کیا کرتا
ترے مزاج میں تاب تعب تھی میر کہاں
کسو سے عشق نہ کرتا تو تو بھلا کرتا
میر تقی میر

تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا

دیوان دوم غزل 729
آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آجاتا
تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا
اصلح ہے حجاب اس کا ہم شوق کے ماروں سے
بے پردہ جو وہ ہوتا تو کس سے رہا جاتا
طفلی کی ادا تیری جاتی نہیں یہ جی سے
ہم دیکھتے تجھ کو تو تو منھ کو چھپا جاتا
صد شکر کہ داغ دل افسردہ ہوا ورنہ
یہ شعلہ بھڑکتا تو گھر بار جلا جاتا
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ان آنکھوں سے ہم چشمی برجاہے جو میں جل کر
بادام کو کل یارو مجلس ہی میں کھا جاتا
صحبت سگ و آہو کی یک عمر رہی باہم
وہ بھاگتا مجھ سے تو میں اس سے لگا جاتا
گر عشق نہیں ہے تو یہ کیا ہے بھلا مجھ کو
جی خودبخود اے ہمدم کاہے کو کھپا جاتا
جوں ابر نہ تھم سکتا آنکھوں کا مری جھمکا
جوں برق اگر وہ بھی جھمکی سی دکھا جاتا
تکلیف نہ کی ہم نے اس وحشی کو مرنے کی
تھا میر تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا
میر تقی میر

کیا جانیے کہ میر زمانے کو کیا ہوا

دیوان دوم غزل 691
ایک آن اس زمانے میں یہ دل نہ وا ہوا
کیا جانیے کہ میر زمانے کو کیا ہوا
دکھلاتے کیا ہو دست حنائی کا مجھ کو رنگ
ہاتھوں سے میں تمھارے بہت ہوں جلا ہوا
سوزش وہی تھی چھاتی میں مرنے تلک مرے
اچھا ہوا نہ داغ جگر کا لگا ہوا
سر ہی چڑھا رہے ہے ہر اک بادہ خوار کے
ہے شیخ شہر یا کوئی ہے جن پڑھا ہوا
ظاہر کو گو درست رکھا مر کے میں ولے
دل کا لگائو کوئی رہا ہے چھپا ہوا
ازخویش رفتہ میں ہی نہیں اس کی راہ میں
آتا نہیں ہے پھر کے ادھر کا گیا ہوا
یوں پھر اٹھا نہ جائے گا اے ابر دشت سے
گر کوئی رونے بیٹھ گیا دل بھرا ہوا
لے کر جواب خط کا نہ قاصد پھرا کبھو
کیا جانے سرنوشت میں کیا ہے لکھا ہوا
گو پیس مارے مہندی کے رنگوں فلک ولے
چھوٹے نہ اس سے اس کا لگا یا بندھا ہوا
اٹھتے تعب فراق کے جی سے کہاں تلک
دل جو بجا رہا نہ ہمارا بجا ہوا
دامن سے منھ چھپائے جنوں کب رہا چھپا
سو جا سے سامنے ہے گریباں پھٹا ہوا
دیکھا نہ ایک گل کو بھی چشمک زنی میں ہائے
جب کچھ رہا نہ باغ میں تب میں رہا ہوا
کیا جانیے ملاپ کسے کہتے ہیں یہ لوگ
برسوں ہوئے کہ ہم سے تو وہ ہے لڑا ہوا
بحر بلا سے کوئی نکلتا مرا جہاز
بارے خداے عزَّوجل ناخدا ہوا
اس بحر میں اک اور غزل تو بھی میر کہہ
دریا تھا تو تو تیری روانی کو کیا ہوا
میر تقی میر

اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا

دیوان دوم غزل 687
وہ شوخ ہم کو پائوں تلے ہے ملا کیا
اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا
چھاتی کبھو نہ ٹھنڈی کی لگ کر گلے سے آہ
دل اس سے دور سینے میں اکثر جلا کیا
کس وقت شرح حال سے فرصت ہمیں ہوئی
کس دن نیا نہ قاصد ادھر سے چلا کیا
ہم تو گمان دوستی رکھتے تھے پر یہ دل
دشمن عجب طرح کا بغل میں پلا کیا
کیا لطف ہے جیے جو برے حال کوئی میر
جینے سے تونے ہاتھ اٹھایا بھلا کیا
میر تقی میر

شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

دیوان دوم غزل 670
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا
قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا
وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا
حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا
عالم کی بے فضائی سے تنگ آگئے تھے ہم
جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا
درپے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا
اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا
بدتر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا
کہتا تھا میر حال تو جب تک تو تھا بھلا
کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا
میر تقی میر

کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

دیوان اول غزل 605
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلاکر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھاکر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپاکر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہاکر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدے کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آکر چلے
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھاکر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
میر تقی میر

اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے

دیوان اول غزل 587
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے
اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے
ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر صفت
ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پا سکے
غافل نہ رہیو آہ ضعیفوں سے سرکشاں
طاقت ہے اس کو یہ کہ جہاں کو جلا سکے
میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں
تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے
تدبیر جیب پارہ نہیں کرتی فائدہ
ناصح جگر کا چاک سلا جو سلا سکے
اس کا کمال چرخ پہ سر کھینچتا نہیں
اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ تو ہے بوالہوس
کھانا تجھے حرام ہے جو زخم کھا سکے
اس رشک آفتاب کو دیکھے تو شرم سے
ماہ فلک نہ شہر میں منھ کو دکھا سکے
کیا دل فریب جاے ہے آفاق ہم نشیں
دو دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جا سکے
مشعر ہے اس پہ مردن دشوار رفتگاں
یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اٹھا سکے
بدلوں گا اس غزل کے بھی میں قافیے کو میر
پھر فکر گو نہ عہدے سے اس کے بر آسکے
میر تقی میر

الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے

دیوان اول غزل 563
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے
رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی سے
بلا سے چاک ہی ہوجاوے سینہ ٹک ہوا آوے
ترا آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دم آخر
یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے
یہ رسم آمد و رفت دیار عشق تازہ ہے
ہنسی وہ جائے میری اور رونا یوں چلا آوے
اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جاکر آشیاں میرا جلا آوے
امید رحم ان سے سخت نافہمی ہے عاشق کی
یہ بت سنگیں دلی اپنی نہ چھوڑیں گر خدا آوے
یہ فن عشق ہے آوے اسے طینت میں جس کی ہو
تو زاہد پیر نابالغ ہے بے تہ تجھ کو کیا آوے
ہمارے دل میں آنے سے تکلف غم کو بیجا ہے
یہ دولت خانہ ہے اس کا وہ جب چاہے چلا آوے
برنگ بوے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گذرے
میسر میر صاحب گر دل بے مدعا آوے
میر تقی میر

بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے

دیوان اول غزل 534
تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے
بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے
اب کے بگڑے گی اگر ان سے تو اس شہر سے جا
کسو ویرانے میں تکیہ ہی بنا بیٹھیں گے
معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خونریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے
ہو گا ایسا بھی کوئی روز کہ مجلس سے کبھو
ہم تو ایک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے
جا نہ اظہار محبت پہ ہوسناکوں کی
وقت کے وقت یہ سب منھ کو چھپا بیٹھیں گے
دیکھیں وہ غیرت خورشید کہاں جاتا ہے
اب سر راہ دم صبح سے آ بیٹھیں گے
بھیڑ ٹلتی ہی نہیں آگے سے اس ظالم کے
گردنیں یار کسی روز کٹا بیٹھیں گے
کب تلک گلیوں میں سودائی سے پھرتے رہیے
دل کو اس زلف مسلسل سے لگا بیٹھیں گے
شعلہ افشاں اگر ایسی ہی رہی آہ تو میر
گھر کو ہم اپنے کسو رات جلا بیٹھیں گے
میر تقی میر

پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان اول غزل 513
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے
مت پوچھ میری اس کی شام و سحر کی صحبت
اس طرف سے ہے گالی اس طرف سے دعا ہے
بالیں پہ میری آکر ٹک دیکھ شوق دیدار
سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آرہا ہے
بے اس کے رک کے مرتے گرمی عشق میں تو
کرتے ہیں آہ جب تک تب تک ہی کچھ ہوا ہے
شکوہ ہے رونے کا یہ بے گانگی سے تیری
مژگان تر وگرنہ آنکھوں میں آشنا ہے
مت کر زمین دل میں تخم امید ضائع
بوٹا جو یاں اگا ہے سو اگتے ہی جلا ہے
شرمندہ ہوتے ہیں گے خورشید و ماہ دونوں
خوبی نے تیرے منھ کی ظالم قراں کیا ہے
اے شمع بزم عاشق روشن ہے یہ کہ تجھ بن
آنکھوں میں میری عالم تاریک ہو گیا ہے
جیتے ہی جی تلک ہیں سارے علاقے سو تو
عاشق ترا مجرد فارغ ہی ہو چکا ہے
آزردگی عبث کیوں تشہیر و قتل و ایذا
فرمایئے تو وہ کچھ جو کچھ کہ مدعا ہے
صد سحر و یک رقیمہ خط میر جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے
میر تقی میر

تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے

دیوان اول غزل 510
لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
کھینچا تھا آہ شعلہ فشاں نے جگر سے سر
برسوں تئیں پڑے ہوئے جنگل جلا کیے
غنچے نے ساری طرز ہماری ہی اخذ کی
ہم جو چمن میں برسوں گرفتہ رہا کیے
تدبیر عشق میں بھی نہ کرتے قصور یار
جو اس مرض میں ہوتے بھلے ہم دوا کیے
جوں نے نہ تیرے کشتے کے لب سے رہی فغاں
ہر چند بند بند بھی اس کے جدا کیے
کیا حرف دل نشیں ہو مرا جیسے خط مدام
اغیار روسیاہ ترے منھ لگا کیے
پھر شام آشنا نہ کبھو نکلے گل رخاں
ہر صبح ان سے برسوں تئیں ہم ملا کیے
بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی اے بتاں
تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے
اک خاک سی اڑے ہے منھ اوپر وگرنہ میر
اس چشم گریہ ناک سے دریا بہا کیے
میر تقی میر

تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ

دیوان اول غزل 428
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ
دل جگر جان یہ بھسمنت ہوئے سینے میں
گھر کو آتش دی محبت نے جلا کیا کیا کچھ
کیا کہوں تجھ سے کہ کیا دیکھا ہے تجھ میں میں نے
عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کیا کیا کچھ
دل گیا ہوش گیا صبر گیا جی بھی گیا
شغل میں غم کے ترے ہم سے گیا کیا کیا کچھ
آہ مت پوچھ ستمگار کہ تجھ سے تھی ہمیں
چشم لطف و کرم و مہر و وفا کیا کیا کچھ
نام ہیں خستہ و آوارہ و بدنام مرے
ایک عالم نے غرض مجھ کو کہا کیا کیا کچھ
طرفہ صحبت ہے کہ سنتا نہیں تو ایک مری
واسطے تیرے سنا میں نے سنا کیا کیا کچھ
حسرت وصل و غم ہجر و خیال رخ دوست
مر گیا میں پہ مرے جی میں رہا کیا کیا کچھ
درد دل زخم جگر کلفت غم داغ فراق
آہ عالم سے مرے ساتھ چلا کیا کیا کچھ
چشم نمناک و دل پر جگر صد پارہ
دولت عشق سے ہم پاس بھی تھا کیا کیا کچھ
تجھ کو کیا بننے بگڑنے سے زمانے کے کہ یاں
خاک کن کن کی ہوئی صرف بنا کیا کیا کچھ
قبلہ و کعبہ خداوند و ملاذ و مشفق
مضطرب ہو کے اسے میں نے لکھا کیا کیا کچھ
پر کہوں کیا رقم شوق کی اپنے تاثیر
ہر سر حرف پہ وہ کہنے لگا کیا کیا کچھ
ایک محروم چلے میر ہمیں عالم سے
ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ
میر تقی میر

اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو

دیوان اول غزل 403
حال دل میر کا اے اہل وفا مت پوچھو
اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا مت پوچھو
استخواں توڑے مرے اس کی گلی کے سگ نے
جس خرابی سے میں واں رات رہا مت پوچھو
ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب
اس کے ایک آنے میں کیا کیا نہ گیا مت پوچھو
اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھنکا
شہر دل کیا کہوں کس طور جلا مت پوچھو
وقت قتل آرزوے دل جو لگے پوچھنے لوگ
میں اشارت کی ادھر ان نے کہا مت پوچھو
خواہ مارا انھیں نے میر کو خواہ آپ موا
جانے دو یارو جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
میر تقی میر

رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں

دیوان اول غزل 299
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں
جس پہ کرتے ہو سدا جور و جفا میں ہی ہوں
پھر بھی جس کو ہے گماں تم سے وفا میں ہی ہوں
بد کہا میں نے رقیبوں کو تو تقصیر ہوئی
کیوں ہے بخشو بھی بھلا سب میں برا میں ہی ہوں
اپنے کوچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
وہ جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں
خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا
اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں
لطف آنے کا ہے کیا بس نہیں اب تاب جفا
اتنا عالم ہے بھرا جائو نہ کیا میں ہی ہوں
رک کے جی ایک جہاں دوسرے عالم کو گیا
تن تنہا نہ ترے غم میں ہوا میں ہی ہوں
اس ادا کو تو ٹک اک سیر کر انصاف کرو
وہ برا ہے گا بھلا دوستو یا میں ہی ہوں
میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ
یک بیک بول اٹھا اس طرف آ میں ہی ہوں
جب کہا میں نے کہ تو ہی ہے تو پھر کہنے لگا
کیا کرے گا تو مرا دیکھوں تو جا میں ہی ہوں
سنتے ہی ہنس کے ٹک اک سوچیو کیا تو ہی تھا
جن نے شب رو کے سب احوال کہا میں ہی ہوں
میر آوارئہ عالم جو سنا ہے تونے
خاک آلودہ وہ اے باد صبا میں ہی ہوں
کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے
میر وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں
میر تقی میر

ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں

دیوان اول غزل 293
مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنر عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں کڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشن دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچۂ افسردہ کہ مردود صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلۂ پا کا مرا اشک
از بس کہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
آیا کوئی بھی طرح مرے چین کی ہو گی
آزردہ ہوں جینے سے میں مرنے سے خفا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سر راہ کوئی دم میں ہوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شب ہجراں
میں سوختہ بھی منتظر روز جزا ہوں
گو طاقت و آرام و خورو خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں ہوں بہر چیز
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
بہتر ہے غرض خامشی ہی کہنے سے یاراں
مت پوچھو کچھ احوال کہ مر مر کے جیا ہوں
تب گرم سخن کہنے لگا ہوں میں کہ اک عمر
جوں شمع سر شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضل الٰہی سے سبھی چاک
ہے وقت دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں
میر تقی میر

جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں

دیوان اول غزل 292
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمع تصویر ہیں خاموش جلا کرتے ہیں
جائے ہی نہ مرض دل تو نہیں اس کا علاج
اپنے مقدور تلک ہم تو دوا کرتے ہیں
اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر
شیخ یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصت جنبش لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گذریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعوی مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
تجھ سے لگ جاکے یہ یوں جاتے رہیں مجھ سے حیف
دیدہ و دل نے نہ جانا کہ دغا کرتے ہیں
فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
مجلس حال میں موزوں حرکت شیخ کی دیکھ
حیز شرعی بھی دم رقص مزہ کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو برا اپنا بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں
تجھ بن اس جان مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کریں ہیں لوہو پیا کرتے ہیں
میر تقی میر

اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

دیوان اول غزل 144
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ باد صبح کہ آکر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما ومن کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
میر تقی میر

ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا

دیوان اول غزل 140
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا
جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
گل پھول کو ہے ان نے پردہ سا بنا رکھا
جوں برگ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو
گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا
کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو
دل جس کسو کا پایا چٹ ان نے اڑا رکھا
تھی مسلک الفت کی مشہور خطرناکی
میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا
خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی
رخساروں کو گو تونے برقع سے چھپا رکھا
چشمک ہی نہیں تازی شیوے یہ اسی کے ہیں
جھمکی سی دکھا دے کر عالم کو لگا رکھا
لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزہ رکھا
کشتے کو اس ابرو کے کیا میل ہو ہستی کی
میں طاق بلند اوپر جینے کو اٹھا رکھا
قطعی ہے دلیل اے میر اس تیغ کی بے آبی
رحم ان نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا
میر تقی میر

اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دیوان اول غزل 119
لخت جگر تو اپنے یک لخت روچکا تھا
اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا
دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا
ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا
اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت
ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا
مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں
کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا
اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت
میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا
بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا
پر تونے یوں نہ جانا اے بے وفا کہ کیا تھا
روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا
شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا
سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا
سو بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں
اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا
یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اس کا اس کے کوچے میں جابجا تھا
سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا
کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا
آنکھیں مری کھلیں جب جی میر کا گیا تب
دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا
میر تقی میر

گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا

دیوان اول غزل 117
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا
گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا
سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کاگل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا
دے بھی مئے دوآتشہ زورہی سرد ہے ہوا
وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض
ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا
فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا
جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم
جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا
بوے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم رات کسی کا دل جلا
میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر
آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میر کا
میر تقی میر

جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا

دیوان اول غزل 79
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا
یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت
زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا
تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا
میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی
آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے جا رہے گا
غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے
بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا
مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی
گو سر کو کھورہے گا پر اس کو پا رہے گا
عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گذری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر
بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا
کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قید حیات میں ہے تو میر آرہے گا
میر تقی میر

اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 62
خدائے برگ! مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا
اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
میں سنگِ شام سے سر پھوڑنے چلا ہوں ذرا
کنول سے خواب مجھے میری ابتدا کے دکھا
میں نیل نیل ترا حلفیہ بیاں تو پڑھوں
فگار پشت سے کُرتا ذرا اٹھا کے دکھا
تجھے میں ہدیۂِ تائید دوں مگر پہلے
مرے وجود سے حرفِ نفی مٹا کے دکھا
تو پربتوں کو زمیں پر پچھاڑ دے تو کیا
ہوس کو جسم کے گھمسان میں ہرا کے دکھا
اسی کے نام کی ہر سُو اذاں سنائی دے
نقیبِ شہر! ہمیں معجزے صدا کے دکھا
نظر فروز ہو جو کل کی سرخیوں کی طرح
وہ لفظ آج سرِ طاقِ لب جلا کے دکھا
آفتاب اقبال شمیم

دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 29
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہوکے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیض تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
فیض احمد فیض

میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 174
اور اَب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بےحرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انھی حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈھتا، رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے، یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا
مجید امجد

آج اُس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 169
وہ خدا ہے کہ صنم، ہاتھ لگاکر دیکھیں
آج اُس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گل بدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہ کا آئینہ دِکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دِکھائی دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت
اَب تکلف کی یہ دیوار گراکر دیکھیں
خیر، دلّی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اُس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤں کے سوا
اپنی دہلیز پہ اِک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اُس غزل آراء کو سناکر دیکھیں
عرفان صدیقی

کھول یہ بندِ وفا اور رہا کر اس کو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 112
ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو
کھول یہ بندِ وفا اور رہا کر اس کو
نظر آنے لگے اپنے ہی خط و خالِ زوال
اور دیکھا کرو آئینہ بنا کر اس کو
آخرِ شب ہوئی آغاز کہانی اپنی
ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو
دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے
ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو
تیرے ویرانے میں ہونا تھا اجالا نہ ہوا
کیا ملا اے دلِ سفّاک جلا کر اس کو
اور ہم ڈھونڈتے رہ جائیں گے خوشبو کا سراغ
ابھی لے جائے گی اِک موج اُڑا کر اس کو
عرفان صدیقی

کیسا نالہ وہ فقیر بے نوا کرتا تھا رات

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 84
بام و در پر ایک سنّاٹا عزا کرتا تھا رات
کیسا نالہ وہ فقیر بے نوا کرتا تھا رات
شہر ہوُ میں ایک ویرانی کا لشکر صف بہ صف
ہر طرف تاراج بازار و سرا کرتا تھا رات
اس خرابی کے مکاں میں ایک سایہ ایک نقش
ہم کلامی مجھ سے بے صوت و صدا کرتا تھا رات
اک غبارِ ساعتِ رفتہ کسی محراب سے
میرے چہرے میرے آگے رونما کرتا تھا رات
طاقِ تنہائی سے اٹھتا تھا چراغوں کا دھواں
اور مرے ہونے سے مجھ کو آشنا کرتا تھا رات
وہم دکھلاتا تھا مجھ کو روشنی کی تیرگی
وہم ہی میرے اندھیرے پر جلا کرتا تھا رات
روشنی کے ایک ربطِ رائیگاں کے باوجود
اک خلا آنکھوں سے منظر کو جدا کرتا تھا رات
تھا مرے باطن میں کوئی قصہ گو‘ وہ کون تھا
مجھ سے اک طرفہ حکایت ماجرا کرتا تھا رات
ہو گیا تھا تاجِ سر میرے لیے سودائے سر
سایۂ شب سر بسر کارِ ہما کرتا تھا رات
زہر شب میں کوئی دارو کارگر ہوتی نہ تھی
ہاں مگر اک زہر شب جو فائدہ کرتا تھا رات
جسم میں میرا لہو درویشِ گرداں کی طرح
لحظہ لحظہ پائے کوبی جا بجا کرتا تھا رات
زرد پتوں کے بکھرنے کی خبر دیتا ہوا
رقص میرے صحن میں پیکِ ہوا کرتا تھا رات
میں کوئی گوشہ گزیں‘ ترکِ وفا کا نوحہ گر
دیر تک تحریر تعویذ وفا کرتا تھا رات
کیا بشارت غرفۂ حیرت سے کرتی تھی نزول
کیا کرامت میرا حرفِ نارسا کرتا تھا رات
بند میرے کھولتا تھا کوئی آکر خواب میں
جاگتے میں پھر مجھے بے دست و پا کرتا تھا رات
رنگ روشن تھا سوادِ جاں میں اک تصویر کا
ایک چہرہ میری آنکھیں آئینہ کرتا تھا رات
مجھ کو اپنا ہی گماں ہوتا تھا ہر تمثال پر
کوئی مجھ سے کاروبارِ سیمیا کرتا تھا رات
صبح سورج نے اسی حجرے میں پھر پایا مجھے
میں کہاں تھا کیا خبر عرفانؔ کیا کرتا تھا رات
عرفان صدیقی

تب ہم نہ رہے وفا کے قابل

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 17
جب یار ہوا جفا کے قابل
تب ہم نہ رہے وفا کے قابل
ہے خوف سے سارے تن میں رعشہ
اب ہاتھ کہاں دعا کے قابل
آئے مجھے دیکھنے اطبّا
جب میں نہ رہا دوا کے قابل
بولے مرے دل پہ پیس کر دانت
یہ دانہ ہے آسیا کے قابل
کلفت سے امیر صاف کر دل
یہ آئینہ ہے جلا کے قابل
امیر مینائی

شعلہ صرصر ہے کہ صبا معلوم نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 140
گل کے پردے میں ہے کیا معلوم نہیں
شعلہ صرصر ہے کہ صبا معلوم نہیں
کس کا ہاتھ ہے کس مہرے پہ کیا جانیں
کون اور کیسی چال چلا معلوم نہیں
ہم نے خون میں لت پت گلشن دیکھا ہے
کس جانب سے شور اٹھا معلوم نہیں
ہم ہیں اور اندھیری رات کا ہنگامہ
کس کا کس پر وار پڑا معلوم نہیں
جانے کیا مستی میں اس نے بات کہی
نشے میں کیا ہم نے سنا معلوم نہیں
لحظہ لحظہ دوری بڑھتی جاتی ہے
کل کا انساں کیا ہو گا معلوم نہیں
ہر چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں
کون ہمیں کس وقت ملا معلوم نہیں
قدموں کی آہٹ پر کان رہے اپنے
کون آیا اور کون گیا معلوم نہیں
ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقیؔ
کتنی دیر چراغ جلا معلوم نہیں
باقی صدیقی

تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 72
اک آئینہ نظر میں سما کر چلا گیا
تصویر میری مجھ کو دکھا کر چلا گیا
ہم دیکھ کر جہاں کو ہراساں ہیں اس طرح
یک لخت جیسے کوئی جگا کر چلا گیا
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
دل پر کھلا نہ تھا کبھی یہ تشنگی کا روپ
وہ میرا زہر مجھ کو پلا کر چلا گیا
رات اپنے سائے سائے میں چھپتا رہا ہوں میں
اتنے چراغ کوئی جلا کر چلا گیا
اس طرح چونک چونک اٹھا ہوں خیال میں
جیسے ابھی ابھی کوئی آ کر چلا گیا
اک پھول اتنے رنگ نہ لایا تھا اپنے ساتھ
راہوں میں جتنے خار بچھا کر چلا گیا
باقیؔ ابھی یہ کون تھا موج صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا
باقی صدیقی