ٹیگ کے محفوظات: جدل

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقہِ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے
یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقہِ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکہِ جنگ و جدل میں آئے
زِندگی جن کے تصوّر سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
ناصر کاظمی

اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 625
دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے
اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے
فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے
زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے
یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں
یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے
قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف
یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے
جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی
وہ مادھو لال آگ گنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے
کہے، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں ؟
وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے
کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں
وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے
جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں
یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے
ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے
منصور آفاق