ٹیگ کے محفوظات: جائے

نہ کوئی آیا، کہ سہلائے میرا آخری زخم

 
کریدنے تو سبھی آئے میرا آخری زخم
نہ کوئی آیا، کہ سہلائے میرا آخری زخم
لہو سی آنکھوں میں بجھ جائے کوئی جلتی شام
وہ شام، جس سے کہ بھر جائے میرا آخری زخم
نہ مندمل ہوا کوئی بھی زخم، یہ بھی نہ ہو
کہ پہلا داغ نہ بن جائے میرا آخری زخم
ہر ایک زخم ہی سرمایۂ حیات رہا
تو کیوں نہ دِل کو مرے بھائے میرا آخری زخم
پھر اس کے بعد ہو دائم حیات میرے لیے
خبر ہے کیا یہی کہلائے میرا آخری زخم
یاور ماجد

ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ

پَو پھٹے جب مَوج میں آئے گی دھوپ
ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ
صُبح ہونے کی اَسیرو دیر ہے!
روزنِ زنداں میں در آئے گی دھوپ
سر بہ خم ہو جائیں گے اصنامِ شب،
چڑھتے سُورج کی خبر لائے گی دھوپ
کُہر میں لپٹے ہوئے اجسام پر
ایک زرّیں شال بُن جائے گی دھوپ
اُونگھتی تَنہائیوں کے کان میں
نغمگی کا شہد ٹپکائے گی دھوپ
تا بہ کَے اختر شماری، اے شکیبؔ
بُجھتے تاروں کو نگل جائے گی دھوپ
شکیب جلالی

میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا
ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنامِ خیالی ٹھہرو
میرا دل گوشہِ تنہائی میں گھبرائے گا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے ، بھر جائے گا
عزم پختہ ہی سہی ترکِ وفا کا لیکن
منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا
آنکھ جھپکے نہ کہیں، راہ اندھیری ہی سہی
آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
شکیب جلالی

چاند ڈُوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا

حُسنِ فردا‘ غمِ امروز سے ضَو پائے گا
چاند ڈُوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا
آندھیوں میں بھی فروزاں ہے چراغِ اُمّید
خاک ڈالے سے یہ شُعلہ کہیں بُجھ جائے گا
کُو بہ کُو دام بچھے ہوں کہ کڑکتی ہو کماں
طائرِ دل‘ پرِ پرواز تو پھیلائے گا
توڑ کر حلقہِ شب‘ ڈال کے تاروں پہ کمند
آدمی عرصہِ آفاق پہ چھا جائے گا
ہم بھی دو چار قدم چل کے اگر بیٹھ گئے
کون پھر وقت کی رفتار کو ٹہرائے گا
راہ میں جس کی‘ دیا خونِ دل و جاں ہم نے
وہ حَسیں دَور بھی آئے گا‘ ضرور آئے گا
شکیب جلالی

تُو بُلائے گا بھی تَو آئے گا کون

رَوِشِ دِل تری بھُلائے گا کون
تُو بُلائے گا بھی تَو آئے گا کون
ہم نے کردی اگر نمائشِ غم
تیرے کوچے میں آئے جائے گا کون
بزمِ عشّاق میں ہے سنّاٹا
اُس نے پوچھا ہے کہ نبھائے گا کون
چَپّے چَپّے پر ایک قصرِ اَنا
دیکھنا یہ ہے اِن کو ڈھائے گا کون
میری ایذا پسندیوں کو ہے فکر
تم نہ ہو گے تو پھر ستائے گا کون
رنج و غم کو عزیز ہُوں ضامنؔ
ورنہ یوں روز آئے جائے گا کون
ضامن جعفری

بچا لیے تھے جو آنسو برائے شامِ فراق

چراغ بن کے وہی جھلملائے شامِ فراق
بچا لیے تھے جو آنسو برائے شامِ فراق
کدھر چلے گئے وہ ہم نوائے شامِ فراق
کھڑی ہے در پہ مرے سر جھکائے شامِ فراق
پلک اُٹھاتے ہی چنگاریاں برستی ہیں
بچھی ہے آگ سی کیا زیرِپائے شامِ فراق
یہ رینگتی چلی آتی ہیں کیا لکیریں سی
یہ ڈھونڈتی ہے کسے سائے سائے شامِ فراق
کبھی یہ فکر کہ دن کو بھی منہ دِکھانا ہے
کبھی یہ غم کہ پھر آئے نہ آئے شامِ فراق
وہ اشکِ خوں ہی سہی دل کا کوئی رنگ تو ہو
اب آ گئی ہے تو خالی نہ جائے شامِ فراق
بجھی بجھی سی ہے کیوں چاند کی ضیا ناصر
کہاں چلی ہے یہ کاسہ اُٹھائے شامِ فراق
ناصر کاظمی

دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے

تارے گنوائے یا سحر دکھلائے
دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے
صبحِ نورس کا راگ سنتے ہی
شبِ گل کے چراغ مرجھائے
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برباد دن ڈھلے آئے
کیوں نہ اُس کم نما کو چاند کہوں
چاند کو دیکھ کر جو یاد آئے
ناصر کاظمی

اِک بار جو آئے پھر نہ آئے

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سنائے
وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اُس کو کہاں سے ڈھونڈ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھرتھرائے
مہکی ہوئی سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کھلائے
راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے
اُڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
ناصر کاظمی

رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
سوچ بدن میں زہر نیا پھیلائے گی
رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی
بار بار جو اُگ آتی ہے راہوں میں
کس کس سے دیوار یہ چاٹی جائے گی
ڈال ڈال کر کوسنے پھیلی جھولی میں
بُڑھیا دیر تلک اب تن سہلائے گی
آگ سے جس نے اپنا ناطہ جوڑ لیا
وُہ رسّی کیا اپنا آپ بچائے گی
لطف و سکوں کا جھونکا تک جو پا نہ سکی
قوم مری کس موسم پر اِترائے گی
ابکے آب میں جال بِچھا جو چَوطرفہ
مچھلی مچھلی اُس میں جان گنوائے گی
ماجِد کُود کے دیکھ تو عزم کے دریا میں
بعد کی صورت بعد میں دیکھی جائے گی
ماجد صدیقی

انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
آج کے دن کا لطف اُٹھا لے، آج نہیں پِھر آئے گا
انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا
انساں گِدھ یا زاغ نہیں ہے اُس سے مرے کب اُس کا ضمیر
چال چلے یا ظلم کرے وُہ،آخر کو پچتائے گا
اچّھا کر اور اچّھا کرکے،اُس کے انت کی فکر نہ کر
خَیر کے بِیج سے دیکھنا اِک دِن پَودا اُگ ہی آئے گا
ماجِداپنے سُخن کی ضَو پرپڑتے چھینٹوں کو یہ بتا
چاند پہ جو بھی تُھوکے گا آخر کو منہ کی کھائے گا
ماجد صدیقی

آندھی کب آداب اپنائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
آئے اور کہرام مچائے
آندھی کب آداب اپنائے
ہم پہ نگاہ پڑی ہے رُت کی
اُڑتی ریت ہمیں سہلائے
دکھلائیں ہر قد کو بڑھا کے
پچھلے پہر کے بڑھتے سائے
راہی ہمیشہ راہ نکالے
سانپ ہمیشہ پھن پھیلائے
بندہ خوشی خوشی کو پا کر
بچوں ایسی پینگ جُھلائے
وقت کی اَن جانی چالوں سے
کوہ بدن کا کُھرتا جائے
ماجد پائے رواں کیوں ٹھہرے
جب تک سانس نہ رُکنے پائے
ماجد صدیقی

خاک میں اشک بھلے مِل جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
صدیوں اپنی جوت جگائے
خاک میں اشک بھلے مِل جائے
ساون، کُوڑے کرکٹ میں بھی
اپنے ڈھب کے پھُول کھلائے
دید خُدا کی، چودھویں جس کی
وُہ چندا کب مُکھ دکھلائے
اِک پل پھُول سا کِھلنے والا
چہرہ، دُوجی پل کملائے
پیڑ وُہ تازہ دم کیا ہو گا
اُڑتی گرد جِسے سہلائے
ماجدؔ ہر اُمید کا پیکر
چاند کی صورت گھٹتا جائے
ماجد صدیقی

زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
رنج ہے تجھ سے تو وہ راہِ سخن بھی پائے گا
زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا
میں کہ بھنوروں سی طلب لے کر رواں ہوں گُل بہ گل
کوئی قاتل اِس طلب پر بھی تو غالب آئے گا
تُو کہ پھولوں سی تمنّاؤں میں محوِ رقص ہے
تجھ سی تتلی کا سراپا بھی تو مسلا جائے گا
ہے شگفتِ گُل سے تحریکِ شگفتِ آرزو
دم بخود رہ کر نہ یہ موسم بِتایا جائے گا
اپنے قدِ فکر کو ماجدؔ نہ کر اِتنا سڈول
بعد تیرے کل ترا نقّاد بھی اِک آئے گا
ماجد صدیقی

کب یہ اُمید بھی بر آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
کب صبا تیرا پتہ لائے گی
کب یہ اُمید بھی بر آئے گی
صبح کی خیر مناؤ لوگو
شب کوئی دم ہے گزر جائے گی
ایسے منظر ہیں پسِ پردۂ حُسن
آنکھ دیکھے گی تو شرمائے گی
دل کو پت جھڑ کی حکایت نہ سناؤ
یہ کلی تاب نہیں لائے گی
مَیں بھی ہوں منزلِ شب کا راہی
رات بھی سُوئے سحر جائے گی
پیار خوشبُو ہے چھُپائے نہ بنے
بات نکلی تو بکھر جائے گی
دل سے باغی ہے تمّنا ماجدؔ
ہو کے اب شہر بدر جائے گی
ماجد صدیقی

ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
تم بھُول گئے کہ یاد آئے
ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے
مرتے ہیں ہمیں ترے نہ ہوتے
روتے ہیں ہمیں ترے بِن آئے
گزرے ہیں تری گلی سے لیکن
دل تھامے ہوئے نظر چُرائے
ہم بھی ترے مُدّعی ہوئے تھے
ہم بھی غمِ ہجر ساتھ لائے
ظُلمت سے نظر چُرانے والو
شب، خونِ جگر نہ چاٹ جائے
سہلا نہ سکے اگر تو ماجدؔ
موسم، کوئی تِیر ہی چلائے
ماجد صدیقی

برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 14
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا
زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے
شاخیں ہیں تو وہ رقص میں ، پتّے ہیں تو رم میں
پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے
ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو
بارش کی ہنسی تال پہ پا زیب جو چھنکائے
انگور کی بیلوں پہ اُتر آئے ستارے
رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے
پروین شاکر

تجھ سے میں شرماؤں یا تو مجھ سے شرمائے ہے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 134
دیکھو محشر میں کس کی بات رکھی جائے ہے
تجھ سے میں شرماؤں یا تو مجھ سے شرمائے ہے
ہجر سے تنگ آنے والے ایسا کیوں گھبرائے ہے
موت سے پہلے کیا تجھے موت آئی جائے ہے
تو نے تڑپایا مجھے دشمن تجھے تڑپائے ہے
میں تو یہ جانوں ہوں جو جیسے کرے ہے پائے ہے
میں کسی سے بولوں چالوں بھی تو ہے میری خطا
کیا بگاڑوں ہوں تری محفل کا کیوں اٹھوائے ہے
ناصحا مجھ سے نہ کہیو یار کے گھر کو نہ جا
میں تری سمجھوں ہوں باتیں کیوں مجھے سمجھائے ہے
غیر کے کہنے پہ مت آ، ٹک مری حالت تو دیکھ
کیا تری محفل سے اٹھوں دل تو بیٹھا جائے ہے
اور بھرنی ہیں تصور میں ابھی رنگینیاں
دردِ دل تھم جا کہ اب تصویر بگڑی جائے ہے
کِن خیالوں سے یہ کاٹے ہے قمر فرقت کی رات
روتا بھی جائے ہے اور تارے بھی گنتا جائے ہے
قمر جلالوی

ظالم تری لگائی ہوئی کو بجھائے کون

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 55
سوزِ غمِ فراق سے دل کو بچائے کون
ظالم تری لگائی ہوئی کو بجھائے کون
مٹی مریضِ غم کی ٹھکانے لگائے کون
دنیا تو ان کے ساتھ ہے میت اٹھائے کون
تیور چڑھا کے پوچھ رہے ہیں وہ حالِ دل
رودادِ غم تو یاد ہے لیکن سنائے کون
ہم آج کہہ رہے ہیں یہاں داستانِ قیس
کل دیکھئے ہمارا فسانہ سنائے کون
اے ناخدا، خدا پہ مجھے چھوڑ کر تو دیکھ
ساحل پہ کون جا کے لگے ڈوب جائے کون
رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمر
اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون
قمر جلالوی

پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 57
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع
اس تیرہ روزگار میں مجھ سا جگر گداز
مشعل جلا کے ڈھونڈے اگر تو نہ پائے شمع
پروانے کیا خجل ہوئے دیکھا جو صبح کو
تھا شب کو اس کی بزم میں خورشید جائے شمع
اُس رشکِ شمع و گُل کی ہے کچھ آب و تاب اور
دیکھے ہیں جلوہ ہائے گل و شعلہ ہائے شمع
دیتی ہے اور گرمئ پروانہ داغِ اشک
شب ہائے ہجر میں کوئی کیونکر جلائے شمع
کیا حاجت آفتاب کے گھر میں چراغ کی
ہے حکم شب کو بزم میں کوئی نہ لائے شمع
اُس لعلِ بے بہا سے کہاں تابِ ہمسری
روشن ہے سب پہ قیمتِ گُل اور بہائے شمع
خورشید جس کے جلوہ سے ہو شمعِ صبح دم
کیا ٹھہرے اس کے سامنے نور و ضیائے شمع
اس تیرہ شب میں جائیں گے کیونکر عدو کے گھر
میرا رقیب وہ ہے جو ان کو دکھائے شمع
آتے ہیں وہ جو گور پہ میری تو بہرِ زیب
کوئی نہ پھول لائے نہ کوئی منگائے شمع
گُل پر لگا کے آپ سے پہنچیں گے بے طلب
آئے گی اپنے پاؤں سے یاں بن بلائے شمع
ڈر ہے اُٹھا نہ دے کہیں وہ بزمِ عیش سے
کیا تاب ہے کہ شیفتہ آنسو بہائے شمع
مصطفٰی خان شیفتہ

ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئے، میں نہیں گِنتا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 8
ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا
ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئے، میں نہیں گِنتا
بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا
لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا
وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں
وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے میں نہیں گِنتا
بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں
مرے لمحوں نے کتنے غم بُھلائے میں نہیں گِنتا
تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا مجھ سے
انہیں تُو موج اندر موج لائے میں نہیں گِنتا
وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک
تھے سب باشندہء کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا
جون ایلیا

دعوئ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 281
عرضِ نازِ شوخئِ دنداں برائے خندہ ہے
دعوئ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یک جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے
سوزشِ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 165
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر @ ہمیں اُٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں؟
دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
@ کوئی۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ

دیوان ششم غزل 1868
ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ
پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ
خوبی و رعنائی ادھر بدحالی و خواری ادھر
اے وائے ہم اے وائے ہم اے ہائے وہ اے ہائے وہ
مارا ہوا چاہت کا جو آوارہ گھر سے اپنے ہو
حیراں پریشاں پھر کے پھر کیا جانے کیدھر جائے وہ
جی کتنا محو و رفتہ کا جو ہو طرف دیکھے تجھے
تو کج کرے ابرو اگر پل مارتے مرجائے وہ
الفت نہیں مجھ سے اسے کلفت کا میری غم نہیں
پاے غرض ہو درمیاں تو چل کے یاں بھی آئے وہ
عاشق کا کتنا حوصلہ یہ معجزہ ہے عشق کا
جو خستہ جاں پارہ جگر سو داغ دل پر کھائے وہ
مشکل عجائب میر ہے دیدار جوئی یار کی
دیکھے کوئی کیا اس کو جو آنکھیں لڑے شرمائے وہ
میر تقی میر

یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے

دیوان پنجم غزل 1766
درد و غم سے دل کبھو فرصت نہ پائے
یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے
طفل تہ بازار کا عاشق ہوں میں
دل فروشی کوئی مجھ سے سیکھ جائے
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
کب تلک چاک قفس سے جھانکیے
برگ گل یاں بھی صبا کوئی تو لائے
کب سے ہم کو ہے تلاش دست غیب
تا کمر پیچ اس کا اپنے ہاتھ آئے
اس کی اپنی بنتی ہی ہرگز نہیں
بگڑی صحبت ایسی کیا کوئی بنائے
جو لکھی قسمت میں ذلت ہو سو ہو
خط پیشانی کوئی کیونکر مٹائے
داغ ہے مرغ چمن پائیز سے
دل نہ ہو جلتا جو اس کا گل نہ کھائے
زخم سینہ میرا اس کے ہاتھ کا
ہو کوئی رجھواڑ تو اس کو رجھائے
میر اکثر عمر کے افسوس میں
زیر لب بالاے لب ہے ہائے وائے
میر تقی میر

یکسر ان نامردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے

دیوان پنجم غزل 1750
عشق اگر ہے مرد میداں مرد کوئی عرصے میں لائے
یکسر ان نامردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے
کار عدالت شہر کا ہم کو اک دن دو دن ہووے تو پھر
چاروں اور منادی کریے کوئی کسی سے دل نہ لگائے
پر کے اسیر دام ہوئے تھے نکلے ٹوٹی شکن کی راہ
اب کے دیکھیں موسم گل کا کیسے کیسے شگوفے لائے
بھوکے مرتے مرتے منھ میں تلخی صفرا پھیل گئی
بے ذوقی میں ذوق کہاں جو کھانا پینا مجھ کو بھائے
گھر سے نکل کر کھڑے کھڑے پھر جاتا ہوں میں یعنی میر
عشق و جنوں کا آوارہ حیران پریشاں کیدھر جائے
میر تقی میر

جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے

دیوان پنجم غزل 1744
اس مغرور کو کیا ہوتا ہے حال شکستہ دکھائے سے
جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے
کیسا کیسا ہوکے جدا پہلو سے اس بن تڑپا ہے
کیا پوچھو ہو آئی قیامت سر پر دل کے لگائے سے
یمن تجرد سے میں اپنے روز جہاں سے گذرتا ہوں
وحشت ہے خورشید نمط اپنے بھی مجھ کو سائے سے
ہر کوے و ہر برزن میں یا پہر پہر وہ جویاں تھا
یا اب ننگ اسے آتا ہے پاس ہمارے آئے سے
ایک جراحت کیا تسکیں دے موت کے بھوکے صید کے تیں
شاید دل ہو تسلی اس کا زخم دگر کے کھائے سے
رنج و عنا پر درد و بلا پر صبر کیے ہم بیٹھے ہیں
کلفت الفت جاتی رہی کیا جور و ستم کے اٹھائے سے
اول تو آتے ہی نہیں ہو اور کبھو جو آتے ہو
نیچی آنکھیں کیے پھرتے ہو مجلس میں شرمائے سے
جھگڑا ناز و نیاز کا سن کر بے مزہ ہم سے تم تو ہوئے
میر سخن کو طول نہ دو بس بات بڑھے ہے بڑھائے سے
میر تقی میر

یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا

دیوان سوم غزل 1062
وہ دل نہیں رہا ہے تعب جو اٹھائے گا
یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا
اب یہ نظر پڑے ہے کہ برگشتہ وہ مژہ
کاوش کرے گی ٹک بھی تو سنبھلا نہ جائے گا
کھینچا جو میں وہ ساعد سیمیں تو کہہ اٹھا
بس بس کہیں ہمیں ابھی صاحب غش آئے گا
ریجھے تو اس کے طور پہ مجلس میں شیخ جی
پھر بھی ملا تو خوب سا ان کو رجھائے گا
جلوے سے اس کے جل کے ہوئے خاک سنگ و خشت
بیتاب دل بہت ہے یہ کیا تاب لائے گا
ہم رہ چکے جو ایسے ہی غم میں کھپا کیے
معلوم جی کی چال سے ہوتا ہے جائے گا
اڑ کر لگے ہے پائوں میں زلف اس کی پیچ دار
بازی نہیں یہ سانپ جو کوئی کھلائے گا
اڑتی رہے گی خاک جنوں کرتی دشت دشت
کچھ دست اگر یہ بے سر و ساماں بھی پائے گا
درپے ہے اب وہ سادہ قراول پسر بہت
دیکھیں تو میر کے تئیں کوئی بچائے گا
میر تقی میر

پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 17
کوئی تہمت لگا کر وہ تمہیں مجرم بنائے گا
پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
میاں ، اس اشتہاروں کی دکاں میں جو نہیں وہ ہے
یہ آنکھیں ہار جائیں گی، تماشا جیت جائے گا
برابر ہی چھڑا دے گی بالآخر مصلحت ہم کو
میں تجھ کو آزماؤں گا تو مجھ کو آزمائے گا
مگر رکھنی ہے اپنے حوصلے کی آبرو تو نے
مجھے معلوم ہے تو زخم کھا کر مسکرائے گا
زرِ گم نام کو پھر ڈھونڈھ کر آثارِ فردا میں
زمانہ دیر تک میرے لئے آنسو بہائے گا
آفتاب اقبال شمیم

فرد فرد

عرفان صدیقی ۔ فرد فرد
اب خدا چاہے تو کچھ اور ہوا چاہتا ہے
آج تک تو وہ ہوا ہے جو عدو نے چاہا
خدا نے ذہن میں لفظ و بیاں کو بھیج دیا
جو کچھ کمایا تھا میں نے سو ماں کو بھیج دیا

غزال آتے بھی ہیں زیر دام جانتا ہوں
مگر یہ رزق میں خود پر حرام جانتا ہوں

شہر نے اُمید کی چادر اوڑھی دُور اذان شام ہوئی
سوچ کی کہنہ سرائے میں روشن مشعل بام ہوئی

میرے انکار پرستش نے بچایا ہے مجھے
سر جھگا دوں تو ہر انسان خدا ہو جائے

کون پاگل اپنا سر دینے کی سرشاری میں ہے
فائدہ تو صرف اعلان وفاداری میں ہے

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہوتا
نہ ہوا ورنہ یہ نظارہ غضب کا ہوتا

میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا

غزل میں ہم سے غم جاں بیاں کبھی نہ ہوا
تمام عمر جلے اور دھواں کبھی نہ ہوا

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہو گا
کبھی ہو گا تو یہ نظارہ غضب کا ہو گا

ہوا کے ہاتھ میں رکھ دی کسی نے چنگاری
تمام شہر اسے حادثہ سمجھتا رہا

کوئے قاتل کو تماشا گاہ سمجھا ہے حریف
کشتنی میری رقابت میں یہاں بھی آگیا

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمت سفر بدل دیں ہم

اس کا پندار رہائی نہیں دیتا اس کو
نقش دیوار دکھائی نہیں دیتا اس کو

میں اک دعا ہوں تو دروازہ آسمان کا بھی کھول
اور اک نوا ہوں تو حسن قبول دے مجھ کو

سوچتے سوچتے زندگی کٹ گئی اس نے چاہا مجھے
وہم بھی ایک شئے ہے مگر اس کے لیے کچھ قرینہ تو ہو

وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں

شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں

مری غزل کا یہ مضموں بدلنے والا نہیں
وہ ملنے والا نہیں، دل سنبھلنے والا نہیں

میں بھی تنہائی سے ڈرتا ہوں کہ خاکم بدہن
آدمی کوئی خدا ہے، کہ اکیلا رہ جائے

حکم یہ ہے کہ مجھے دشت کی قیمت دی جائے
میرے زنداں کے در و بام کو وسعت دی جائے

موتیوں سے منہ بھرے دیکھو تو یہ مت پوچھنا
لوگ کیوں چپ ہو گئے تاب سخن ہوتے ہوئے

آگ میں رقص کیا، خاک اُڑا دی ہم نے
اب کے تو شہر میں اک دھوم مچا دی ہم نے
آگ میں رقص کیا خاک اُڑا دی ہم نے
موج میں آئے تو اک دھوم مچا دی ہم نے

دل اک تپش میں پگھلتا رہے تو اچھا ہے
چراغ طاق میں جلتا رہے تو اچھا ہے

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچاتے تو زیاں نام و نسب کا ہوتا

موج خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا

کبھی طلب ہی نہ کی دوستوں سے قیمت دل
سو کاروبار میں ہم کو زیاں کبھی نہ ہوا

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچائیں تو زیاں نام و نسب کا ہو گا

بجا حضور، یہ ساری زمین آپ کی ہے
میں آج تک اسے ملک خدا سمجھتا رہا

میں نے تو اپنے ہی بام جاں پہ ڈالی تھی کمند
اتفاقاً اس کی زد میں آسماں بھی آگیا

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم

کیا کسی خواب میں ہوں میں تہہ خنجر کہ یہاں
چیختا ہوں تو سنائی نہیں دیتا مجھ کو
نہ گرم دوستیاں ہیں نہ نرم دشمنیاں
میں بے اصول ہوں کوئی اصول دے مجھ کو

ہم ہوا کے سوا کچھ نہیں اس پہ یہ حوصلہ دیکھئے
آدمی ٹوٹنے کے لیے کم سے کم آبگینہ تو ہو

مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں

شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں

لہو میں لو سی بھڑکنے لگی، میں جانتا ہوں
کہ یہ چراغ بہت دیر جلنے والا نہیں

دل افسردہ کے ہر سمت ہے رشتوں کا ہجوم
جیسے انسان سمندر میں بھی پیاسا رہ جائے

کب تلک کوئی کرے حلقۂ زنجیر میں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہو تو اجازت دی جائے

اب بدن سے موج خوں گزری تو اندازہ ہوا
کیا گزر جاتی ہے صحرا پہ چمن ہوتے ہوئے

درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم ہی دنیا سے اُٹھا دی ہم نے
درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم بہرحال اُٹھا دی ہم نے

وہ عشق ہو کہ ہوس ہو مگر تعلق کا
کوئی بہانہ نکلتا رہے تو اچھا ہے
عرفان صدیقی

پھر اک کرن اسی کوچے میں لے کے جائے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 292
پھر ایک جھونکا وہاں سے لگا کے لائے مجھے
پھر اک کرن اسی کوچے میں لے کے جائے مجھے
صدا کی لہر کسی اور شہر تک لے جائے
کچھ اور بات ہو کچھ اور یاد آئے مجھے
اسی کا خانۂ ویراں، اسی کا طاقِ ابد
میں اک چراغ ہوں چاہے جہاں جلائے مجھے
یہ اس کا دل ہے کہ گم گشتگاں کی بستی ہے
کہاں چھپا ہوں کہ وہ بھی نہ ڈھونڈ پائے مجھے
اب اس کے آگے تو گرداب ہے خموشی کا
میں لفظ بھول رہا ہوں کوئی بچائے مجھے
عرفان صدیقی

کوئی اپنے دئیے جلائے کہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 402
شب کہیں اور شب کے سائے کہیں
کوئی اپنے دئیے جلائے کہیں
ہے کہیں انتظارِ گاہِ حیات
اور ہے موت کی سرائے کہیں
کانچ سے بھی زیادہ نازک ہے
سنگ دل ، دل تو آزمائے کہیں
شخصیت کا یہ خول رہنے دے
میری رائے بدل نہ جائے کہیں
ہرطرف راستے ہیں گلیاں ہیں
گھر کوئی بھی نظر نہ آئے کہیں
جاگ اٹھیں نہ رات کی آنکھیں
کوئی سایہ سا سرسرائے کہیں
دونوں عالم کو خوف ہے منصور
خاک کا دل نہ ٹوٹ جائے کہیں
منصور آفاق

اک یہ لپکا دیکھئے کب جائے گا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 41
ذوق سب جاتے رہے جز ذوق درد
اک یہ لپکا دیکھئے کب جائے گا
عیب سے خالی نہ واعظ ہے نہ ہم
ہم پہ منہ آئے گا منہ کی کھائے گا
باغ و صحرا میں رہے جو تنگ دل
جی قفس میں اس کا کیا گھبرائے گا
الطاف حسین حالی

روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 239
روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے
روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے
کوئی تا حد تصور بھی نہیں
کون یہ زنجیر در کھڑکائے ہے
تیرے افسانے میں ہم شامل نہیں
بات بس اتنی سمجھ میں آئے ہے
وسعت دل تنگی جاں بن گئی
زخم اک تازیست پھیلا جائے ہے
جھوم جھوم اٹھی صبا کے دھیان میں
کتنی مشکل سے کلی مرجھائے ہے
زندگی ہر رنگ میں ہے اک فریب
آدمی ہرحال میں پچھتائے ہے
گاہ صحرا سے ملے پانی کی موج
گاہ دریا بھی ہمیں ترسائے ہے
میری صورت تو کبھی ایسی نہ تھی
آئنہ کیوں دیکھ کر شرمائے ہے
باقیؔ اس احساس کا کوئی علاج
دل وہیں خوش ہے جہاں گھبرائے ہے
باقی صدیقی

راہرو کوئی نہ ٹھوکر کھائے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 29
ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے
راہرو کوئی نہ ٹھوکر کھائے
زندگی حرف غلط ہی نکلی
ہم نے معنی تو بہت پہنائے
دامن خواب کہاں تک پھیلے
ریگ کی موج کہاں تک جائے
تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے
اونچی دیوار کے لمبے سائے
بند کلیوں کی ادا کہتی ہے
بات کرنے کے ہیں سو پیرائے
بام و در کانپ اٹھے ہیں باقیؔ
اس طرح جھوم کے بادل آئے
باقی صدیقی

آئے مرے غمگسار آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 27
بولے منہ سے نہ مسکرائے
آئے مرے غمگسار آئے
دامن بھی نہ ہو جسے میسر
زخموں کو وہ کس طرح چھپائے
عنوان حیات بن گئے ہیں
جو تیری نظر نے گل کھلائے
ہے فرصت زہر خند کس کو
پھولوں کو صبا نہ گدگدائے
زخموں کو وہ چھیڑتے ہیں باقیؔ
لب پر کوئی بات آ نہ جائے
باقی صدیقی