ٹیگ کے محفوظات: جالا

زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا

زنجیر کی جھنکار کو سنگیت میں ڈھالا
زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا
وہ خاک نکھاریں گے خدوخال سَحر کے
جو چہرہِ مہتاب پہ بُنتے رہے جالا
تپتے ہوئے صحرا کے کسی کام نہ آیا
گلگشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اُجالا
انسان کی عظمت کی گواہی کے لیے ہو
کعبہ ہو کہ بُت خانہ ، کلیسا کہ شوالا
شکیب جلالی

لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ

دیوان اول غزل 99
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ
کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا
معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دیر
مسجد میں ہے کیا شیخ پیالہ نہ نوالا
گذرے ہے لہو واں سر ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پائوں کا چھالا
گر قصد ادھر کا ہے تو ٹک دیکھ کے آنا
یہ دیر ہے زہاد نہ ہو خانۂ خالا
جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادر مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا
دشمن نہ کدورت سے مرے سامنے ہو جو
تلوار کے لڑنے کو مرے کیجو حوالا
ناموس مجھے صافی طینت کی ہے ورنہ
رستم نے مری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا
دیکھے ہے مجھے دیدۂ پرخشم سے وہ میر
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا
میر تقی میر

وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 89
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ، کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
پھر اک فریبِ ذات ہوا اپنا شاٹ کٹ
پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا ’دہ خدا‘ کا تو دستار سیٹھ کی
حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہے ملکیت
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا
میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار
پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے
دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی میری تھیں
چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں
وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب
بہنا کہیں پڑا اسے، دریا کہیں کا تھا
تاروں بھری وہ رات بھی کچھ کچھ کمینی تھی
کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
گاہے شبِ وصال تھی گاہے شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکڑا کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی، حوالہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
منصور آفاق