ٹیگ کے محفوظات: جانے

ایک خواہش، ہزار تہ خانے

کوئی اِس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش، ہزار تہ خانے
آپ سمجھے نہ ہم ہی پہچانے
کتنے مبہم تھے دل کے افسانے
زِیست کے شور و شر میں ڈوب گئے
وقت کو ناپنے کے پیمانے
پھر ہُوا کوئی بدگماں ہم سے
پھر جنم لے رہے ہیں افسانے
شوخیِ برق ہے نہ رقصِ نسیم
سوگئے ہیں بہار کے شانے
کتنا مشکل ہے منزلوں کا حُصول
کتنے آساں ہیں جال پھیلانے
دُور سے ایک چیخ اُبھری تھی
بن گئے بے شُمار افسَانے
موت نے آج خود کُشی کرلی
زیست پر کیا بنی خُدا جانے
راز یہ ہے کہ کوئی راز نہیں
لوگ پھر بھی مجھے نہ پہچانے
وقت نے یہ کہا ہے رُک رُک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے
شکیب جلالی

تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے

غمِ دل سنانے کو جی چاہتا ہے
تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے
یہ میں کس کا نقشِ قدم دیکھتا ہوں
یہ کیوں سر جُھکانے کو جی چاہتا ہے
سُلوکِ زمانہ سے تنگ آگیا ہوں
بیاباں بسانے کو جی چاہتا ہے
غمِ زندگانی سے اُکتا گیا ہوں
مگر غم اٹھانے کو جی چاہتا ہے
کسی فتنہ خُو کی تمنّا تو دیکھو
مجھے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جبیں ہی رہے یا ترا سنگِ در ہی
جنوں آزمانے کو جی چاہتا ہے
شکیبؔ، اس طرح کچھ قفس راس آیا
کہ گلشن جلانے کو جی چاہتا ہے
شکیب جلالی

ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے

ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے
ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟
یادیں خواب دکھانے والی، خواب سہانے والے
کہاں گئیں رنگین پتنگیں، لٹو، کانچ کے بنٹے؟
اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے
وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر
وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھلانے والے
بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں
ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے
جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا
تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے
تم تک شاید دیر سے پہنچےمرا مہذب لہجہ
پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے
ہم جو کہیں سو کہنے دنیا، سنجیدہ مت ہونا
ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے
اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟
میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟
مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
سفاکی میں ایک سے ہیں سب، جن کے ساتھ بھی جاؤ
کعبے والے اِس جانب ہیں، وہ بت خانے والے
میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے
کفن بنانے والے یا مردے نہلانے والے
گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم
اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رلانے والے
عرفان ستار

پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ

لیجیے! آگئے! سَتانے لوگ
پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ
کوئی کچھ تَو کہے! میں ٹھیک تَو ہُوں ؟
کیوں کھڑے ہیں مِرے سرہانے لوگ؟
وقت خُود اُن میں زندہ رہتا ہے
خُود میں ہوتے ہیں جو زمانے لوگ
ہو گیا کیا میں اِتنا غیر اَہَم؟
کیوں نہیں آئے دل دُکھانے لوگ؟
میں اصولوں کی جنگ لڑتا رہا
داد دیتے رہے، سیانے لوگ
کاش تم ہوتے گذرے وقتوں میں
تم نے دیکھے نہیں پُرانے لوگ
زخمِ دل بھر رہی ہے تنہائی
پھر نہ لگ جائیں آنے جانے لوگ
ایک سچ بات مُنہ سے نکلی تھی
لگے محفل سے اُٹھ کے جانے لوگ
بات سچ ہے تَو میں کہوں گا ضرور
لَوٹ آؤں گا گر نہ مانے لوگ
مشعلِ جاں سے روشنی کی ہے
جب بھی آئے دِیے بجھانے لوگ
وقت ضائع نہ کیجئے ضامنؔ
جب بنانے لگیں بہانے لوگ
ضامن جعفری

ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا

غمِ ہستی کے افسانوں کو دوہرانے سے کیا ہو گا
ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا
جنونِ عشق میرا حشر میں سب کو بچا لایا
زمانہ یہ سمجھتا تھا کہ دیوانے سے کیا ہو گا
رہَے کچھ فاصلہ تَو حُسنِ منظر لطف دیتا ہے
تمہیں معلوم ہے؟ نزدیک آجانے سے کیا ہو گا؟
ضرورت جس کی دَوارنِ سَفَر ہو گی نہ منزل پر
وہ سامانِ سَفَر سب ساتھ لے جانے سے کیا ہو گا
جنوں والوں میں ضامنؔ کچھ نتیجہ عین ممکن ہے
جنہیں زعمِ خِرَد ہے اُن کو سمجھانے سے کیا ہو گا
ضامن جعفری

ہم سے جنوں کی بات کرو تم ہوش و خِرَد کو جانے دو

دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو
ہم سے جنوں کی بات کرو تم ہوش و خِرَد کو جانے دو
بات نہ کرنا چُپ رہنا نظریں نہ ملاؤ دیکھ توَ لو
اِس پر بھی گر چہرے کا رنگ اُڑتا ہے اُڑ جانے دو
مَن کی بات چھُپانا مشکل آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں
ایسے بھی کیا دل پر پَہرے کچھ تو زباں تک آنے دو
سحرِ محبت ہے یہ سب، مجبوری بھی جھنجھلاہٹ بھی
اُن کے مُنہ میں جو آئے چپ چاپ سنو کہہ جانے دو
دونوں کو احساسِ محبت، دونوں کو انکار بھی ہے
لو! میدانِ عشق میں ضامنؔ کود پڑے دیوانے دو
ضامن جعفری

یاد آئے پھر کتنے زمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں

رات ملے کچھ یار پرانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
یاد آئے پھر کتنے زمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
کتنے رنگا رنگ مسافر شانہ بہ شانہ رقص کناں
چھوڑ گئے کتنے افسانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
اِن ہنستے ہونٹوں کے پیچھے کتنے دُکھ ہیں ہم سے پوچھ
ہم نے دیکھے ہیں ویرانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
میخواروں کی صف سے پرے کچھ ایسے عالی ظرف بھی تھے
بھر نہ سکے جن کے پیمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
میں کس کارن پچھلے پہر تک تنہا بیٹھا رہتا ہوں
کون میرے اِس دَرد کو جانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
یہ کیا حال بنا لائے یہ کیسا روگ لگا لائے
تم تو گئے تھے جی بہلانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
ناصر تم لوگوں سے چھپ کر چپکے چپکے رات گئے
کیوں جاتے ہو جی کو جلانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
ناصر کاظمی

خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرشسِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مایوس رہگزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
اُمیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
ناصر کاظمی

دل بالک، من جائے گا بہلانے سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہونا کیا ہے اِس کے شور مچانے سے
دل بالک، من جائے گا بہلانے سے
ٹھہرا ہے بہتان کہاں نام اچّھوں کے
اُجڑا ہے کب چاند بھلا گہنانے سے
راس جسے دارو نہ کوئی آیا اُس کے
روگ مٹیں گے، اب تعویذ پلانے سے
چیخ میں کیا کیا درد پروئے چُوزے نے
بھوکی چیل کے پنجوں میں آ جانے سے
اب تو خدشہ یہ ہے ہونٹ نہ جل جائیں
ماجدؔ دل کی بات زباں پر لانے سے
ماجد صدیقی

عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
سر پہ کیا کیا بوجھ روز افزوں نظر آنے لگے
عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے
بحر میں حالات کے، بے رحم موجیں دیکھ کر
اژدہے کچھ اور ہی آنکھوں میں لہرانے لگے
مِہر کے ڈھلنے، نکلنے پر کڑکتی دھوپ سے
گرد کے جھونکے ہمیں کیا کیا نہ سہلانے لگے
تُند خوئی پر ہواؤں کی، بقا کی بھیک کو
برگ ہیں پیڑوں کے کیا کیا، ہاتھ پھیلانے لگے
وحشتِ انساں کبھی خبروں میں یوں غالب نہ تھی
لفظ جو بھی کان تک پہنچے وہ دہلانے لگے
چھُو کے وسطِ عمر کو ہم بھی شروع عمر کے
ابّ و جدّ جیسے عجب قصّے ہیں دہرانے لگے
اینٹ سے ماجدؔ نیا ایکا دکھا کر اینٹ کا
جتنے بَونے تھے ہمیں نیچا وہ دکھلانے لگے
ماجد صدیقی

پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
باغ پر وقت کیسا یہ آنے لگا سوچنا چاہیے
پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو جھانکتا تھا بہاروں سے بھی چاند تاروں سے بھی
جذبۂ دل وہ کیسے ٹھکانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو بندشوں سے بھی دبتا نہ تھا جو سنبھلتا نہ تھا
پھر وہی کیوں نظر میں سمانے لگا سوچنا چاہیے
ماجد صدیقی

پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
اے صنم اب اور کس رُت میں ہے تُو آنے لگا
پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا
تُوبھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
تُوبھی ایسے میں مرے آئینۂ دل میں اتر
چند رماں بھی دیکھ پھر جھیلوں میں لہرانے لگا
میں بھلاکب اہل، تجھ سے یہ شرف پانے کا ہوں
تُو بھلا کیوں حسن کاہُن ،مجھ پہ برسانے لگا
عندلیبوں کو گلاب اور تُومجھے مل جائے گا
موسم گل، دیکھ! کیا افواہ پھیلانے لگا
ماجد صدیقی

ترّستی تھیں نگاہیں منظروں میں ڈوب جانے کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
وُہ دن بھی تھے لپکنے اور لطفِ خاص پانے کو
ترّستی تھیں نگاہیں منظروں میں ڈوب جانے کو
ہمارے حق میں جو بھی تھی مسافت پینگ جیسی تھی
بہم تھیں فرصتیں ساری ہمیں، جس کے جھُلانے کو
نجانے پٹّیاں آنکھوں پہ لا کر باندھ دیں کیا کیا
اُسی نے جس سے چاہا، راہ کے روڑے ہٹانے کو
ہوئے تھے حرص سے پاگل سبھی، کیا دوڑتا کوئی
لگی تھی شہر بھر میں آگ جو، اُس کے بجھانے کو
نوالے کیا، نہیں خالص یہاں حرفِ تسلی تک
سبھی میں ایک سی افیون ملتی ہے سُلانے کو
چمک جن بھی صداؤں میں ذرا بیداریوں کی تھی
جتن کیا کیا نہ شاہوں نے کئے اُن کے دبانے کو
ہمارے نام ہی بندش جہاں بھی کچھ ملی، لکھ دی
ہمیں سے بَیر تھا ماجدؔ نجانے کیا زمانے کو
ماجد صدیقی

انت نجانے کیا ٹھہرے اِس ناٹک، اِس افسانے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کیا کیا کچھ زوروں پہ نہیں ہے، کام ہمیں بہلانے کا
انت نجانے کیا ٹھہرے اِس ناٹک، اِس افسانے کا
کب سے پھُونکیں مار رہا ہے، لا کے گرفت میں جگنو کو
بندر نے فن سیکھ لیاہے اپنا گھر گرمانے کا
اِک جیسے انداز ہیں جس کے، سب تیور اِک جیسے ہیں
جانے کب اعلان کرے، وُہ موسم باغ سے جانے کا
اِک جانب پُچکار لبوں پر، ہاتھ میں دُرّہ اُس جانب
تانگے والا جان چکا، گُر گُھوڑا تیز چلانے کا
چھوڑ نہیں دیتے کیوں ماجدؔ یہ بیگار کی مزدوری
کس نے تمہیں آزار دیا یہ لکھنے اور لکھانے کا
ماجد صدیقی

آنچ کِن کِن منظروں کی آنکھ تک آنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
وحشتِ انسان کیا کیا رنگ دکھلانے لگی
آنچ کِن کِن منظروں کی آنکھ تک آنے لگی
دیکھئے اگلی رُتوں میں سرخروئی کو ہوا
کس طرح بے پیرہن شاخوں کو سہلانے لگی
کتنی چیزوں سے ہٹا کر، جانے ماں کی مامتا
دھیان بچّے کا، اُسے باتوں سے بہلانے لگی
لو بحقِ امن اپنی نغمگی کے زعم میں
فاختہ بھی دشتِ وحشت میں ہے اِترانے لگی
ظلمتِ شب کچھ بتا اُٹھی ہے کیسی چیخ سی
جبر کی ڈائن کِسے کّچا چبا جانے لگی
جھینپنا کیا، سچ اگر نکلی ہے، پّلے باندھ کر
وقت کی مریم، بھلا کاہے کو شرمانے لگی
دم بخود اتنا بھی ہو ماجدؔ نہ جلتی دُھوپ سے
آسماں پر دیکھ وُہ بدلی سی اک چھانے لگی
ماجد صدیقی

مسند سے وُہ شخص نہیں ہے جانے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
ڈھنگ جِسے آئے سب کو بہلانے کا
مسند سے وُہ شخص نہیں ہے جانے کا
ویسا ہی، کنکر ہو جیسے کھانے میں
بزم میں تھا احساس کسی بیگانے کا
کام نہ کیونکر ہم بھی یہی اَب اپنا لیں
ساری اچّھی قدریں بیچ کے کھانے کا
وُہ چنچل جب بات کرے تو، گُر سیکھے
بادِصبا بھی اُس سے پھُول کھِلانے کا
پُوچھتے کیا ہو پیڑ تلک جب ٹُوٹ گرے
حال کہیں کیا ہم اپنے کاشانے کا
آیا ہے وُہ دَور کہ باغ میں پھُولوں کو
گرد بھی کرتب دِکھلائے سہلانے کا
جوڑتے ہو کیوں سُوکھے پتّے شاخوں سے
حاصل کیا؟ پچھلی باتیں دہرانے کا
ماجدؔ ہر کردار ہی جس کا شاطر ہے
جانے کیا عنوان ہو اُس افسانے کا
ماجد صدیقی

پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کم نہ تھا وہ بھی جو ارضِ جاں کے ہتھیانے میں تھا
پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا
سر نہ خم کر کے سرِ دربار ہم پر یہ کُھلا
لطف بعد انکار کے کیا، گال سہلانے میں تھا
حق طلب ہونا بھی جرم ایسا تھا کچھ اپنے لیے
جاں کا اندیشہ زباں پر حرف تک لانے میں تھا
سر بہ سجدہ پیڑ تھے طوفانِ ابروباد میں
اور دریا محو اپنا زور دکھلانے میں تھا
سانحے کی تازگی جاں پر گزر جانے لگی
کرب کچھ ایسا ستم کی بات دہرانے میں تھا
جاں نہ تھی صیّاد کو مطلوب اتنی جس قدر
اشتیاق اُس کا ہمارے پَر کتروانے میں تھا
پھر تو ماجد کھو گئے ہم بھی فنا کے رقص میں
خوف سب گرداب کے ہم تک چلے آنے میں تھا
ماجد صدیقی

پیڑ کوئی لگا پھر ٹھکانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 130
پھر دکھائی ہے شوخی ہوا نے
پیڑ کوئی لگا پھر ٹھکانے
کس توقّع پہ نوکِ مژہ پر
آنکھ موتی لگی ہے سجانے
میری جنّت ہے سب سامنے کی
سینت رکھوں نہ میں پل پرانے
جی سنبھلتا ہو جس سے کسی کا
بات ایسی یہ خلقت نہ جانے
یُوں تو بچھڑا ہے کل ہی وہ لیکن
دل یہ کہتا ہے گزرے زمانے
دَین سمجھو اِنہیں بھی اُسی کی
غم بھی ماجدؔ دئیے ہیں خدا نے
ماجد صدیقی

پوچھنا حالِ سفر بھی ہوش میں آنے تو دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
دھوپ میں جھلسا ہوں مَیں کچھ دیر سستانے تو دو
پوچھنا حالِ سفر بھی ہوش میں آنے تو دو
دیکھنا اُبھروں گا پہلو میں یدِ بیضا لیے
ظلمتِ شب میں ذرا مجھ کو اُتر جانے تو دو
نطق ہونٹوں سے مرے پھوٹے گا بن کر چاندنی
میری آنکھوں سے یہ چُپ کا زہر بہہ جانے تو دو
جز ادائے سجدۂ بے چارگی کر لے گا کیا
موجۂ سیلاب کو دہلیز تک آنے تو دو
پھر مری صحنِ گلستاں میں بحالی دیکھنا
اِک ذرا یہ موسمِ بے نم گزر جانے تو دو
ٹھیک ہے ماجدؔ فسانے تھیں تمہاری چاہتیں
یہ فسانے پر ہمیں اِک بار دُہرانے تو دو
ماجد صدیقی

دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 133
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے، لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
دل کسی حال پہ مانے ہی نہیں جانِ فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
احمد فراز

تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 117
جُز تیرے کوئی بھی دِن رات نہ جانے میرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے
تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برقِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لو تھی کہ وہ توُ تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رُسوائی
لوگ مُجھ کو ہی سُناتے ہیں فسانے میرے
لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں‌ سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گریِ دِل یہ خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر
جِس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
کاش تو بھی میری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پُکارا ہے تُجھے دِل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آئے مسیحائی کو
لوگ آ تے ہیں بُہت دِل کو دُکھانے میرے
تو ہے کِس حال میں اے زود فراموش میرے
مُجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے
چارہ گر یوں تو بُہت ہیں‌مگر اے جانِ فراز
جُز ترے اور کوئی غم نہ جانے میرے
احمد فراز

وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 11
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
صبح دم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت
رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سرِ دار بھی لانے والا
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
احمد فراز

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ

احمد فراز ۔ غزل نمبر 2
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
احمد فراز

ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 69
ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے
ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟
یادیں خواب دکھانے والی، خواب سہانے والے
کہاں گئیں رنگین پتنگیں، لٹو، کانچ کے بنٹے؟
اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے
وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر
وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھلانے والے
بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں
ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے
جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا
تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے
تم تک شاید دیر سے پہنچےمرا مہذب لہجہ
پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے
ہم جو کہیں سو کہنے دنیا، سنجیدہ مت ہونا
ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے
اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟
میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟
مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
سفاکی میں ایک سے ہیں سب، جن کے ساتھ بھی جاؤ
کعبے والے اِس جانب ہیں، وہ بت خانے والے
میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے
کفن بنانے والے یا مردے نہلانے والے
گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم
اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رلانے والے
عرفان ستار

ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 130
عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے
ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے
چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے
کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے
میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر
مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے
مے خانے میں دنیا دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں
جام اسی کو ے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے
جام نہ دینے کی باتیں ہیں ورنہ مجھ کو ویسے تو
ساقی جانے میکش جانے مے خانہ بھر جانے ہے
کون قمر سے ہے بیگانہ اہل زمیں یا اہل فلک
ذرہ ذرہ اس سے واقف تارا تارا جانے ہے
قمر جلالوی

بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 118
باز آگیا شاید اب فلک ستانے سے
بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے
خاک لے گئی بجلی میرے آشیانے سے
صرف چار چھ تنکے وہ بھی کچھ پرانے سے
کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے
ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے
حالِ باغ اے گلچیں فائدہ چھپانے سے
ہم تو ہاتھ دھو بیٹھے اپنے آشیانے سے
باغ ہو کہ صحرا ہو جی کہیں نہیں لگتا
آپ سے ملے کیا ہم چھٹ گئے زمانے سے
صبح سے یہ وقت آیا وہ ہیں بزمِ دشمن ہے
مٹ گئیں ہیں کیا یا رب گردشیں زمانے سے
یہ سوال پھر کا ہے کب قیامت آئی گی
پہلے بچ تو لے دنیا آپ کے زمانے سے
ان کے حسن پر تہمت رکھ نہ اپنے مرنے کی
وہ تو موت آنے تھی اک نہ اک بہانے سے
آگ لگ کے تنکوں میں کیا بہار آئی ہے
پھول سے برستے ہیں میرے آشیانے سے
جو جفائیں پہلی تھیں وہ جفائیں اب بھی ہیں
انقلاب کیا یا رب اٹھ گئے زمانے سے
مبتلا ہوئے ایسے آسماں کی گردش میں
اے قمر نہ بیٹھے ہم آج تک ٹھکانے سے
قمر جلالوی

بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 112
سرخیاں کیا ڈھونڈ کر لاؤں فسانے کے لئے
بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے
موجیں ساحل سے ہٹاتیں ہیں حبابوں کا ہجوم
وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لئے
سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری
تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لئے
چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے
دشت کی بیٹھی بٹھائی خاک اڑانے کے لئے
ہنس کر کہتے ہو زمانہ بھر مجھی پہ جان دے
رہ گئے ہو کیا تمھیں سارے زمانے کے لئے
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤ کو کھل دو سورج چھپانے کے لئے
کائناتِ عشق اک دل کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ ہی آنے کے لئے ہے وہ ہی جانے کے لئے
اے زمانے بھر کو خوشیاں دینے والے یہ بتا
کیا قمر ہی رہ گیا ہے غم اٹھانے کے لئے
قمر جلالوی

جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 92
نہ جانے ساغر و مینا پہ پیمانے پہ کیا گزری
جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری
بڑی رنگینیاں تھیں اولِ شب ان کی محفل میں
بتاؤ بزم والو رات ڈھل جانے پہ کیا گزری
چھپائیں گے کہاں تک رازِ محفل شمع کے آنسو
کہے گی خاکِ پروانہ کہ پروانے پہ کیا گزری
مرا دل جانتا ہے دونوں منظر میں نے دیکھے ہیں
ترے آنے پہ کیا گزری ترے جانے پہ کیا گزری
بگولے مجھ سے کوسوں دور بھاگے دشتِ وحشت میں
بس اتنا میں نے پوچھا تھا کہ دیوانے پہ کیا گزری
گری فصلِ چمن پر برق دیوانے یہ کیا جانیں
مصیبت باغ پر گزری تھی ویرانے پہ کیا گزری
قمر جھیلے دِلِ صد چاک نے الفت میں دکھ کیا کیا
کوئی زلفوں سے اتنا پوچھ لے شانے پہ کیا گزری
قمر جلالوی

شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 59
ہم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دیکھیے محفلِ ساقی کا نتیجہ کیا ہوا
بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک
صبح ہوئی نہیں اے عشق یہ کیسی شب ہے
قیس و فرہاد کے دہرا لئے افسانے تک
پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی
یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک
میں نے ہر چند بلا ٹالنی چآ ہی لیکن
شیخ نے ساتھ نہ چھوڑا مرا میخانے تک
وہ بھی کیا دن تھے گھر سے کہیں جاتے ہی نہ تھے
اور گئے بھی تو فقط شام کو میخانے تک
میں وہاں کیسے حقیقت کو سلامت رکھوں
جس جگہ رد و بدل ہو گئے افسانے تک
باغباں فصلِ بہار آنے کا وعدہ تو قبول
اور اگر ہم نے رہے فصلِ بہار آنے تک
اور تو کیا کہیں اے شیخ تری ہمت پر
کوئی کافر ہی گیا ہو ترے میخانے تک
اے قمر شام کا وعدہ ہے وہ آتے ہوں گے
شام کہلاتی ہے تاروں کے نکل آنے تک
قمر جلالوی

ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 52
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم
ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم
لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم
جا رہے ہیں حضرتِ ناصح کو سمجھانے کو ہم
یاد رکھیں گے تمھاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
حسن مجبورِ ستم ہے عشق مجبورِ وفا
شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
الجھنیں طولِ شبِ فرقت کی آگے آ گئیں
جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم
راستے میں رات کو مڈ بھیڑ ساقی کچھ نا پوچھ
مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم
شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے
اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
سن کہ شکوہ حشر میں کہتے ہوئے شرماتے نہیں
تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم
اے قمر ڈر تو یہ اغیار دیکھیں گے انھیں
چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم
قمر جلالوی

شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 50
حسن سے رسوا نہ ہو گا اپنے دیوانے کا نام
شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام
ہو گئی توبہ کو اک مدت کسے اب یاد ہے
اصطلاحاً ہم نے کیا رکھا تھا پیمانے کا نام
میتِ پروانہ بے گور و کفن دیکھا کئے
اہلِ محفل نے لیا لیکن نہ دفنانے کا نام
یہ بھی ہے کوئی عیادت دو گھڑی بیٹھے نہ وہ
حال پوچھا چل دیے گھر کر گئے آنے کا نام
لاکھ دیوانے کھلائیں گل چمن کہہ دے گا کون
عارضی پھولوں سے بدلے گا نہ ویرانے کا نام
ان کو کوسے دے رہے، ہو خود، ہیں جو جینے سے تنگ
زندگی رکھا ہے جن لوگوں نے مر جانے کا نام
اِس ہوا میں قوتِ پرواز سے آگے نہ بڑھ
ہے قفس آزادیوں کی حد گزر جانے کا نام
قمر جلالوی

خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 25
حرم کی راہ کو نقصان بت خانے سے کیا ہو گا
خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہو گا
کسے سمجھا رہے ہیں آپ سمجھانے سے کیا ہو گا
بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہو گا
ارے کافر سمجھ لے انقلاب آنے سے کیا ہو گا
بنا کعبہ سے بت خانہ تو بت خانے سے کیا ہو گا
نمازی سوئے مسجد جا رہے ہیں شیخ ابھی تھم جا
نکلتے کوئی دیکھے گا جو مے خانے سے کیا ہو گا
خدا آباد رکھے میکدہ یہ تو سمجھ ساقی
ہزاروں بادہ کش ہیں ایک پیمانے سے کیا ہو گا
تم اپنی ٹھوکریں کا ہے کو روکو دل کو کیوں مارو
ہمیں جب مٹ گئے تو قبر مٹ جانے سے کیا ہو گا
قمر جلالوی

مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے

جون ایلیا ۔ قطعہ نمبر 30
اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر
مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
ہوش میری خوشی کا دشمن ہے
تو مجھے ہوش میں نہ آنے دے
قطعہ
جون ایلیا

جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 234
اک دل ہے جو جو ہر لمحہ جلانے کے لیے ہے
جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے
اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے
ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا
تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے
جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے
یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے
بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا
ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے
ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل
یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے
قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش
قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے
جون ایلیا

شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 123
ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں
شہر کوچوں میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اس کے وعدوں کو بھلانے کے لیے نکلے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت معصوم ہے
ہم تو اوروں کو منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں شورہے، وہ یوں کہ گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لیے نکلے ہیں
وہ جو تھے شہر تحیر ترے پر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لیے نکلے ہیں
راہگزر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں
سر شب اک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اٹھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے روداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں
جون ایلیا

کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 78
کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن
جب آتے بھی ہو تو فورًا ہی جانے لگتے ہو
یہ بات جون تمہاری مزاق ہے کہ نہیں
کہ جو پھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو
تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو
سرودِ آتشِ زرّینِ صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو
سنا ہے کا ہکشاہوں میں روزوشب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو
جون ایلیا

یاد بھی طور ہے بُھلانے کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 19
ہے عجب حال یہ زمانےکا
یاد بھی طور ہے بُھلانے کا
پسند آیا ہمیں بہت پیشہ
خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا
کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا
آسمانِ خموشئ جاوید
میں بھی اب لب نہیں ہلانے کا
جان! کیا اب ترا پیالہء ناف
نشہ مجھ کو نہیں پِلانے کا
شوق ہےِاس دل درندہ کو
آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا
اتنا نادم ہوا ہوں خود سے کہ میں
اب نہیں خود کو آزمانےکا
کیا کہوں جان کو بچانے میں
جون خطرہ ہے جان جانے کا
یہ جہاں جون! اک جہنم ہے
یاں خدا بھے نہیں ہے آنے کا
زندگی ایک فن ہے لمحوں کا
اپنے انداز سے گنوانے کا
جون ایلیا

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 193
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی
انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
لکد کوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
مرزا اسد اللہ خان غالب

اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے

دیوان پنجم غزل 1757
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے
اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے
دامن پر فانوس کے تھا کچھ یوں ہی نشاں خاکستر کا
شوق کی میں جو نہایت پوچھی جان جلے پروانے سے
ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے
ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے
پاس غیرت تم کو نہیں کچھ دریا پرسن غیر کو تم
گھر سے اٹھ کے چلے جاتے ہو نہانے کے بھی بہانے سے
تم نے کہا مر رہ بھی جاکر بندہ جاکر مر ہی رہا
کس دن میں نے عدول کیا ہے صاحب کے فرمانے سے
سوکھ کے ہوں لکڑی سے کیوں نہ زرد و زبوں ہم عاشق زار
کچھ نہیں رہتا انساں میں ہر لحظہ غم کے کھانے سے
جب دیکھو تب تربت عاشق جھکڑ سے ہے تزلزل میں
عشق ہے باد صرصر کو یاں ان کی خاک اڑانے سے
برسوں میں پہچان ہوئی تھی سو تم صورت بھول گئے
یہ بھی شرارت یاد رہے گی ہم کو نہ جانا جانے سے
سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل
دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے
میر کی تیری کیا سلجھے گی حرف و سخن میں گنجلک ہے
کوئی بھی عاقل الجھ پڑے ہے ناصح ایسے دوانے سے
میر تقی میر

بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے کچھ شیشے پر پیمانے پر

دیوان پنجم غزل 1622
ابر سیہ قبلے سے اٹھ کر آیا ہے میخانے پر
بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے کچھ شیشے پر پیمانے پر
رنگ ہوا سے ٹپکنے لگا ہے سبزے میں کوئی پھول کھلا
یعنی چشمک گل کرتا ہے فصل بہار کے آنے پر
شور جنوں ہے جوانوں کے سر میں پاؤں میں زنجیریں ہیں
سنگ زناں لڑ کے پھرتے ہیں ہر ہر سو دیوانے پر
بیتابانہ شمع پر آیا گرد پھرا پھر جل ہی گیا
اپنا جی بھی حد سے زیادہ رات جلا پروانے پر
قدرجان جو کچھ ہووے تو صرفہ بھی ہمؔ میر کریں
منھ موڑیں کیا آنے سے اس کے اپنی جان کے جانے پر
میر تقی میر

ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر

دیوان پنجم غزل 1612
ٹیڑھی نگاہیں کیا کرتے ہو دم بھر کے یاں آنے پر
ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر
زور ہوا ہے چل صوفی ٹک تو بھی رباط کہنہ سے
ابر قبلہ بڑھتا بڑھتا آیا ہے میخانے پر
گل کھائے بے تہ بلبل نے شور قیامت کا سا کیا
دیکھ چمن میں اس بن میرے چپکے جی بہلانے پر
سر نیچے کر لیتا تھا تلوار چلاتے ہم پر وے
ریجھ گئے خوں ریزی میں اپنی اس کے پھر شرمانے پر
گالی مار کے غم پر میں نے صبر کیا خاموش رہا
رحم نہ آیا ٹک ظالم کو اس میرے غم کھانے پر
نادیدہ ہیں نام خدا کے ایسے جیسے قحط زدہ
دوڑتی ہیں کیا آنکھیں اپنی سبحے کے دانے دانے پر
حال پریشاں سن مجنوں کا کیا جلتا ہے جی اپنا
عاشق ہم بھی میر رہے ہیں اس ڈھب کے دیوانے پر
میر تقی میر

قسم کھائی ہو جس نے خواب میں بھی منھ دکھانے کی

دیوان سوم غزل 1300
عزیز و کون سی صورت ہے ظاہر اس کے آنے کی
قسم کھائی ہو جس نے خواب میں بھی منھ دکھانے کی
تگ ان پلکوں کو ہے ٹھوکر سے فتنے کے جگانے کی
طرح آتی ہے اس قد کو قیامت سر پہ لانے کی
کسو سے آنکھ کے ملتے ہی اپنی جان دے بیٹھے
نئی یہ رسم ہم جاتے ہیں چھوڑے دل لگانے کی
جہاں ہم آئے چہرے پر بکھیرے بال جا سوئے
ادا کرتے ہو تم کیا خوب ہم سے منھ چھپانے کی
مسیں بھیگی ہیں اس کے سبزئہ خط کی بدایت سے
مسیحؑ و خضرؑ کو پہنچی بشارت زہر کھانے کی
جہاں اس کے لیے غربال کر نومید ہو بیٹھے
یہی اجرت ملی ہے کیا ہماری خاک چھانے کی
کہوں کیا ایک بوسہ لب کا دے کر خوب رگڑایا
رکھی برسوں تلک منت کبھو کی بات مانے کی
بگولا کوئی اٹھتا ہے کہ آندھی کوئی آتی ہے
نشان یادگاری ہے ہماری خاک اڑانے کی
کرے ہے داغ اس کا عید کو سب سے گلے ملنا
اکت لی ہے نئی یہ میری چھاتی کے جلانے کی
لڑا کر آنکھیں اس اوباش سے اک پل میں مر گذرا
حکایت بوالعجب ہے میر جی کے مارے جانے کی
میر تقی میر

جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آئو جانے دو

دیوان سوم غزل 1219
قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آئو جانے دو
جان سلامت لے کر جاوے کعبہ میں تو سلام کریں
ایک جراحت ان ہاتھوں کا صید حرم کو کھانے دو
اس کی گلی کی خاک سبھوں کے دامن دل کو کھینچے ہے
ایک اگر جی لے بھی گیا تو آتے ہیں مر جانے دو
کرتے ہو تم نیچی نظریں یہ بھی کوئی مروت ہے
برسوں سے پھرتے ہیں جدا ہم آنکھ سے آنکھ ملانے دو
کیا کیا اپنے لوہو پئیں گے دم میں مریں گے دم میں جئیں گے
دل جو بغل میں رہ نہیں سکتا اس کو کسو سے بکانے دو
اب کے بہت ہے شور بہاراں ہم کو مت زنجیر کرو
دل کی ہوس ٹک ہم بھی نکالیں دھومیں ہم کو مچانے دو
عرصہ کتنا سارے جہاں کا وحشت پر جو آجاویں
پائوں تو ہم پھیلاویں گے پر فرصت ہم کو پانے دو
کیا جاتا ہے اس میں ہمارا چپکے ہم تو بیٹھے ہیں
دل جو سمجھنا تھا سو سمجھا ناصح کو سمجھانے دو
ضعف بہت ہے میر تمھیں کچھ اس کی گلی میں مت جائو
صبر کرو کچھ اور بھی صاحب طاقت جی میں آنے دو
بات بنانا مشکل سا ہے شعر سبھی یاں کہتے ہیں
فکر بلند سے یاروں کو ایک ایسی غزل کہہ لانے دو
میر تقی میر

یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا

دیوان سوم غزل 1074
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا
وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ چمکانے لگا
خون کرنے کا خیال اب کچھ اسے آنے لگا
لعل جاں بخش اس کے تھے پوشیدہ جوں آب حیات
اب تو کوئی کوئی ان ہونٹوں پہ مر جانے لگا
حیف میں اس کے سخن پر ٹک نہ رکھا گوش کو
یوں تو ناصح نے کہا تھا دل نہ دیوانے لگا
حبس دم کے معتقد تم ہو گے شیخ شہر کے
یہ تو البتہ کہ سن کر لعن دم کھانے لگا
گرم ملنا اس گل نازک طبیعت سے نہ ہو
چاندنی میں رات بیٹھا تھا سو مرجھانے لگا
عاشقوں کی پائمالی میں اسے اصرار ہے
یعنی وہ محشر خرام اب پائوں پھیلانے لگا
چشمک اس مہ کی سی دلکش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا
کیونکر اس آئینہ رو سے میر ملیے بے حجاب
وہ تو اپنے عکس سے بھی دیکھو شرمانے لگا
میر تقی میر

دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دیوان دوم غزل 948
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
دل کا اس کنج لب سے دے ہیں نشاں
بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی
وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
ہے یہ تقریب جی کے جانے کی
تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی
خضر اس خط سبز پر تو موا
دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی
دل صد چاک باب زلف ہے لیک
بائو سی بندھ رہی ہے شانے کی
کسو کم ظرف نے لگائی آہ
تجھ سے میخانے کے جلانے کی
ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی
جام داری شراب خانے کی
جو ہے سو پائمال غم ہے میر
چال بے ڈول ہے زمانے کی
میر تقی میر

خوبرو کس کی بات مانے ہیں

دیوان دوم غزل 882
کرتے ہیں جوکہ جی میں ٹھانے ہیں
خوبرو کس کی بات مانے ہیں
میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں
پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں
جا ہمیں اس گلی میں گر رہنا
ضعف و بے طاقتی بہانے ہیں
پوچھ اہل طرب سے شوق اپنا
وے ہی جانیں جو خاک چھانے ہیں
اب تو افسردگی ہی ہے ہر آن
وے نہ ہم ہیں نہ وے زمانے ہیں
قیس و فرہاد کے وہ عشق کے شور
اب مرے عہد میں فسانے ہیں
دل پریشاں ہوں میں تو خوش وے لوگ
عشق میں جن کے جی ٹھکانے ہیں
مشک و سنبل کہاں وہ زلف کہاں
شاعروں کے یہ شاخسانے ہیں
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں
میر تقی میر

بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح

دیوان دوم غزل 794
دور گردوں سے ہوئی کچھ اور میخانے کی طرح
بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح
آنکلتا ہے کبھو ہنستا تو ہے باغ و بہار
اس کی آمد میں ہے ساری فصل گل آنے کی طرح
چشمک انجم میں اتنی دلکشی آگے نہ تھی
سیکھ لی تاروں نے اس کی آنکھ جھمکانے کی طرح
ہم گرفتاروں سے وحشت ہی کرے ہے وہ غزال
کوئی تو بتلائو اس کے دام میں لانے کی طرح
ایک دن دیکھا جو ان نے بید کو تو کہہ اٹھا
اس شجر میں کتنی ہے اس میرے دیوانے کی طرح
آج کچھ شہر وفا کی کیا خرابی ہے نئی
عشق نے مدت سے یاں ڈالی ہے ویرانے کی طرح
پیچ سا کچھ ہے کہ زلف و خط سے ایسا ہے بنائو
ہے دل صد چاک میں بھی ورنہ سب شانے کی طرح
کس طرح جی سے گذر جاتے ہیں آنکھیں موند کر
دیدنی ہے دردمندوں کے بھی مر جانے کی طرح
ہے اگر ذوق وصال اس کا تو جی کھو بیٹھیے
ڈھونڈ کر اک کاڑھیئے اب اس کے بھی پانے کی طرح
یوں بھی سر چڑھتا ہے اے ناصح کوئی مجھ سے کہ ہائے
ایسے دیوانے کو سمجھاتے ہیں سمجھانے کی طرح
جان کا صرفہ نہیں ہے کچھ تجھے کڑھنے میں میر
غم کوئی کھاتا ہے میری جان غم کھانے کی طرح
میر تقی میر

مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا

دیوان دوم غزل 727
کجی اس کی جو میں جتانے لگا
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا
تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں
ستم کیسے کیسے اٹھانے لگا
رندھے عشق میں کوئی یوں کب تلک
جگر آہ منھ تک تو آنے لگا
پریشاں ہیں اس وقت میں نیک و بد
موا جو کوئی وہ ٹھکانے لگا
کروں یاد اسے ہوں جو میں آپ میں
سو یاں جی ہی اب بھول جانے لگا
پس از عمر اودھر گئی تھی نگاہ
سو آنکھیں وہ مجھ کو دکھانے لگا
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میر دل کو دوانے لگا
میر تقی میر

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

دیوان اول غزل 597
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے
پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور
پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے
مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت
اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے
ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری
شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے
ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے
لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت
رہتے ہیں ترے تیرستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھائوں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے
پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے
خاک اس کی سرراہ کی کوئی کب تئیں چھانے
کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے
آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے
مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے
کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے
آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار
ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے
میر تقی میر

ہائے رے ذوق دل لگانے کے

دیوان اول غزل 596
نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغئیر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے
چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمھارے آنے کے
کب تو سوتا تھا گھر مرے آکر
جاگے طالع غریب خانے کے
مژہ ابرو نگہ سے اس کی میر
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے
تیر و تلوار و سیل یک جا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے
میر تقی میر

اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

دیوان اول غزل 540
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گردباد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے
بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے
اک دم میں تونے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تب ہو میر کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
میر تقی میر

تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے

دیوان اول غزل 505
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے
وہی اک مندرس نالہ مبارک مرغ گلشن کو
وہ اس ترکیب نو کی نالہ و زاری کو کیا جانے
پڑے آسودگان خاک چونکو شور محشر سے
مرا جو کوئی بے خود ہے وہ ہشیاری کو کیا جانے
ستم ہے تیری خوے خشمگیں پر ٹک بھی دلجوئی
دل آزاری کی باتیں کر تو دلداری کو کیا جانے
گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آزردہ ہو ظالم
نہیں تہمت ہے تجھ پر تو جفا کاری کو کیا جانے
پریشاں فوج فوج لخت دل نکلے ہے آنکھوں سے
نپٹ ناداں ہے………………
ترا ابرام اس کی سادگی پر میر میں مانا
بھلا ایسا جو ناداں ہو وہ عیاری کو کیا جانے
میر تقی میر

ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا

دیوان اول غزل 94
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا
ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو
کہیں خیال نہیں یاں بحال آنے کا
تری ہی راہ میں مارے گئے سبھی آخر
سفر تو ہم کو ہے درپیش جی سے جانے کا
بسان شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تو نشان پانے کا
چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا
ٹک آ تو تا سر بالیں نہ کر تعلل کیا
تجھے بھی شوخ یہی وقت ہے بہانے کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ
یہ میر اب جو گدا ہے شراب خانے کا
میر تقی میر

دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 19
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے”
فیض احمد فیض

کب آئیں گے وہ من مانے زمانے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 65
مہکتے، میٹھے، مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
جو میرے کنجِ دل میں گونجتے ہیں
نہیں دیکھے وہ دنیا نے زمانے
تری پلکوں کی جنبش سے جو ٹپکا
اسی اک پل کے افسانے زمانے
تری سانسوں کی سوغاتیں بہاریں
تری نظروں کے نذرانے زمانے
کبھی تو میری دنیا سے بھی گزرو
لیے آنکھوں میں اَن جانے زمانے
انہی کی زندگی جو چل پڑے ہیں
تری موجوں سے ٹکرانے، زمانے!
میں فکر رازِ ہستی کا پرستار
مری تسبیح کے دانے زمانے
مجید امجد

دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 283
رائیگاں ہو گئے لمحے ترے پاس آنے کے
دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے
آنکھ سورج کی کرن دیکھ کے ڈرنے والی
خواب پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں سستانے کے
دل ہو یا آنکھ بس اک رات کا ڈیرا اپنا
ہم تو بنجارے، نہ بستی کے، نہ ویرانے کے
لوٹ کر آئے تو سنسان لگا شہر تمام
اب کبھی اس کو سفر پر نہیں پہنچانے کے
عرفان صدیقی

کچھ دیر میں ہم مرجھانے کو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 174
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
کچھ دیر میں ہم مرجھانے کو ہیں
کوئی آکے ہمیں زنجیر کرے
ہم رقصِ جنوں فرمانے کو ہیں
جو بادل بستی چھوڑ گئے
کسی بن پہ بھرن برسانے کو ہیں
اب جاؤ ہمارے دھیان سے تم
ہم پل بھر جی بہلانے کو ہیں
جس شہر سے اس نے کوچ کیا
ہم کون وہاں رہ جانے کو ہیں
دل کیسے ریت میں ڈوب گیا
آنکھیں تو دھوکا کھانے کو ہیں
اب ہونٹوں پر کوئی ہاتھ نہیں
ہم دل کی بات بتانے کو ہیں
عرفان صدیقی

بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 107
سراب دشت تجھے آزمانے والا کون
بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون
سواد شام یہ شہزادگان صبح کہاں
سیاہ شب میں یہ سورج اُگانے والا کون
یہ ریگزار میں کس حرف لازوال کی چھاؤں
شجر یہ دشت زیاں میں لگانے والا کون
یہ کون راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا ابھی
اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے والا کون
یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
بدن کے نقرئی ٹکڑے لہو کی اشرفیاں
اِدھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون
یہ کس کے نام پہ تیغ جفا نکلتی ہوئی
یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون
اُبھرتے ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں
کلام حق سر نیزہ سنانے والا کون
ملی ہے جان تو اس پر نثار کیوں نہ کروں
تو اے بدن مرے رستے میں آنے والا کون
عرفان صدیقی

کس لیے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 554
کچھ خبر بھی ہے تجھے آنکھ چرانے والے
کس لیے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے
ہم نے خوابوں کے دریچوں سے یونہی جھانکا تھا
تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے
روٹھنے والے ہمیں اب تو اجازت دے دے
اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے
بجھ گئے درد کی پلکوں پہ سسکتے دیپک
ہو گئی دیر بہت دیر سے آنے والے
ہم تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے
راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن
تم جو زندہ تھے ہمیں چھوڑ کے جانے والے
منصور آفاق

لوگ اپنے دئیے جلانے لگے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 231
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے کا
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی

کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 211
تباہی کے بادل ہیں لہرانے والے
کہاں ہیں زمانے کا غم کھانے والے
غم زندگی سے نظر تو ملائیں
غم عشق پر ناز فرمانے والے
زمانہ کسی کا ہوا ہے نہ ہو گا
ارے او فریب وفا کھانے والے
نظر اے فقیر سر راہ پر بھی
طواف حرم کے لئے جانے والے
چلو جام اک اور پی آئیں باقیؔ
ابھی جاگتے ہوں گے میخانے والے
باقی صدیقی

ہم ترے واسطے مقتل میں تھے جانے والے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 210
ڈر کے حالات سے دامن کو بچانے والے
ہم ترے واسطے مقتل میں تھے جانے والے
خندہ گل کی حقیقت یہ کبھی ایک نظر
اے بہاروں کی طرح راہ میں آنے والے
وقت کے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں
آئنہ گردش دوراں کو دکھانے والے
ختم ہنگامہ ہوا جب تو کھڑا سوچتا ہوں
آپ ہی چور نہ ہوں شور مچانے والے
غیر کے وصف کو بھی عیب کریں گے ثابت
تنگ دل اتنے کبھی تھے نہ زمانے والے
کوئی بات آ گئی کیا ان کی سمجھ میں باقیؔ
کس لئے چپ ہیں ہنسی میری ارانے والے
باقی صدیقی

ہم کہاں اور ٹھکانے پاتے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 195
تیرے در تک نہیں جانے پاتے
ہم کہاں اور ٹھکانے پاتے
ہر قدم پر ہے نیا ہنگامہ
ہوش میں ہم نہیں آنے پاتے
جلوہ پردہ ہے تو پردہ جلوہ
کیا ترا بھید زمانے پاتے
تم عناں گیر جنوں ہو ورنہ
چور چور آئنہ خانے پاتے
لوگ غربت کا گلہ کرتے ہیں
ہم وطن سے نہیں جانے پاتے
درد ہوتا تو مسلسل ہوتا
دل کو ہم دل تو بنانے پاتے
غم اگر ساتھ نہ دیتا باقیؔ
دشت بھی ہم نہ بسانے پاتے
باقی صدیقی

کسی کے خون کی بو راستوں سے آنے لگی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 171
شفق کی آگ کہانی کوئی سنانے لگی
کسی کے خون کی بو راستوں سے آنے لگی
ملی ہے ایک زمانے کو روشنی جن سے
ہوائے دہر وہی مشعلیں بجھانے لگی
تھا جس خیال پہ قائم حیات کا ایواں
اسی خیال سے تلخی دلوں میں آنے لگی
سحر کے آئنے کا کوئی اعتبار نہیں
کلی تو دیکھ کے عکس اپنا مسکرانے لگی
میں اپنے دل کے بھنور سے نکل نہیں سکتا
تمہاری بات تو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی
گلوں کے منہ میں زمانے نے آگ رکھ دی ہے
بہار اپنا ہی خوں پی کے لڑکھڑانے لگی
نسیم گزری ہے زنداں سے اس طرح باقیؔ
شکست دل کی صدا دور دور جانے لگی
باقی صدیقی

اب تکلیف کرو نہ آے کا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 44
چل گیا ہے فسوں زمانے کا
اب تکلف کرو نہ آنے کا
دیکھ کر ہم کو بے نیاز حیات
حوصلہ بڑھ گیا زمانے کا
وقت ہو تو حضور سن لیجے
آخری باب ہے فسانے کا
اک ستارہ بھی آسماں پہ نہیں
کیا کوئی وقت ہے یہ جانے کا
ڈوبتا جا رہا ہے دل باقیؔ
وقت یہ تھا فریب کھانے کا
باقی صدیقی