ٹیگ کے محفوظات: جفاؤں

آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا

ہم نواؤں نے مل کے لوٹ لیا
آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا
ہم اصولاً تو بچ ہی نکلے تھے
التجاؤں نے مل کے لوٹ لیا
رہزنوں کا نصیب کیا کہیے
رہ نماؤں نے مل کے لوٹ لیا
اک بہانہ تھی شورشِ طوفاں
ناخداؤں نے مل کے لوٹ لیا
کج کُلاہوں سے ہوشیار تھے ہم
خوش اداؤں نے مل کے لوٹ لیا
ہم زَباں دیکھتے رہے چپ چاپ
بے نواؤں نے مل کے لوٹ لیا
راہ زنِ ہوش کچھ تو غم زدہ تھے
کچھ جفاؤں نے مل کے لوٹ لیا
جو امینِ جمالِ یزداں ہیں
ان خداؤں نے مل کے لوٹ لیا
جو کبھی وجہِ عشرتِ دل تھیں
ان فضاؤں نے مل کے لوٹ لیا
شکیب جلالی

سپنے سکُھ کی چھاؤں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
نقش بنے صحراؤں کے
سپنے سکُھ کی چھاؤں کے
دیدۂ تر کو مات کریں
دشت میں چھالے پاؤں کے
دیکھیں کیا دکھلاتے ہیں
پتّے آخری داؤں کے
پیڑ اکھڑتے دیکھے ہیں
کِن کِن شوخ اناؤں کے
ابریشم سے جسموں پر
برسیں سنگ جفاؤں کے
خرکاروں کے ہاتھ لگیں
لعل بلکتی ماؤں کے
ماجدؔ دیہہ میں شہری ہم
شہر میں باسی گاؤں کے
ماجد صدیقی