ٹیگ کے محفوظات: ثانی

مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی
یہاں اِک شہر تھا شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
میں وہ دل ہوں دبستانِ اَلم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لامکانی
خیالوں ہی میں اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اِک دنیا سہانی
ہجومِ نشہِ فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
بتا اے ظلمتِ صحرائے اِمکاں
کہاں ہو گا مرے خوابوں کا ثانی
اندھیری شام کے پردوں میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اُترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جاتے ہیں اوراقِ خزانی
نئی دُنیا کے ہنگاموں میں ناصر
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
ناصر کاظمی

یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
دُھوئیں کی دُھول کی ہر سمت ہے وُہ طغیانی
یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی
بہ دوشِ ابر بھی کب اِس قدر فراواں ہے
رُکا ہوا پسِ مژگاں ہے جس قدر پانی
وفا و قرض کے مکر و ریا کے پتّوں سے
چھپائے آج بھی انسان تن کی عُریانی
یہاں ہے جو بھی شہِ وقت، سوچتا ہے یہی
نہیں ہے اُس کا تہِ آسماں کوئی ثانی
غزل سرا ہوں کہ ماجدؔ طوالتِ شب میں
ادا کرے ہے یہی فرض رات کی رانی
ماجد صدیقی

یار لوگوں کی زبانی اور ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 144
ہم سنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
چارہ گر روتے ہیں تازہ زخم کو
دل کی بیماری پرانی اور ہے
جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا
ترجماں کی ترجمانی اور ہے
ہے بساطِ دل لہو کی اک بوند
چشمِ پر خوں کی روانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے سنانی اور ہے
آبِ زمزم دوست لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں‌ وہ پانی اور ہے
سب قیامت قامتوں کو دیکھ لو
کیا مرے جاناں کا ثانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تری سادہ بیانی اور ہے
احمد فراز

جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 51
اس دورِ بے جنوں کی کہانی کوئی لکھو
جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو
کوئی کہو کہ ہاتھ قلم کس طرح ہوئے
کیوں رک گئی قلم کی روانی کوئی لکھو
کیوں اہلِ شوق سر بگریباں ہیں دوستو
کیوں خوں بہ دل ہے عہدِ جوانی کوئی لکھو
کیوں سرمہ در گلو ہے ہر اک طائرِ سخن
کیوں گلستاں قفس کا ہے ثانی، کوئی لکھو
ہاں تازہ سانحوں کا کرے کون انتظار
ہاں دل کی واردات پرانی کوئی لکھو
احمد فراز

کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 236
دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے
کیوں نہ ہو بے التفاتی ، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے
میرے غمخانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی ، مجھے
بدگماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا ، کاشکے!
اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے
وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟
ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری ، واہ واہ !
پھر ہُوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے
دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نَو زندگی
میرزا یوسف ہے ، غالب ! یوسفِ ثانی مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

دیوان دوم غزل 949
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی
مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی
کرکے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے
وہ نظر پائوں پہ وہ بات دوانی اس کی
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرور خوبی
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی
سرگذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار
کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی
میر تقی میر