منصور آفاق ۔ غزل نمبر 362
جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں
ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں
ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں
یہ انگلیاں اپنی، کسی بت گر کی طرح ہیں
کیا چھاؤں کی امید لیے آئے گا کوئی
ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں
الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے
ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں
جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے
ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں
حیرت بھری نظروں کے لیے جیسے تماشا
ہم گاؤں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں
یہ بینچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند
یہ پارک بھی اپنے لیے دلبر کی طرح ہیں
پیاسوں سے کہو آئیں وہ سیرابیِ جاں کو
ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں
منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخِ فلک کے
مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں
منصور آفاق