ٹیگ کے محفوظات: جاتا

زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے

نظر میری نہ چہرہ دیکھتا ہے
زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے
نظر کا کام ہے پیغام دینا
مگر دِل تَو ارادہ دیکھتا ہے
زمانے سے توقّع رکھنے والے
زمانہ بس تماشا دیکھتا ہے
ہُوا دِل مثلِ سنگِ میل بے حِس
نہ جانے روز کیا کیا دیکھتا ہے
مِرے چہرے پَہ وہ نظریں جمائے
تغیّر آتا جاتا دیکھتا ہے
وہ کچھ سمجھا نَہ ہو ممکن ہے ضامنؔ
پَہ رنگِ رُخ تَو اُڑتا دیکھتا ہے
ضامن جعفری

کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں

مجبور ہُوں دل کے ہاتھوں سے پھر کوئے بتاں کو جاتا ہُوں
کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں
ہُوں نَو سَفَرِ راہِ الفت، تا راس آجائے خوئے بتاں
اے محوِ تماشا دیکھ ذرا، کس شوق سے ٹھوکر کھاتا ہُوں
محرومیِ منزل قسمت ہے، اتمامِ سَفَر ہو گا نہ کبھی
دو چار قدم پر منزل ہے اور میں ہُوں کہ بیٹھا جاتا ہُوں
اخلاص و محبّت سے عاری اِس حرص و ہَوس کی دنیا میں
اِخلاص و محبّت جُرم مرے، میں خوارِ جہاں کہلاتا ہُوں
کچھ گرمیِ محشر تیز ہُوئی، کچھ داوَرِ محشر چونک اُٹھا
کچھ وہ بھی پریشاں ہیں ضامنؔ، میں داغِ جگر دِکھلاتا ہُوں
ضامن جعفری

پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تنہا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی

یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا

دَم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا
یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا
تنہائی کے آتشداں میں
میں لکڑی کی طرح جلتا تھا
زرد گھروں کی دیواروں کو
کالے سانپوں نے گھیرا تھا
آگ کی محل سرا کے اندر
سونے کا بازار کھلا تھا
محل میں ہیروں کا بنجارا
آگ کی کرسی پر بیٹھا تھا
اک جادوگرنی وہاں دیکھی
اُس کی شکل سے ڈر لگتا تھا
کالے منہ پر پیلا ٹیکا
انگارے کی طرح جلتا تھا
ایک رسیلے جرم کا چہرہ
آگ کے سپنے سے نکلا تھا
پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
بازو کھنچ کر تیر بنے تھے
جسم کماں کی طرح ہلتا تھا
ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی
پیٹ کمر سے آن ملا تھا
وہم کی مکڑی نے چہرے پر
مایوسی کا جال بنا تھا
جلتی سانسوں کی گرمی سے
شیشہِ تن پگھلا جاتا تھا
جسم کی پگڈنڈی سے آگے
جرم و سزا کا دوراہا تھا
ناصر کاظمی

بس یونہی رستا بھول گیا تھا

مجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یونہی رستا بھول گیا تھا
دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا
کیسی اندھیری شام تھی اُس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا
رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا
ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا
چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا
بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا
سبز پہاڑی کے دامن میں
اُس دن کتنا ہنگامہ تھا
بارش کی ترچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا
بھیگی بھیگی خاموشی میں
مَیں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا
ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دُور لیے جاتا تھا
ناصر کاظمی

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا
اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا
تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا
کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا
جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا
تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا
یوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
ناصر کاظمی

تو کہیں باہر گیا ہوا تھا

میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
تو کہیں باہر گیا ہوا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا
دیواروں سے آنچ آتی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
تیرے آنگن کے پچھواڑے
سبز درختوں کا رمنا تھا
ایک طرف کچھ کچے گھر تھے
ایک طرف نالہ چلتا تھا
اک بھولے ہوئے دیس کا سپنا
آنکھوں میں گھلتا جاتا تھا
آنگن کی دیوار کا سایہ
چادر بن کر پھیل گیا تھا
تیری آہٹ سنتے ہی میں
کچی نیند سے چونک اُٹھا تھا
کتنی پیار بھری نرمی سے
تو نے دروازہ کھولا تھا
میں اور تو جب گھر سے چلے تھے
موسم کتنا بدل گیا تھا
لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا
دُور کے پیڑ کا جلتا سایہ
ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا
ناصر کاظمی

کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

اِس دُنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی ہے دریا
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہیرا بھی ہے کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے
منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اِس شہر میں کیا رکھا ہے
بات نہ کر صورت تو دِکھا دے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے
دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ناصر کاظمی

نگہت و نُور کے سانچوں میں، نِت ڈھلتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
پھولوں سا کھلتا ہوں دیپ سا جلتا ہوں
نگہت و نُور کے سانچوں میں، نِت ڈھلتا ہوں
پت جھڑ سے پِٹ جانے والی بیلوں کے
دیواروں پر نقش بناتا رہتا ہوں
کھیل کھیل میں، ناؤ بنا کر کاغذ کی
پانی کی فطرت پہچانا کرتا ہوں
تنہائی سے اپنا بَیر چُکانے کو
چڑیا جیسا، آئینے سے لڑتا ہوں
ہاتھ میں نادانوں کے، ڈور سے بندھ کر مَیں
کیا کیا اُڑتا، کیا کیا نوچا جاتا ہوں
ماجد صدیقی

مجھ بچّے سے خاص دُعا کرواتا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
باپ مرا بھی، بے بس جب ہو جاتا تھا
مجھ بچّے سے خاص دُعا کرواتا تھا
دبتی دیکھ کے گھر میں چیخیں بچّوں کی
مہماں بھی کچھ کھانے سے گھبراتا تھا
میرے بھی بالک ہیں تمہارے جیسے ہی
ریڑھی والا نت یہ ہانک لگاتا تھا
مُنّا اپنی ماتا جی کی شفقت کا
غالب حصّہ نوکر ہی سے پاتا تھا
ٹھیکیدار نجانے کیوں ہر افسر کی
سالگرہ کی دیگیں خود پکواتا تھا
گھر پر ہی ملنے ہر اچّھے سائل سے
صاحب اکثر دیر سے دفتر جاتا تھا
اُس کو بھی اغراض نے گھیرا تھا شاید
سچ کہتے ماجدؔ بھی کچھ ہکلاتا تھا
ماجد صدیقی

پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے

جون ایلیا ۔ قطعہ نمبر 32
تھی جو وہ اک تمثیلِ ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا
پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے
اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں
پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
قطعہ
جون ایلیا

سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 242
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہرِ تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہُوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اُگاتا ہے مجھے
مدّعا محوِتماشائے شکستِ دل ہے
آئنہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسمان بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
زندگی میں تو وہ محفل سے اُٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب

وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت

دیوان ششم غزل 1815
جو کوئی اس بے وفا سے دل لگاتا ہے بہت
وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت
اس کے سونے سے بدن سے کس قدر چسپاں ہے ہائے
جامہ کبریتی کسو کا جی جلاتا ہے بہت
کیا پس از چندے مری آوارگی منظور ہے
مو پریشاں اب جو شب مجھ پاس آتا ہے بہت
چاہ میں بھی بیشتر جانے سے کم ہوتا ہے وقر
اس لیے جاتا ہوں تب جب وہ بلاتا ہے بہت
گرچہ کم جاتا ہوں پر دل پر نہیں کچھ اختیار
وہ کجی سے سیدھیاں مجھ کو سناتا ہے بہت
بھول جاوے گا سخن پردازی اس کے سامنے
شاعری سے جو کوئی باتیں بناتا ہے بہت
بامزہ معشوق کیا کم ہیں پر اس کو کیا کروں
ناز و انداز اس ہی کا جو مجھ کو بھاتا ہے بہت
وہ نہیں ہجراں میں اس بن خواب خوش آوے مجھے
اب خیال اس کی طرف ہر لحظہ جاتا ہے بہت
کیا کروں کہنے لگا ایدھر نہ آنے پائے وہ
بد کہیں ہنگامہ آرا میر آتا ہے بہت
میر تقی میر

آخر اب دوری میں جی جاتا رہا

دیوان چہارم غزل 1334
عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
آخر اب دوری میں جی جاتا رہا
مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں
چہرئی چہرہ ہی وہ بھاتا رہا
دل ہوا کب عشق کی رہ کا دلیل
میں تو خود گم ہی اسے پاتا رہا
منھ دکھاتا برسوں وہ خوش رو نہیں
چاہ کا یوں کب تلک ناتا رہا
کچھ نہ میں سمجھا جنون و عشق میں
دیر ناصح مجھ کو سمجھاتا رہا
داغ تھا جو سر پہ میرے شمع ساں
پائوں تک مجھ کو وہی کھاتا رہا
کیسے کیسے رک گئے ہیں میر ہم
مدتوں منھ تک جگر آتا رہا
میر تقی میر

کتنا جی عاشق بیتاب کا مرجاتا ہے

دیوان سوم غزل 1290
یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
کتنا جی عاشق بیتاب کا مرجاتا ہے
جیسے گرداب ہے گردش مری ہر چار طرف
شوق کیا جانے لیے مجھ کو کدھر جاتا ہے
جوشش اشک میں ٹک ٹھہرے رہو پیش نظر
اب کوئی پل میں یہ سیلاب اتر جاتا ہے
زرد رخسار پہ کیوں اشک نہ آوے گل رنگ
آگے سے آنکھوں کے وہ باغ نظر جاتا ہے
زہ گریباں کی ہے خونناب سے تر ہوتی نہیں
سارا زنجیرئہ دامن بھی تو بھر جاتا ہے
واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب
ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو اپھر جاتا ہے
کیا لکھوں بخت کی برگشتگی نالوں سے مرے
نامہ بر مجھ سے کبوتر بھی چپر جاتا ہے
آن اس دلبر شیریں کی چھری شہد کی ہے
عاشق اک آن ہی میں جی سے گذر جاتا ہے
ہر سحر پیچھے اس اوباش کے خورشید اے میر
ڈھال تلوار لیے جیسے نفر جاتا ہے
میر تقی میر

ہم کو یہ تیر ماہ جاتا ہے

دیوان سوم غزل 1270
تیر جوڑے وہ ماہ آتا ہے
ہم کو یہ تیر ماہ جاتا ہے
گل کو سر پر رکھیں سبھی لیکن
اب دماغ اپنا کب اٹھاتا ہے
اپنا اپنا ہے ذائقہ ہم کو
بوسۂ کنج لب ہی بھاتا ہے
آتش عشق جس کے دل کو لگے
شمع ساں آپ ہی کو کھاتا ہے
دیکھنا ہے تو ہے بہم پر وہ
ہم سے آنکھوں کو کب ملاتا ہے
میری تو ہے پلک سے چھوٹی نگاہ
اور وہ اس پہ منھ چھپاتا ہے
میر صناع ہے ملو اس سے
دیکھو تو باتیں کیا بناتا ہے
میر تقی میر

دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں

دیوان سوم غزل 1201
شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہوکے عاشق ترے جان و دل و دیں کھو بیٹھے
جیسا کرتا ہے کوئی ویسا ہی پاتا ہے میاں
حسن یک چیز ہے ہم ہوویں کہ تو ہو ناصح
ایسی شے سے کوئی بھی ہاتھ اٹھاتا ہے میاں
جھکّڑ اس حادثے کا کوہ گراں سنگ کو بھی
جوں پر کاہ اڑائے لیے جاتا ہے میاں
کیا پری خواں ہے جو راتوں کو جگاوے ہے میر
شام سے دل جگر و جان جلاتا ہے میاں
میر تقی میر

خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں

دیوان سوم غزل 1181
ظلم و ستم کیا جور و جفا کیا جو کچھ کہیے اٹھاتا ہوں
خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں
گھر سے اٹھ کر لڑکوں میں بیٹھا بیت پڑھی دو باتیں کیں
کس کس طور سے اپنے دل کو اس بن میں بہلاتا ہوں
ہائے سبک ہونا یہ میرا فرط شوق سے مجلس میں
وہ تو نہیں سنتا دل دے کر میں ہی باتیں بناتا ہوں
قتل میں میرے یہ صحبت ہے غم غصے سے محبت کے
لوہو اپنا پیتا ہوں تلواریں اس کی کھاتا ہوں
آنے کی میری فرصت کتنی دو دم دو پل ایک گھڑی
رنجش کیوں کا ہے کو خشونت غصہ کیا ہے جاتا ہوں
سرماروں ہوں ایدھر اودھر دور تلک جاتا ہوں نکل
پاس نہیں پاتا جو اس کو کیا کیا میں گھبراتا ہوں
پھاڑ کے خط کو گلے میں ڈالا شہر میں سب تشہیر کیا
سامنے ہوں قاصد کے کیونکر اس سے میں شرماتا ہوں
پہلے فریب لطف سے اس کے کچھ نہ ہوا معلوم مجھے
اب جو چاہ نے بدلیں طرحیں کڑھتا ہوں پچھتاتا ہوں
مجرم اس خاطر ہوتا ہوں میں بعضی بعضی شوخی کر
عذر گناہ میں جاکر اس کے پائوں کو ہاتھ لگاتا ہوں
دیکھے ان پلکوں کے اکثر میر ہوں بے خود تنگ آیا
آپ کو پاتا ہوں تو چھری اس وقت نہیں میں پاتا ہوں
میر تقی میر

رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا

دیوان سوم غزل 1078
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا
رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا
کیا قیامت ہوتی بے پردہ ہوئے کیا جانیے
مصلحت ہی ہو گی ہم سے وہ جو شرماتا رہا
قدموزوں یار کا خاطر سے جاتا ہی نہیں
میں اسی مصرع کو ساری عمر ڈولاتا رہا
کل مکل بیتاب دل سے آج کل کی کچھ نہیں
میں تو اس غم کش کو بے کل ہی سدا پاتا رہا
آگ کھا جاتی ہے خشک و تر جو اس کے منھ پڑے
میں تو جیسے شمع اپنے ہی تئیں کھاتا رہا
میری تیری چاہ منھ دیکھے کی ہے جوں آرسی
آنکھ پھیری جس گھڑی پھر کاہے کا ناتا رہا
ہو گئے ہم محتسب کی بے شعوری سے اسیر
شیخ میں کچھ ہوش تھا میخانے سے جاتا رہا
لوگ ہی اس کارواں کے حرف نشنو تھے تمام
راہ چلتے تو جرس ہر گام چلاتا رہا
میر دیوانہ ہے اچھا بات کیا سمجھے مری
یوں تو مجھ سے جب ملا میں اس کو سمجھاتا رہا
میر تقی میر

پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں

دیوان دوم غزل 871
کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں
پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں
داغ ہوں کیونکر نہ میں درویش یارو جب نہ تب
بوریا پوشوں ہی میں وہ شعلہ خو پاتا ہوں میں
ہجر میں اس طفل بازی کوش کے رہتا ہوں جب
جا کے لڑکوں میں ٹک اپنے دل کو بہلاتا ہوں میں
ہوں گرسنہ چشم میں دیدار خوباں کا بہت
دیکھنے پر ان کے تلواریں کھڑا کھاتا ہوں میں
آب سب ہوتا ہوں پاکر آپ کو جیسے حباب
یعنی اس ننگ عدم ہستی سے شرماتا ہوں میں
ایک جاگہ کب ٹھہرنے دے ہے مجھ کو روزگار
کیوں تم اکتاتے ہو اتنا آج کل جاتا ہوں میں
ہے کمال عشق پر بے طاقتی دل کی دلیل
جلوئہ دیدار کی اب تاب کب لاتا ہوں میں
آسماں معلوم ہوتا ہے ورے کچھ آگیا
دور اس سے آہ کیسا کیسا گھبراتا ہوں میں
بس چلے تو راہ اودھر کی نہ جائوں لیک میر
دل مرا رہتا نہیں ہر چند سمجھاتا ہوں میں
میر تقی میر

قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا

دیوان دوم غزل 685
گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا
قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا
پھرا تھا دور اس سے مدتوں میں کوہ و صحرا میں
بلاکر پاس اپنے مجھ کو بٹھلاتا تو کیا ہوتا
ہوئے آخر کو سارے کام ضائع ناشکیبی سے
کوئی دن اور تاب ہجر دل لاتا تو کیا ہوتا
دم بسمل ہمارے زیر لب کچھ کچھ کہا سب نے
جو وہ بے رحم بھی کچھ منھ سے فرماتا تو کیا ہوتا
کہے سے غیر کے وہ توڑ بیٹھا ووہیں یاروں سے
کیے جاتا اگر ٹک چاہ کا ناتا تو کیا ہوتا
کبھو سرگرم بازی ہمدموں سے یاں بھی آجاتا
ہمیں یک چند اگر وہ اور بہلاتا تو کیا ہوتا
گئے لے میر کو کل قتل کرنے اس کے در پر سے
جو وہ بھی گھر سے باہر اپنے ٹک آتا تو کیا ہوتا
میر تقی میر

چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا

دیوان اول غزل 149
طفل مطرب جو میرے ہاتھ آتا
چٹکیوں میں رقیب اڑ جاتا
خواب میں بھی رہا تو آنے سے
دیکھنے ہی کا تھا یہ سب ناتا
الفت اس تیغ سے تھی بے حد میر
قتل کرتا تو لوہو جم جاتا
میر تقی میر

دیکھیے اب کے وہ کیا چیز بناتا ہے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 296
کوزہ گر پھر اسی مٹی میں ملاتا ہے مجھے
دیکھیے اب کے وہ کیا چیز بناتا ہے مجھے
میں تو اس دشت میں خود آیا تھا کرنے کو شکار
کون یہ زین سے باندھے لیے جاتا ہے مجھے
خاک پر جب بھی کوئی تیر گرا دیتا ہے
دستِ دلدار کوئی بڑھ کے اٹھاتا ہے مجھے
ساعتے چند کروں مشقِ گراں جانی بھی
جاں سپاری کا ہنر تو بہت آتا ہے مجھے
دولتِ سر ہوں‘ سو ہر جیتنے والا لشکر
طشت میں رکھتا ہے‘ نیزے پہ سجاتا ہے مجھے
عرفان صدیقی

پسند آیا ،ہوا میں دھوپ پھیلاتا ہوا میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 312
دریچوں سے سیہ پردوں کو سرکاتا ہوا میں
پسند آیا ،ہوا میں دھوپ پھیلاتا ہوا میں
وہی ہوں میں مجھے پہچان دن کی روشنی میں
وہی تیرے مسلسل خواب میں آتا ہوا میں
کسی منہ زور تتلی کا تعاقب کر رہا ہوں
یہ خوشبو کی طرح پھولوں میں چکراتا ہوا میں
تمنا ہے رہوں جاگیر میں اپنی ہمیشہ
زمیں پر گفتگو کے پھول مہکاتا ہوا میں
جہاں کوکس لئے منصوردیتا ہوں دکھائی
کہیں آتا ہوا میں اور کہیں جاتا ہوا میں
منصور آفاق

دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 195
صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص
دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص
تھا کون سوز سینہ ء صدیق کا امیں
خونِ جگر سے دیب جلاتا تھا کون شخص
تھامے ہوئے عدالتِ فاروق کا علم
پھر فتح نو کی آس جگاتا تھا کون شخص
تھا کون شخص سنتِ عثمان کا غلام
تقسیم زر کا فرض نبھاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا شجاعتِ حیدر کا جانثار
وہ آتشِ غرور بجھاتا تھا کون شخص
ہر سمت دیکھتا ہوں سیاست کی مصلحت
شبیریوں کی آن دکھاتا تھا کون شخص
ہم رقص میرا کون تھا شہرِ سلوک میں
رومی کی قبر پر اسے گاتا تھا کون شخص
صدیوں سے جس کی قبر بھی بستی ہے زندہ ہے
یہ کون گنج بخش تھا داتا تھا کون شخص
ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے
دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص
منصور آفاق

شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 1
درد مرا شہباز قلندر، دکھ ہے میرا داتا
شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے
ہجر کے کالے چرخِ کہن پر شب بھر سورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں
اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے
بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا
پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھو لال حسین مرا دل، ہر دھڑکن منصوری
ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی
کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے
بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا
باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔۔ شجرہ شعر ہے میرا
اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں موہن جو داڑو، مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں
ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناتا
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
منصور آفاق

کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 106
میں ہر اک محفل میں اس امید پر بیٹھا رہوں
کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں
دھوپ کی صورت مرے ہمراہ تو چلتا رہے
سائے کی مانند میں گھٹتا رہوں بڑھتا رہوں
ایک طوفاں کی طرح تو مجھ سے ٹکراتا رہے
اور ساحل کی طرح کٹ کٹ کے میں گرتا رہوں
تو لہو کی طرح میرے جسم میں گردش کرے
سانس کی مانند میں آتا رہوں جاتا رہوں
دشت دل سے تو صبا بن کے اگر گزرے تومیں
قطرہ بن کے نوک خار زیست پر ٹھہرا رہوں
دائرے آب رواں کے ٹوٹتے بنتے رہیں
اور اپنی شکل میں بیٹھا ہوا تکتا رہوں
زندگی کے مرحلے دنیا کی خاطر طے کروں
اور محبت کے لئے میں عمر بھر پیاسا رہوں
کر دیا ہے کام کیسا تو نے یہ میرے سپرد
رات بھر آوارہ قدموں کی صدا سنتا رہوں
میری حسرت کا تقاضا ہے کہ تیری آرزو
موسم گل میں شکستہ شاخ پر بیٹھا رہوں
زندگی دو حادثوں کے درمیاں اک حادثہ
میں کہاں تک حادثوں کے درمیاں بیٹھا رہوں
زندہ رہنے کا تو باقیؔ یہ بھی اک انداز ہے
بیٹھ کر غیروں میں اپنے آپ پر ہنستا رہوں
باقی صدیقی