دل کے پردے پہ چہرے ابھرتے رہے، مسکراتے رہے، اور ہم سو گئے
تیری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے، تھپتھپاتے رہے، اور ہم سو گئے
یاد آتا رہا کوچۂ رفتگاں، سر پہ سایہ فگن ہجر کا آسماں
نا رسائی کے صدمے اترتے رہے، دل جلاتے رہے، اور ہم سو گئے
ہجر کے رت جگوں کا اثر یوں ہوا، وصلِ جاناں کا لمحہ بسر یوں ہوا
دوش پر اُس کے گیسو بکھرتے رہے، گدگداتے رہے، اور ہم سو گئے
کیسے تجدیدِ عہدِ وفا کیجئے، غم مزا دے رہے ہیں سو کیا کیجئے
در پہ آ کے وہ اکثر ٹھہرتے رہے، کھٹکھٹاتے رہے، اور ہم سو گئے
اوّل اوّل تو ہر شب قیامت ہوئی، رفتہ رفتہ ہمیں ایسی عادت ہوئی
گھر کے آنگن میں غم رقص کرتے رہے، غل مچاتے رہے، اور ہم سو گئے
عرفان ستار