ٹیگ کے محفوظات: جام

خامشی میں پیام ہوتے ہیں

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں
راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
خار مے نوش ہیں کسے معلوم
آبلے مثلِ جام ہوتے ہیں
دل کی آواز کوئی سُن لیتا
صاحبِ گوش، عام ہوتے ہیں
اٹھ رہے ہیں غلاف پلکوں کے
حادثے بے نیام ہوتے ہیں
زیست میں زہر گھولنے والے
کس قدر خوش کلام ہوتے ہیں
مُسکرا کر نگاہ ڈوب گئی
اس طرح بھی سلام ہوتے ہیں
کس قدر خود نظر ہیں دیوانے
اجنبی بن کے عام ہوتے ہیں
شکیب جلالی

ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں

دورِ سحر و شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں
پابستہِ زنجیر تو رُک رُک کے چلیں گے
دشواریِ ہرگام سے گھبرائے ہوئے ہیں
اُمّیدِ چراغاں ہے نہ اُمّیدِ سَحر ہے
زندانی سرِ شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
نآ کردہ خطاؤں کا بھی اقرار نہ کرلیں
بے باکیِ الزام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ساقی کوئی ہنگامہِ نوخیز بپا کر
ہم شغلِ مے و جام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کانٹوں کا بیاں اور ہے، کلیوں کی صدا اور
اُلجھے ہوئے پیغام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کُچھ لوگ ہیں مرعوب، شکیبؔ آپ کے فن سے
کچھ لوگ فقط نام سے گھبرائے ہوئے ہیں
شکیب جلالی

پہلے ہم سے عشق جتایا اب ہم کو بد نام کریں گے

وہ کہتے ہیں رازِ محبت آپ ہی طشت از بام کریں گے
پہلے ہم سے عشق جتایا اب ہم کو بد نام کریں گے
پڑھ تو لیا اقرارِ محبت آنکھوں میں بس کافی ہے!
حَرف و بیاں تک آئیں گے کیا؟ بات کو اب کیا عام کریں گے؟
میخانے میں بھیڑ ہے، آؤ! اَور کہیں پر بیٹھیں گے
کان کھنکتے بول سنیں گے، آنکھ سے رقصِ جام کریں گے
بسنے دو ہمارے دل میں تم اِن کالی کافر آنکھوں کو
گھر ہے خدا کا وہ خوش ہو گا کفر کو جب اسلام کریں گے
ضامنؔ! وہ مل جائیں کہیں تو کہنا ہم نے پوچھا ہے
کب تک آنکھ میں دم اٹکے گا کس دن پورا کام کریں گے
ضامن جعفری

اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ

کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ
چاند ہے اور آسمان ہے صاف
رہیے بالائے بام آٹھ سے پانچ
اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین
اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ
شعر کیا شاعری کے بارے میں
سوچنا بھی حرام آٹھ سے پانچ
کچھ خریدیں تو بھاو پانچ کے آٹھ
اور بیچیں تو دام آٹھ سے پانچ
وہ ملے بھی تو بس یہ پوچھیں گے
کچھ ملا کام وام آٹھ سے پانچ
صحبتِ اہلِ ذوق ہے باصِرؔ
اب سناؤ کلام آٹھ سے پانچ
باصر کاظمی

اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے

ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے
اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے
آزاد ہو کے جونہی کھُلے میرے بال و پر
مجھ پر کھُلا کہ پاؤں تہِ دام رہ گئے
میں دے سکا نہ ان کو کسی تجربے کی آنچ
افسوس کچھ خیال مرے خام رہ گئے
کرتی رہی زباں مری بے دست و پا مجھے
باتوں میں عمر بیت گئی کام رہ گئے
میں راہ دیکھتا رہا یاروں کی صبح تک
باصِرؔ بھرے بھرائے مرے جام رہ گئے
باصر کاظمی

وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
شاخِ شجر پر پھل پکنے کا ہر حیلہ ناکام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
آنے والے وقت کے تیور اِس میں وہ پڑھ لیتا ہے
اب بھی شاہ کے ہاتھ میں ہے جو وہ جمشیدی جام لگا
ہم جس کی کوڑی لائے تھے ہم نے جو کچھ سوچا تھا
اس کا ہونا ہی کیونکر اب کے بھی خیال خام لگا
ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
ا چّھی قدروں کو اپنانا بات گئے وقتوں کی ہے
آج تو جس میں بھی ہے اُس کو سفلہ پن انعام لگا
وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
ہم کہ پیادہ پیا ہیں ماجدؔ جانیں یہ احوال ہمِیں
کن کن حیلوں دن کا سورج جا کے کنارِ شام لگا
ماجد صدیقی

ہے اگر مہلت تو کُچھ آرام کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
کھینچتے ہر صبح کی مت شام کر
ہے اگر مہلت تو کُچھ آرام کر
اے کہ تُو چاہے کرے شیروں کو زیر
اولاً چڑیاں چمن کی رام کر
جس طرف تیرا گزر ہو اے کلرک!
اُس سڑک کی کُل ٹریفک جام کر
اے دلِ نادان!سب کچھ جاں پہ سہہ
مت مچا تُو شور،مت کُہرام کر
جو بھی دے ماجِد جنم وُہ ہے عظیم
ہو سکے تو دیس کو خوش نام کر
ماجد صدیقی

وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
شاخِ شجر پر پھل پکنے کا ہر حیلہ ناکام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
آنے والے وقت کے تیور اِس میں وہ پڑھ لیتا ہے
اب بھی شاہ کے ہاتھ میں ہے جو وہ جمشیدی جام لگا
ہم جس کی کوڑی لائے تھے ہم نے جو کچھ سوچا تھا
اس کا ہونا ہی کیونکر اب کے بھی خیال خام لگا
ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
ا چّھی قدروں کو اپنانا بات گئے وقتوں کی ہے
آج تو جس میں بھی ہے اُس کو سفلہ پن انعام لگا
وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
ہم کہ پیادہ پیا ہیں ماجدؔ جانیں یہ احوال ہمِیں
کن کن حیلوں دن کا سورج جا کے کنارِ شام لگا
ماجد صدیقی

پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 115
آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے
کچھ رنگ تو ابھرے تری گل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینۂ ایام سے اترے
ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہہ و بالا
وہ زینہ بہ زینہ بڑے آرام سے اترے
جب تک ترے قدموں میں فروکش ہیں سبو کش
ساقی خط بادہ نہ لب جام سے اترے
احمد فراز

ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 28
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں‌نے بھی جام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
احمد فراز

میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 127
یہ جو چَھلکے ہیں، نہیں قطرے مئے گلفام کے
میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے
کس سے شکوہ کر رہے ہیں آ دامن تھام کے
بندہ پرور سینکڑون ہوتے ہیں اک اک نام کے
ہیں ہمارے قتل میں بدنام کتنے نام کے
جو کہ قاتل ہے وہ بیٹھا ہے ہے کلیجہ تھام کے
یہ سمجھ لو رکھنی بات مجھے صیاد کی
ورنہ میں نے سینکڑوں توڑے ہیں حلقے دام کے
غفلت خوابِ جوانی عہدِ پیری میں کیا
صبح کو اٹھ بیٹھتے ہیں سونے والے شام کے
رہبروں کی کشمکش میں ہے ہمارا قافلہ
منزلوں سے بڑھ گئے ہیں فاصلے دو گام کے
دیدہ میگوں نہ دکھلا روئے روشن کھول کر
صبح کو پیتے نہیں ہیں پینے والے شام کے
مرگِ عاشق پر تعجب اس تعجب کے نثار
مرتکب جیسے نہیں سرکار اس الزام کے
اے قمر بزمِ حسیناں کی وہ ختمِ شب نہ پوچھ
صبح کو چھپ جائیں جیسے چاند تارے شام کے
قمر جلالوی

ہر اک شاخِ چمن پر پھول بن کر جام آ جائے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 111
بہار آ جائے گر وہ ساقی گلفام آ جائے
ہر اک شاخِ چمن پر پھول بن کر جام آ جائے
بہار ایسی کوئی اے گردشِ ایام آ جائے
بجائے صید خود صیاد زیرِ دام آ جائے
مرا دل ٹوٹ جانے کی صدا رسوا نہ ہو یا رب
کوئی ایسے میں شکستِ جام آ جائے
تماشہ دیکھنے کیوں جا رہے ہو خونِ ناحق کا
حنائی ہاتھ ہیں تم پر نہ کچھ الزام آ جائے
ہمارا آشیانہ اے باغباں غارت نہ کر دینا
ہمارے بعد ممکن ہے کسی کے کام آ جائے
خدا کے سامنے یوں تک رہا ہے سب کے منہ قاتل
کسی پر بے خطا جیسے کوئی الزام آ جائے
ستم والوں سے پرسش ہو رہی ہے میں یہ ڈرتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو تم پر کوئی الزام آ جائے
قمر اس آبلہ پا راہ رو کی بے بسی توبہ
کہ منزل سامنے ہو اور سر پر شام آ جائے
قمر جلالوی

اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 36
اب مجھے دشمن سے کیا جب زیرِ دام آ ہی گیا
اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا
سن مآلِ سوزِ الفت جب یہ نام آ ہی گیا
شمع آخر جل بجھی پروانہ کام آ ہی گیا
طالبِ دیدار کا اصرار کام آ ہی گیا
سامنے کوئی بحسنِ انتظام آ ہی گیا
ہم نہ کہتے تھے کہ صبح شام کے وعدے نہ کر
اک مریضِ غم قریبِ صبح شام آ ہی گیا
کوششِ منزل سے تو اچھی رہی دیوانگی
چلتے پھرتے ان سے ملنے کا مقام آ ہی گیا
رازِ الفت مرنے والے نے چھپایا تو بہت
دم نکلتے وقت لب پر ان کا نام آ ہی گیا
کر دیا مشہور پردے میں تجھے زحمت نہ دی
آج کا ہونا ہمارا تیرے کام آ ہی گیا
جب اٹھا ساقی تو واعظ کی نہ کچھ بھی چل سکی
میری قسمت کی طرح گردش میں جام آ ہی گیا
حسن کو بھی عشق کی ضد رکھنی پڑتی ہے کبھی
طور پر موسیٰ سے ملنے کا پیام آ ہی گیا
دیر تک بابِ حرم پر رک کے اک مجبورِ عشق
سوئے بت خانہ خدا کا لے کے نام آ ہی گیا
رات بھر مانگی دعا ان کے نہ جانے کی قمر
صبح کا تارہ مگر لے کر پیام آ ہی گیا
قمر جلالوی

ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 19
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا
جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا
یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا
قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا
دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا
رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام، نہ ہو گا
برق آئینۂ فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا
اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا
اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا
اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
مصطفٰی خان شیفتہ

پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 7
بس کہ آغازِ محبت میں ہوا کام اپنا
پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا
عمر کٹتی ہے تصور میں رخ و کاکل کے
رات دن اور ہے، اے گردشِ ایام اپنا
واں یہ قدغن کہ نہ آوازِ فغاں بھی پہنچے
یاں یہ شورش کہ گزارا ہو لبِ بام اپنا
ان سے نازک کو کہاں گرمیِ صحبت کی تاب
بس کلیجا نہ پکا اے طمعِ خام اپنا
تپشِ دل کے سبب سے ہے مجھے خواہشِ مرگ
کون ہے جس کو نہ منظور ہو آرام اپنا
بادہ نوشی سے ہماری، جو لہو خشک ہوا
خونِ اغیار سے لبریز ہے کیا جام اپنا
لطف سمجھوں تو بجا، جور بھی سمجھوں تو درست
تم نے بھیجا ہے مرے پاس جو ہم نام اپنا
ذکرِ عشاق سے آتی ہے جو غیرت اس کو
آپ عاشق ہے مگر وہ بتِ خود کام اپنا
تاب بوسے کی کسے شیفتہ وہ دیں بھی اگر
کر چکی کام یہاں لذتِ دشنام اپنا
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 274
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھےُدردِ تہِ جام بہت ہے
نَے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمَعِ خام بہت ہے
ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں؟
پابستگئِ رسم و رہِ عام بہت ہے
زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوفِ حر م سے؟
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو
انکار نہیں اور مجھے اِبرام بہت ہے
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے
ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے؟
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے

دیوان دوم غزل 992
کب تلک احوال یہ جب کوئی تیرا نام لے
عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے
ناتوانی سے اگر مجھ میں نہیں ہے جی تو کیا
عشق جو چاہے تو مردے سے بھی اپنا کام لے
پہلوے عاشق نہ بستر سے لگے تو ہے بجا
دل سی آفت ہو بغل میں جس کے کیا آرام لے
اب دل نالاں پھر اس زلف سیہ میں جاچکا
آج یہ بیمار دیکھیں کس طرح سے شام لے
شاخ گل تیری طرف جھکتی جو ہے اے مست ناز
چاہتی ہے تو بھی میرے ہاتھ سے اک جام لے
دل کی آسائش نہیں امکان زلف یار میں
یہ شکار مضطرب ہے دم نہ زیر دام لے
عزت اے پیر مغاں کچھ حاجیوں کی ہے ضرور
آئے ہیں تیرے کنے ہم جامۂ احرام لے
کیا بلا مفتی کا لونڈا سر چڑھا ہے ان دنوں
آوے ہے گویا کہ مجھ پر قاضی کا اعلام لے
ہم نشیں کہہ مت بتوں کی میر کو تسبیح ہے
کام کیا اس ذکر سے ان کو خدا کا نام لے
میر تقی میر

جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف

دیوان دوم غزل 835
میلان دل ہے زلف سیہ فام کی طرف
جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف
دل اپنا عدل داور محشر سے جمع ہے
کرتا ہے کون عاشق بدنام کی طرف
اس پہلوے فگار کو بستر سے کام کیا
مدت ہوئی کہ چھوٹی ہے آرام کی طرف
یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو سو اب مدام
رہتی ہے چشم ماہ ترے بام کی طرف
آنکھیں جنھوں کی زلف و رخ یار سے لگیں
وے دیکھتے نہیں سحر و شام کی طرف
جوں چشم یار بزم میں اگلا پڑے ہے آج
ٹک دیکھ شیخ مے کے بھرے جام کی طرف
خارا شگاف و سینہ خراش ایک سے نہیں
لیکن نظر نہیں ہے تجھے کام کی طرف
دل پک رہے ہیں جن کے انھیں سے ہمیں ہے شوق
میلان طبع کب ہے کسو خام کی طرف
دیکھی ہے جب سے اس بت کافر کی شکل میر
جاتا نہیں ہے جی تنک اسلام کی طرف
میر تقی میر

خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر

دیوان اول غزل 220
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکر صبح کر گریے کو ورد شام کر
مست جنوں رہ روز و شب شہرہ ہو شہر ودشت میں
مجلس میں اپنی نقل خوش زنجیر کا بادام کر
جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگذر بے ننگ ہوکر نام کر
مر رہ کہیں بھی میر جا سرگشتہ پھرنا تا کجا
ظالم کسو کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر
میر تقی میر

رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت

دیوان اول غزل 185
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
دست صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تہ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردش ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردش ایام بہت
دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی
ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت
رہ گیا دیکھ کے تجھ چشم پہ یہ سطر مژہ
ساقیا یوں تو پڑھے تھے میں خط جام بہت
پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباً زیر زمیں میر ہے آرام بہت
میر تقی میر

جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا

دیوان اول غزل 36
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا
آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا
ناکامی صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ
اب جی سے گذر جانا کچھ کام نہیں رکھتا
ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں
مانند نئے نرگس جو جام نہیں رکھتا
بن اس کی ہم آغوشی بیتاب نہیں اب ہے
مدت سے بغل میں دل آرام نہیں رکھتا
میں داڑھی تری واعظ مسجد ہی میں منڈواتا
پر کیا کروں ساتھ اپنے حجام نہیں رکھتا
وہ مفلس ان آنکھوں سے کیونکر کے بسر آوے
جو اپنی گرہ میں اک بادام نہیں رکھتا
کیا بات کروں اس سے مل جائے جو وہ میں تو
اس ناکسی سے روے دشنام نہیں رکھتا
یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے
اک میر ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا
میر تقی میر

میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 109
عرض سنتے ہی مرا کام بنا دیتا ہے
میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
خاک و افلاک میں رشتہ ہے، شعور اتنا ہی
خاص کو ہم نسبِ عام بنا دیتا ہے
چھاؤں بھر دھوپ کی مہلت میں شجر میرے لئے
ایک خس خانۂِ آرام بنا دیتا ہے
ثبت و محکم بھی تغیّر کی حد و زد میں ہے
جب بھی چاہے وہ اسے خام بنا دیتا ہے
تجربہ جیسے کوئی نسخۂِ بینائی ہو
میرے دکھ کو مرا انعام بنا دیتا ہے
جو یہاں اایا یہاں سے کبھی نکلا ہی نہیں
شہر، رستوں کا عجب دام بنا دیتا ہے
اپنی قامت بھی ضروری ہے کہ پہچانے جاؤ
یوں تو نقاد بڑا نام بنا دیتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 7
بھیجا ہے مے کدے سے کسی نے پیامِ غم
آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم
لے جائے اب جہاں کہیں شبدیزِ زندگی
تھامی ہوئی ہے ہاتھ میں ہم نے زمامِ غم
یوں اپنے ظرف کا نہ تمسخر اُڑائیے
سر پر اُنڈیلئے، یہ بچا ہے جو جامِ غم
آئے گا ایک رقعۂ خالی جواب میں
اُس کے بجائے بھیجئے نامہ بہ نامِ غم
مفرورِ معتبر ہیں ، ملیں گے یہیں کہیں
اپنے زیاں کے کھوج میں والا کرامِ غم
سب کو بلائے عشرت ارزاں نے کھا لیا
اب تو ہی رہ گیا ہے برائے طعامِ غم
آفتاب اقبال شمیم

کیے میں نے ہر اک ایواں کی چوکھٹ تھام کے شکوے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 74
نہیں سنتا کوئی مجھ کشتۂ آلام کے شکوے
کیے میں نے ہر اک ایواں کی چوکھٹ تھام کے شکوے
شفق کے رنگ آنکھوں میں، سحر کی اوس پلکوں پر
نہ آئے پھر بھی لب پر چرخِ نیلی فام کے شکوے
یہ کیسا دور ہے جس میں مجھے سننے پڑے ساقی
وبالِ ہوش کے طعنے، شکستِ جام کے شکوے
اب ان بھولے ہوئے قصوں کو دہرانے سے کیا حاصل
یہ اب کیا آپ لے بیٹھے دلِ ناکام کے شکوے
تماشا ہے کہ جن کے واسطے گردش میں تھے عالم
انہیں بھی سوجھتے ہیں گردشِ ایام کے شکوے
مجید امجد

وقت کی لامنتہی زنجیر کی کڑیاں تمام

مجید امجد ۔ غزل نمبر 50
کیا گریباں چاک صبح اور کیا پریشاں زلف شام
وقت کی لامنتہی زنجیر کی کڑیاں تمام
دیکھیے تنکے کی ناؤ کب کنارے جا لگے
موج ہے دہشت خروش اور سیل ہے وحشت خرام
شمع کے دامن میں شعلہ، شمع کے قدموں میں راکھ
اور ہو جاتا ہے ہر منزل پہ پروانے کا نام
زیست کی صہبا کی رو تھمتی نہیں، تھمتی نہیں!
ٹوٹتے رہتے ہیں نشّے، پھوٹتے رہتے ہیں جام
مجید امجد

فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 249
علاجِ تلخیٔ ایام کی ضرورت ہے
فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے
مری حیات بھی صدمے اٹھا نہیں سکتی
تری نظر کو بھی آرام کی ضرورت ہے
غم جہاں کا تصور بھی جرم ہے اب تو
غم جہاں کو نئے نام کی ضرورت ہے
نظام کہنہ کی باتیں نہ کر کہ اب ساقی
نئی شراب، نئے جام کی ضرورت ہے
ترے لبوں پہ زمانے کی بات ہے باقیؔ
تجھے بھی کیا کسی الزام کی ضرورت ہے
باقی صدیقی

جہاں نے میکدوں کے نام بدلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 213
نہ مے بدلی نہ مے کے جام بدلے
جہاں نے میکدوں کے نام بدلے
وہی گلشن، وہی گلشن کے انداز
فقط صیاد بدلے، دام بدلے
جو ہم بدلے تو کوئی بھی نہ بدلا
جو تم بدلے تو صبح و شام بدلے
بدلنے کو ہیں میخواروں کی نظریں
بلا سے رُخ نہ دور جام بدلے
فضائے زیست باقیؔ خاک بدلی
نہ دل بدلا نہ دل کے کام بدلے
باقی صدیقی

پہلی سی بات اب نہیں تیرے غلام کی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 167
ہر آہ پر نظر ہے غمِ صبح و شام کی
پہلی سی بات اب نہیں تیرے غلام کی
اٹھی نہ جب نگاہ کسی تشنہ کام کی
ساقی کو پڑ گئی خم و مینا و جام کی
رکھ دو مرے غموں کو بھی دنیا کے سامنے
کڑیاں ہیں یہ بھی سلسلہ صبح و شام کی
ہر ایک معرکے میں رہا گرچہ پیش پیش
لیکن کہیں چلی نہ دلِ تیز گام کی
ان خشک وادیوں سے کوئی آشتا نہ تھا
باقیؔ ہے میرے نام سے شہرت سہام کی
باقی صدیقی

بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 108
دل کے لئے حیات کا پیغام بن گئیں
بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
کچھ لغزشوں سے کام جہاں کے سنور گئے
کچھ جراتیں حیات پر الزام بن گئیں
ہر چند وہ نگاہیں ہمارے لئے نہ تھیں
پھر بھی حریف گردش ایام بن گئیں
آنے لگا حیات کو انجام کا خیال
جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں
کچھ کم نہیں جہاں سے جہاں کی مسرتیں
جب پاس آئیں دشمن آرام بن گئیں
باقیؔ جہاں کرے گا مری میکشی پہ رشک
ان کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں
باقیؔ مال شوق کا آنے لگا خیال
جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں
باقی صدیقی

نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 61
کچھ اس انداز سے اس فتنہ پرور کا پیام آیا
نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا
بہار میکدہ تقسیم ہونے کو ہوئی لیکن
مرے حصے میں تم آئے نہ مے آئی نہ جام آیا
غم ایام تیری برہمی کا نام ہے شاید
جہاں تیری نظر بدلی وہیں مشکل مقام آیا
زمانہ پس گیا دو حادثوں کے درمیاں آ کر
ادھر ان کی نظر اٹھی، ادھر گردش میں جام آیا
کنارے آ لگے کوئی سفینہ جس طرح باقیؔ
اٹھا اک شور جب محفل میں کوئی تشنہ کام آیا
باقی صدیقی