ٹیگ کے محفوظات: جزا

اپنی دنیا دیکھ ذرا

او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اُڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گئے صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل گونج اُٹھا
سورج سر پر آ پہنچا
گرمی ہے یا روزِ جزا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
ناصر کاظمی

اب تھوڑی سی پِلا کافی

دورِ جام رہا کافی
اب تھوڑی سی پِلا کافی
کچھ خاموشی ہے درکار
دن بھر شور رہا کافی
دل کے دکھ کا مداوا مے
دردِ سر کی دوا کافی
میرا بائی کا بھجن سنا
بلہے شاہ کی گا کافی
مِل گئی دنیا ہی میں ہمیں
باصِر سزا جزا کافی
باصر کاظمی

بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی

عجب صورت بنی میری صدا کی
بکھر کر رہ گئیں لہریں ہوا کی
ہمارے جرم آپ اپنی سزا ہیں
اضافی ہے سزا روزِ جزا کی
کوئی پیماں نہیں باندھا تھا لیکن
تِری باتوں میں خوشبو تھی وفا کی
عجب سی اک تڑپ تھی میرے دل میں
تری آنکھوں میں شوخی تھی حیا کی
شناساؤں سے جی گھبرا گیا ہے
ضرورت ہے کسی نا آشنا کی
نہیں ملتے اگر وہ تم سے باصرِؔ
کچھ اُن کی اور کچھ مرضی خدا کی
باصر کاظمی

کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 80
ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں
آ کہ اب تسلیم کر لیں تو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
قافلے گزرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں
خود کو یوں‌ محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں
کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فراز
یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ ۔ یا کوئی نہیں
احمد فراز

انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 21
کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا
اس قوم کی سرشت میں ہے کم محبتی
شکوہ جو اس سے تھا مجھے ہرگز بجا نہ تھا
تاثیرِ نالہ نکتۂ بعد الوقوع ہے
یاں غیرِ رسم اور کوئی مدعا نہ تھا
وحشت تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ تپش نہ تھی
شورش تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ مزا نہ تھا
ان کی نگاہِ ناز عجب تازیانہ تھی
مقدور پھر اُدھر نظرِ شوق کا نہ تھا
افسوس وہ مظاہرِ کونی میں پھنس گیا
جو عالمِ عقول سے نا آشنا نہ تھا
شرماتے اس قدر رہے کیوں آپ رات کو
مدت سے گو ملے تھے مگر میں نیا نہ تھا
بے پردہ ان کے آنے سے حیرت ہوئی مجھے
وصلِ عدو کی رات تھی روزِ جزا نہ تھا
نان و نمک کی تھی ہمیں توفیق شیفتہ
ساز و نوا کے واسطے برگ و نوا نہ تھا
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 201
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی
دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنّائے دوا ہے تو سہی
غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالب
شہرۂ تیزئِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے

دیوان چہارم غزل 1499
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے
لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
پانی کی سی بوندیں تھیں سب اشک نہ میں جانا
کپڑوں پہ گریں گے تو وے آگ جلا دیں گے
سرگشتہ سا پھرتا ہے کہتے ہیں بیاباں میں
گر خضر ملے گا تو ہم راہ بتا دیں گے
اے کاش قیامت میں دیویں اسے عاشق کو
گر حسن عمل کی واں لوگوں کو جزا دیں گے
حاصل کڑی ہونے کا ابرو کی کمان اس کی
دیکھیں گے چڑھی جس دم ہم سر کو نوا دیں گے
ایدھر نہیں آتا وہ آوے تو تصدق کر
جی جامہ اٹھا دیں گے گھر بار لٹا دیں گے
معشوقوں کی گرمی بھی اے میر قیامت ہے
چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگا دیں گے
میر تقی میر

مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے

دیوان دوم غزل 1000
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے دور جاناں سے
کوئی کاش اس گلی میں ہم کو اک تکیہ بنا دیوے
ہوئے برسوں کہ وہ ظالم رہے ہے مجھ پہ کچھ ٹیڑھا
کوئی اس تیغ برکف کو گلے میرے ملا دیوے
وفا کی مزد میں ہم پر جفا و جور کیا کہیے
کسو سے دل لگے اس کا تو وہ اس کی جزا دیوے
کہیں کچھ تو برا مانو بھلا انصاف تو کریے
بدی کو بھی نہایت ہے تمھیں نیکی خدا دیوے
صنوبر آدمی ہو تو سراپا بار دل لاوے
کہاں سے کوئی تازہ دل اسے ہر روز لا دیوے
بہت گمراہ ہے وہ شوخ لگتا ہے کہے کس کے
کوئی کیا راہ کی بات اس جفاجو کو بتا دیوے
جگر سب جل گیا لیکن زباں ہلتی نہیں اپنی
مباد اس آتشیں خو کو مخالف کچھ لگا دیوے
کوئی بھی میر سے دل ریش سے یوں دور پھرتا ہے
ٹک اس درویش سے مل چل کہ تجھ کو کچھ دعا دیوے
میر تقی میر

اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی

دیوان اول غزل 462
ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی
اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی
طبیبوں نے تجویز کی مرگ عاشق
مناسب مرض کے دوا کیا نکالی
نہیں اس گذرگہ سے آتی ادھر اب
نئی راہ کوئی صبا کیا نکالی
دلا اس کے گیسو سے کیوں لگ چلا تو
یہ اک اپنے جی کی بلا کیا نکالی
رجھا ہی دیا واہ رے قدردانی
وفا کی ہماری جزا کیا نکالی
دم صبح جوں آفتاب آج ظالم
نکلتے ہی تیغ جفا کیا نکالی
لگے در بدر میر چلاتے پھرنے
گدا تو ہوئے پر صدا کیا نکالی
میر تقی میر

ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں

دیوان اول غزل 293
مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنر عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں کڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشن دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچۂ افسردہ کہ مردود صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلۂ پا کا مرا اشک
از بس کہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
آیا کوئی بھی طرح مرے چین کی ہو گی
آزردہ ہوں جینے سے میں مرنے سے خفا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سر راہ کوئی دم میں ہوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شب ہجراں
میں سوختہ بھی منتظر روز جزا ہوں
گو طاقت و آرام و خورو خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں ہوں بہر چیز
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
بہتر ہے غرض خامشی ہی کہنے سے یاراں
مت پوچھو کچھ احوال کہ مر مر کے جیا ہوں
تب گرم سخن کہنے لگا ہوں میں کہ اک عمر
جوں شمع سر شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضل الٰہی سے سبھی چاک
ہے وقت دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں
میر تقی میر

صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 24
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب، ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں، گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا
فیض احمد فیض

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 23
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و وفا گیا
فیض احمد فیض

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 26
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و وفا گیا
فیض احمد فیض

اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 95
اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا
اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا
وقت کی قربان گاہ تھی دور تک
اور ازل بستہ قضا کا درد تھا
بات مجبوراً روابط کی تھی اور
مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا
ہجر کے کالک بھرے ماحول سے
مجھ کو صحبت کی سزا کا درد تھا
اک طرف شہد و شراب و لمس تھے
اک طرف روزِ جزا کا درد تھا
منصور آفاق

تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 21
کہیں خوف اور کہیں غالب ہے رجا اے زاہد
تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد
ہم دکھا دیں گے کہ زاہد اور ہے نیکی کچھ اور
کچھ بہت دور نہیں روز جزا اے زاہد
جال جب تک ہے یہ پھیلا ہوا دینداری کا
فکر دنیا کا کرے تیری بلا اے زاہد
الطاف حسین حالی