ٹیگ کے محفوظات: تیرگی

سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ

بے خودی سی ہے بے خودی! توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ذہن و دل پر ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ
دُکھ کا احساس ہے نہ فِکر نشاط
پینے والوں کی آگہی! توبہ
ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑ دی میں نے مے کشی توبہ
اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لُطفِ ظاہری توبہ
ہے تمھی سے شکستِ دل کا گِلہ
میری اُلفت کی سادگی توبہ
ایک ہے شمع، لاکھ پروانے
تیرگی سی ہے تیرگی! توبہ
کتنے دل خون ہو گئے ہوں گے
ان کی آنکھوں میں ہے نمی توبہ
رازِ غم پا گئے ہیں لوگ، شکیبؔ
ہنسنے والوں کی بے کسی توبہ
شکیب جلالی

کچھ اور بات کرو ہم سے شاعری کے سوا

ہنر کے، حسن کے، خواب اور آگہی کے سوا
کچھ اور بات کرو ہم سے شاعری کے سوا
وہ اک خیال جسے تم خدا سمجھ رہے ہو
اس اک خیال میں ہے کیا ہمیشگی کے سوا
یہ زندگی جو ہے، اس روشنی کی قدر کرو
کہ اس کے بعد نہیں کچھ بھی تیرگی کے سوا
لہو کا رنگ ہے، ایسا لہو جو جم گیا ہو
کچھ اور رنگ ہو دل کا بنفشئی کے سوا
یہ بات مان لے پیارے کہ تیرے دل کا نہیں
کوئی بھی کام لہو کی فراہمی کے سوا
ہم اور کچھ بھی نہیں چاہتے سوائے ترے
کمی بھی کوئی نہیں ہے تری کمی کے سوا
یہ کام وہ نہیں فرصت پہ جو اٹھا رکھو
کوئی بھی وقت نہیں عشق کا، ابھی کے سوا
عرفان ستار

یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 59
خوشی کی آسر دلا کے خوشی نہیں دیتے
یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
ذرا سی دھوپ کھلے کشتِ اس پر میں جیسے
یہ قہقہے بھی کچھ آسودگی نہیں دیتے
وہ مانگتے ہیں وہ اہلیتیں جو ہم میں نہیں
اسی لئے تو ہمیں نوکری نہیں دیتے
ہمیشہ رکھتے ہیں روشن ستارہ ایک نہ ایک
وہ میری شب کو بہت تیرگی نہیں دیتے
بنا تو سکتے ہیں ہم بھی زمیں پہ خلد مگر
یہ اختیار ہمیں آدمی نہیں دیتے
اسی لئے ہمیں مرنا پڑا، کہ اہلِ جفا
محبتوں میں رعایت کبھی نہیں دیتے
آفتاب اقبال شمیم