ٹیگ کے محفوظات: تہمت

حیراں ہوئے بغیر اِسے مت عبورنا

آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عبورنا
حیراں ہوئے بغیر اِسے مت عبورنا
میرے خلاف کوئی بھی بکتا رہے مگر
سیکھا ہے میں نے سرحدِ تُہمت عبورنا
صد آفریں! خیال تو اچّھا ہے واقعی
آنکھوں کو بند کرکے محبّت عبورنا
آوارگانِ عشق! ذرا احتیاط سے
وحشت کے بعد لذّتِ شہوت عبورنا!!
تعمیرِ ماہ و سال میں تاخیر کے بغیر
کس کو روا ہے عرصۂ مُہلت عبورنا؟
جُزوِ بدن بنے گا تو باہر بھی آئے گا
یہ زخم تھوڑی دیر سے حضرت! عبورنا
افتخار فلک

سرِ بزم پہلو میں بیٹھا ہے دشمن قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 138
کسی نو گرفتارِ الفت کے دل پر یہ آفت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
سرِ بزم پہلو میں بیٹھا ہے دشمن قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
عدو کی شکایت سنے جا رہے ہو نہ برہم طبیعت نہ بل ابروؤں پر
نظر نیچی نیچی لبوں پر تبسم محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
مری قبر ٹھوکر سے ٹھکرا رہا ہے پسِ مرگ ہوتی ہے برباد مٹی
ترے دل میں میری طرف سے سِتمگر کدورت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
بتِ خود نما اور کیا چاہتا ہے تجھے اب بھی شک ہے خدا ماننے میں
ترے سنگِ در پر جبیں میں نے رکھ دی عبادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
رقیبوں نے کی اور تمھاری شکایت خدا سے ڈرو جھوٹ کیوں بولتے ہو
رقیبوں کے گھر میرا آنا نہ جانا یہ تہمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کبھی ہے جگر میں خلش، ہلکی ہلکی، کبھی درد پہلو میں ہے میٹھا میٹھا
میں پہروں شبِ غم یہی سوچتا ہوں محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کوئی دم کا مہماں ہے بیمارِ فرقت تم ایسے میں بیکار بیٹھے ہوئے ہو
پھر اس پر یہ کہتے ہو فرصت نہیں ہے یہ فرصت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
ترے در پہ بے گور کب سے پڑا ہوں نہ فکرِ کفن ہے نہ سامانِ ماتم
اٹھاتا نہیں کوئی بھی میری میت یہ غربت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
میں ان سب میں اک امتیازی نشان ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے
قمر بزمِ انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
قمر جلالوی

بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب

دیوان ششم غزل 1812
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
کیا کوئی یاری کسو سے کرکے ہووے شاد کام
دوستی ہے دشمنی الفت نہیں کلفت ہے اب
چاہتا ہے درد دل کرنا کسو سے دل دماغ
سو دماغ اپنا ضعیف اور قلب بے طاقت ہے اب
کیونکے دنیا دنیا رسوائی مری موقوف ہو
عالم عالم مجھ پہ اس کے عشق کی تہمت ہے اب
اشک نومیدا نہ پھرتے ہیں مری آنکھوں کے بیچ
میر یہ دے ہے دکھائی جان کی رخصت ہے اب
میر تقی میر

چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی

دیوان چہارم غزل 1533
آج ہمیں بیتابی سی ہے صبر کی دل سے رخصت تھی
چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی
کس محنت سے محبت کی تھی کس خواری سے یاری کی
رنج ہی ساری عمر اٹھایا کلفت تھی یا الفت تھی
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
راہ کی کوئی سنتا نہ تھا یاں رستے میں مانند جرس
شور سا کرتے جاتے تھے ہم بات کی کس کو طاقت تھی
عہد ہمارا تیرا ہے یہ جس میں گم ہے مہر و وفا
اگلے زمانے میں تو یہی لوگوں کی رسم و عادت تھی
خالی ہاتھ سیہ رو ایسے کاہے کو تھے گریہ کناں
جن روزوں درویش ہوئے تھے پاس ہمارے دولت تھی
جو اٹھتا ہے یاں سے بگولا ہم سا ہے آوارہ کوئی
اس وادی میں میر مگر سرگشتہ کسو کی تربت تھی
میر تقی میر

چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے

دیوان دوم غزل 965
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے
نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد
موسم گل رہے جب تک مجھے مہلت دیجے
خوار و خستہ کئی پامال تری راہ میں ہیں
کیجیے رنجہ قدم ان کو بھی عزت دیجے
اپنے ہی دل کا گنہ ہے جو جلاتا ہے مجھے
کس کو لے مریے میاں اور کسے تہمت دیجے
چھوٹے ہیں قید قفس سے تو چمن تک پہنچیں
اتنی اے ضعف محبت ہمیں طاقت دیجے
مر گیا میر نہ آیا ترے جی میں اے شوخ
اپنے محنت زدہ کو بھی کبھی راحت دیجے
میر تقی میر

ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 93
وقت کے ساتھ بدلنے کی جنہیں عادت ہو
ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
جیسے دیوار میں در وقفۂ آزادی ہے
کیا خبر جبر و ارادہ میں وہی نسبت ہو
روزمرہ کے مضافات میں ہم گھوم آئیں
اتنی فرصت ہو، مگر اتنی کسے فرصت ہو
آدمی روز کی روٹی پہ ہی ٹل جاتا ہے
اور بیچارے پہ کیا اِس سے بڑی تہمت ہو
ایک رفتار میں یوں وقفہ بہ وقفہ چلنا
کیا عجب، وقت کو چلنے میں کوئی دقّت ہو
سرخ منقار کا میں سبز پرندہ تو نہیں
کیوں نہ تکرار کی خُو میرے لئے زحمت ہو
آفتاب اقبال شمیم