ٹیگ کے محفوظات: تھی

ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے

ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے
ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے
ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں
یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے
ہمارے خانہءِ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ
یہ اور بات کہ ہر شے اُسی ملال کی ہے
ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر
کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی، ملال کی ہے
کسی کا رنج ہو، اپنا سمجھنے لگتے ہیں
وبالِ جاں یہ کشادہ دلی ملال کی ہے
نہیں ہے خواہشِ آسودگیءِ وصل ہمیں
جوازِ عشق تو بس تشنگی ملال کی ہے
گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا
کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے
رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیلِ جنوں
اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے
عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی
ابھی خوشی کی خوشی تھی، ابھی ملال کی ہے
یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے بادِ مُراد؟
خبر نہیں ہے اِسے، یہ گھڑی ملال کی ہے
دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی
کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے
تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفان
درُونِ رمز و کنایہ کمی ملال کی ہے
عرفان ستار

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں

گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں
جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں
تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں
کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں
جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں
اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں
بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں
اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں
میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں
نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ زندگی تو ہے مگر مرے مزاج کی نہیں
ترا سلوک مجھ کو یہ بتا رہا ہے آج کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں
کوئی تو شعر ہو وفور و کیفیت میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں
تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں
قبائے رنگ سے اُدھر بلا کا اک طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں
تمام زاویوں سے بات کر چکا، تو پھر کھُلا
یہ عشق وارداتِ قلب ہے جو گفتنی نہیں
کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ التفات جھیلنے کی تاب ہی نہیں
ہجومِ بد کلام جا رہا ہے دوسری طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں
مری غزل پہ داد دے رہے ہو، تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں
مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں
سنو بغور یہ غزل، کہ پھر بہت سکوت ہے
اگرچہ لگ رہا ہے یہ غزل بھی آخری نہیں
عرفان ستار

چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں تھی پلٹ آئی
تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی پلٹ آئی
خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی
کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اِتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی
ناصر کاظمی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

آج تو بے سبب اُداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دُنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رُسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی
آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی
ایک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
تو جو اِتنا اُداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
ناصر کاظمی

ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 98
ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے
ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے
ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں
یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے
ہمارے خانہءِ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ
یہ اور بات کہ ہر شے اُسی ملال کی ہے
ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر
کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی، ملال کی ہے
کسی کا رنج ہو، اپنا سمجھنے لگتے ہیں
وبالِ جاں یہ کشادہ دلی ملال کی ہے
نہیں ہے خواہشِ آسودگیءِ وصل ہمیں
جوازِ عشق تو بس تشنگی ملال کی ہے
گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا
کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے
رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیلِ جنوں
اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے
عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی
ابھی خوشی کی خوشی تھی، ابھی ملال کی ہے
یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے بادِ مُراد؟
خبر نہیں ہے اِسے، یہ گھڑی ملال کی ہے
دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی
کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے
تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفان
درُونِ رمز و کنایہ کمی ملال کی ہے
عرفان ستار

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 60
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 51
طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 184
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں
ترے لئے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود مرا
سو اپنی بیخ کنی میں کمی نہ کی میں نے
ہیں تیری ذات سے منسوب صد فسانہ ءِ عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے
خراشِ نغمہ سے سینہ چھلا ہوا میرا
فغاں کہ ترک نہ کی نغمہ پروری میں نے
دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب کہ فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوفِ سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرورِ مے پہ بھی غالب رہا شعور مرا
کہ ہر رعایتِ غم ذہن میں رکھی میں نے
غمِ شعور کوئی دم تو مجھ کو مہلت دے
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہدِ تنہا نشینِ مسندِ غم
اور اپنے کربِ انا سے غرض رکھی میں نے
جون ایلیا

یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 139
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں
اے اُمید، اے اُمیدِ نو میداں
مجھ سے میّت تیری اُٹھی ہی نہیں
میں جو تھا اِس گلی کا مست خُرام
اس گلی میں میری چلی ہی نہیں
یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد
اُس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں
تھی جو اِک فاختہ اُداس اُداس
صبح وہ شاخ سے اُڑی ہی نہیں
مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کے میرا جی ہی نہیں
وہ رہتی تھی جو دل محلے میں
وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں
جائیے اور خاک اڑائیں آپ
اب وہ گھر کیا کے وہ گلی ہی نہیں
ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں
جون ایلیا

یاد آئے گی اب تری کب تک

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 80
خون تھوکے گی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک
جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
رہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
پیے جاؤں میں خون ہی کب تک
دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک
جس میں تھا سوزِ آرزو اس کا
شبِ غم وہ ہوا چلی کب تک
بنی آدم کی زندگی ہے عذاب
یہ خدا کو رُلائے گی کب تک
حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک
ہے جہنم جو یاد اب اس کی
وہ بہشتِ وجود تھی کب تک
وہ صبا اس کے بِن جو آئی تھی
وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک
میر جونی! ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک
حالِ صحنِ وجود ٹھیرے گا
تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک
جون ایلیا

کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت

دیوان سوم غزل 1118
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے
سعی کی اے شیخ ہم نے بھی بہت
سب ترے محو دعاے جان ہیں
آرزو اپنی بھی ہے تو جی بہت
رک رہا ہے دیر سے تڑپا نہیں
عشق نے کیوں دل کو مہلت دی بہت
کیوں نہ ہوں دوری میں ہم نزدیک مرگ
دل کو اس کے ساتھ الفت تھی بہت
وہ نہ چاہے جب تئیں ہوتا ہے کیا
جہد کی ملنے میں اپنی سی بہت
کب سنا حرف شگون وصل یار
یوں تو فال گوش ہم نے لی بہت
تھا قوی آخر ملے ہم خاک میں
آسماں سے یوں رہی کشتی بہت
آج درہم کرتے تھے کچھ گفتگو
میر نے شاید کہ دارو پی بہت
میر تقی میر

روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 416
قبر سے تاریک تر جیون گلی چشم توجہ
روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ
چھپ نہیں سکتا خدا اگلی صدی تک آدمی سے
ہے ابھی افلاک پر کچھ سرسری چشم توجہ
وقتِ رخصت دیر تک جاتی ہوئی بس کا تعاقب
دھول میں پھر کھو گئی اشکوں بھری چشم توجہ
آپ جیسی ایک لڑکی پر لکھی ہے نظم میں نے
اک ذرا سی چاہیے بس آپ کی چشم توجہ
وہ اندھیرا تھا کہ میلوں دور چلتی گاڑیوں کی
روشنی کے ساتھ فوراً چل پڑی چشمِ توجہ
بیل بجی مدھم سروں میں در ہوا وا دھیرے دھیرے
اس کو دیکھا اور پھر پتھرا گئی چشمِ توجہ
اپنے چہرے پر سیاہی تھوپ دے منصور صاحب
اس کی ساری نیگرو کی سمت تھی چشم توجہ
منصور آفاق

کیسے سمجھ لیتا میں اپنا ساتھی اس کو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 230
وہ امریکا تھی ہر بات روا تھی اس کو
کیسے سمجھ لیتا میں اپنا ساتھی اس کو
جنگ نہیں ہو سکتی تھی اس بے پرواسے
میں نے فنا ہونا تھا اور بقا تھی اس کو
میرے ساتھ جہاں تھا پھر بھی ہار گیا میں
ایک مقدس ماں کی صرف دعا تھی اس کو
انجانے میں بھیگ گئی تھیں جلتی پلکیں
کچھ کہنے کی اور ضرورت کیا تھی اس کو
اپنے پیٹ پہ پتھر باندھ کے جو پھرتا تھا
بخش دیا ہے ایک سخی نے ہاتھی اس کو
دیکھ کے چہرہ کو منصور کہا پھولوں نے
راس میانوالی کی آب و ہوا تھی اس کو
منصور آفاق