ٹیگ کے محفوظات: تہی

ہم میں ہے جو اِس قدر بھی سادگی اچّھی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
جنگلوں میں میش کی سی بے بسی اچّھی نہیں
ہم میں ہے جو اِس قدر بھی سادگی اچّھی نہیں
دل میں تُو اہلِ ریا کے بیج چاہت کے نہ بو
اِس غرض کو یہ زمیں ہے بُھربھُری،اچّھی نہیں
ہر سفر ہے آن کا بَیری اور اُس کے سامنے
اور جو کچھ ہو سو ہو پہلو تہی اچّھی نہیں
ظرفِ انساں ہی کے سارے رنگ ہیں بخشے ہوئے
چیز اپنی ذات میں کوئی بُری، اچّھی نہیں
ہو کے رہ جاتی ہے اکثر یہ عذابِ جان بھی
ہوں جہاں اندھے سبھی، دیدہ وری اچّھی نہیں
کچھ دنوں سے تجھ کو لاحق ہے جو ماجدؔ دمبدم
جان لے مشکل میں ایسی بے دلی اچّھی نہیں
ماجد صدیقی

حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
چہرے یہ اشتہار سا اِک بے بسی کا تھا
حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا
جیسے چمن سے موسمِ گُل روٹھنے لگے
منظر وہ کیا عجیب تری بے رُخی کا تھا
ہر بات پر ہماری تأمّل رہا اُسے
کھٹکا عجیب اُس کو کسی اَن کہی کا تھا
شکوہ ہی کیا ہو تجھ سے عدم ارتباط کا
ہم سے ترا سلوک ہی پہلو تہی کا تھا
نسبت کسی بھی ایک چمن سے نہ تھی ہمیں
ماجدؔ کچھ ایسا ذوق ہمیں تازگی کا تھا
ماجد صدیقی

تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں‌ کمی نہ کرنا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 10
ستم ہے کرنا جفا ہے کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں‌ کمی نہ کرنا
ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں‌ یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
لیئے تو چلتے ہیں‌حضرت دل تمہیں بھی اس انجمن میں‌لیکن
ہمارے پہلو میں‌بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
نہیں ہے کچھ قتل انکا آسان یہ سخت جان ہیں‌ بڑے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنے خوشی نہ کرنا
داغ دہلوی

پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے

دیوان سوم غزل 1282
صدگونہ عاشقی میں ہم نے جفا سہی ہے
پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے
کرتی پھری ہے رسوا سارے چمن میں مجھ کو
گر کوئی بات دل کی بلبل سے میں کہی ہے
ہے صبح کا سا عرصہ پیری کا اس میں کیا ہو
باقی ہے وقت کتنا فرصت کہاں رہی ہے
درویش جب ہوئے ہم تب ہے ہمیں برابر
کشکول بازگوں ہے یا افسرشہی ہے
جیتے رہے بہت ہم جو یہ ستم اٹھائے
عمر دراز کی سب تقصیر و کوتہی ہے
رونے میں متصل ہے ہونٹوں پہ آہ میری
جاتا نہیں ہے سمجھا یہ بائو کیا بہی ہے
آزار عاشقی میں کاہے کی پھر توقع
ہوجائے یاس جس سے سو رنج یہ وہی ہے
روتا ہمیں نظر کر رہنا کیے کنارہ
چڑھنا ہمارے منھ پہ دریا کی بے تہی ہے
چلاہٹ اس طرح کی جز میر کس سے ہووے
باور نہ ہو تو دیکھو یہ ہو نہ ہو وہی ہے
میر تقی میر

آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 105
تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا
آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا
میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو،وہی پیغمبری کرتا رہا
نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا
کھول کر رنگوں بھرے سندر پرندوں کے قفس
میں بہشتِ دید کے ملزم بری کرتا رہا
جانتا تھا باغِ حیرت کے وہی ساتوں سوال
اک سفر تھا میں جسے بس ملتوی کرتا رہا
تھی ذرا سی روشنی سواحتیاطً بار بار
پوٹلی میں بند پھر میں پوٹلی کرتا رہا
سارادن اپنے کبوتر ہی اڑاکردل جلا
آسماں کا رنگ کچھ کچھ کاسنی کرتا رہا
دیدہ ء گرداب سے پہچان کر بحری جہاز
اک سمندرگفتگو کچھ ان کہی کرتا رہا
دشت میں موجودگی کے آخری ذرے تلک
ریت کا ٹیلاہوا سے دوستی کرتا رہا
رات کی آغوش میں گرتے رہے ، بجھتے رہے
میں کئی روشن دنوں کی پیروی کرتا رہا
اپنی ہٹ دھرمی پہ خوش ہوں اپنی ضد پر مطمئن
جو مجھے کرنا نہیں تھا میں وہی کرتا رہا
میں کہ پانچوں کا ملازم میں کہ چاروں کا غلام
حسبِ فرمانِ خدا ، وردِ نبیﷺ کرتا رہا
منصور آفاق