ٹیگ کے محفوظات: جاودانی

رائیگانی! رائیگانی اور ہے

زندگانی! زندگانی اور ہے
رائیگانی! رائیگانی اور ہے
خوش گماں! اے خوش گماں! اے خوش گماں!
بول!! کتنی خوش گمانی اور ہے؟
ایک ہی پل اور تیرا ساتھ ہے
ایک ہی پل جاودانی اور ہے
ناگہاں یہ زندگی ہی کم تھی کیا؟
مرگ بھی کیا ناگہانی اور ہے؟
جس کو اپنی منزلوں کی ہو خبر
ایسے دریا کی روانی اور ہے
شاعری میری فقط ہذیاں سہی
کب کہا میں نے کہ معنی اور ہے؟
ہیں سخن ور اور بھی یاؔور مگر
تیری یہ شعلہ بیانی اور ہے
یاور ماجد

کمیـنِ درد میں پوشـیدہ رازِ شـادمـانی ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 249
سکوت و خامشی اظہارِ حـالِ بے زبـانی ہے
کمیـنِ درد میں پوشـیدہ رازِ شـادمـانی ہے
عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی
مگر رنـدِ قَـدَح کش کا ابھـی دورِ جوانـی ہے
ثباتِ چند روزہ کارفرماۓ غم و حسـرت
اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے
گدازِ داغِ دلِ شمعِ بساطِ خانہ ویرانی
تپش گاہِ محبت میں فروغ جاودانی ہے
وفـورِ خود نمائ رہـنِ ذوقِ جـلوہ آرائ
بہ وہم کامرانی جذبِ دل کی شادمانی ہے
دلِ حرماں لقب کی داد دے اے چرخِ بے پروا
بہ غارت دادۂ رخت و متاعِ کامرانی ہے
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

فلم جاری ہے کہانی ختم شد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 156
زندگی! اب زندگانی ختم شد
فلم جاری ہے کہانی ختم شد
رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں
آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد
کر رہا ہوں شام سے فکرِ سخن
یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد
میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر
لامکاں کی لامکانی ختم شد
رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر
پانیوں کی بھی روانی ختم شد
چھوڑ آیا ہوں میں شورِ ناتمام
گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد
اور باقی ہیں مگر امید کی
اک بلائے ناگہانی ختم شد
آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے
بارشوں کی بے زبانی ختم شد
دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے
اب گلی کی پاسبانی ختم شد
آ گئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا
جو تھا سوچا ، جو تھی ٹھانی ختم شد
بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے
سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد
اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں
یار کی بھی مہربانی ختم شد
اب مرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس
ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد
وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا
وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد
اک تکلم اک تبسم کے طفیل
میرا شوقِ جاودانی ختم شد
آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات
میرے دل کی بے کرانی ختم شد
اک مجسم آئینے کے سامنے
آرزو کی خوش بیانی ختم شد
لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے
چیختے روتے معانی ختم شد
کچھ ہوا ایسا ہوا کے ساتھ بھی
جس طرح میری جوانی ختم شد
اہم اتنا تھا کوئی میرے لیے
اعتمادِ غیر فانی ختم شد
دشت کی وسعت جنوں کو چاہیے
اس چمن کی باغبانی ختم شد
اپنے بارے میں کروں گا گفتگو
یار کی اب ترجمانی ختم شد
ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ
سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد
منصور آفاق

سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 21
خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ
سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ
شمع کے مانند کیا آتش زبانی پر گھمنڈ
صورتِ پروانہ کر سوز نہانی پر گھمنڈ
ہے اگر شمشیر قاتل کو روانی پر گھمنڈ
بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ
ناز اُٹھانے کا ہے اس کے حوصلہ اے جانِ زار
اب تلک تجھ کو ہے زور ناتوانی پر گھمنڈ
نوبت شاہی سے آتی ہے صدا شام و سحر
اور کر لے چار دن اس دار فانی پر گھمنڈ
دیکھ او نادان کہ پیری کا زمانہ ہے قریب
کیا لڑکپن ہے کہ کرتا ہے جوانی پر گھمنڈ
چار ہی نالے ہمارے سن کے چپکی لگ گئی
تھا بہت بلبل کو اپنی خوش بیانی پر گھمنڈ
عفو کے قابل مرے اعمال کب ہیں اے کریم
تیری رحمت پر ہے تیری مہربانی پر گھمنڈ
شمع محفل شامت آئی ہے تری خاموش ہو
دل جلوں کے سامنے آتش زبانی پر گھمنڈ
طبع شاعر آ کے زوروں پر کرے کیوں کر نہ ناز
سب کو ہوتا ہے جوانی میں جوانی پر گھمنڈ
چار موجوں میں ہماری چشم تر کے رہ گیا
ابر نیساں کو یہی تھا ڈر فشانی پر گھمنڈ
دیکھنے والوں کی آنکھیں آپ نے دیکھی نہیں
حق بجانب ہے اگر ہے لن ترانی پر گھمنڈ
عاشق و معشوق اپنے اپنے عالم میں ہیں مست
واں نزاکت پر تو یاں ہے ناتوانی پر گھمنڈ
تو سہی کلمہ ترا پڑھوا کے چھوڑوں اے صنم
زاہدوں کو ہے بہت تسبیح خوانی پر گھمنڈ
سبزہ خط جلد یارب رخ پر اُس کے ہو نمود
خضر کو ہے اپنی عمر جاودانی پر گھمنڈ
گور میں کہتی ہے عبرت قیصر و فغفور سے
کیوں نہیں کرتے ہو اب صاحب قرانی پر گھمنڈ
ہے یہی تاثیر آبِ خنجر جلّاد میں
چشمۂ حیواں نہ کر تو اپنے پانی پر گھمنڈ
حال پر اجداد و آبا کے تفاخر کیا امیر
ہیں وہ ناداں جن کو ہے قصے کہانی پر گھمنڈ
امیر مینائی