ٹیگ کے محفوظات: تول

پیروں میں زنجیریں ڈالیں ‘ ہاتھوں میں کشکول دیا

دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں ‘ ہاتھوں میں کشکول دیا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے‘ گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا
مجھ سا بے مایہ‘ اپنوں کی اور تو خاطر کیا کرتا
جب بھی ستم کا پَیکاں آیا‘ میں نے سینہ کھول دیا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تونے کس بنجر مٹّی میں من کا امرت ڈول دیا
اشکوں کی اُجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
اُلفت کی میزان میں مَیں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
شکیب جلالی

ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے

لہجے کی حلاوت میں وہ انمول رہا ہے
ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے
وہ حُسن کی خیرات نہ دینے پہ ہے مائل
ہم ہیں کہ سدا ہاتھ میں کشکول رہا ہے
اے ہوش و خرد! وقت نہیں اِذنِ سُخن کا
خاموش! کہ سر چڑھ کے جنوں بول رہا ہے
ہر سمت ہے گھنگھور گھٹا صائقہ بردار
اُور طائرِ فکر اُڑنے کو پر تول رہا ہے
یہ مسندِ انصاف ہے محرومِ بصارت
ہر حرفِ صداقت میں یہاں جھول رہا ہے
آئینے سے نظریں وہ ہٹائیں تو نظر آئے
میں ڈول رہا ہُوں کہ جہاں ڈول رہا ہے
یہ لاش یقیناً کسی سچائی کی ہو گی
جم جم کے ہر اک قطرہِ خُوں بول رہا ہے
ضامنؔ! کوئی ہو گا نہ کبھی گوش بر آواز
یوں زہر سماعت میں جو تُو گھول رہا ہے
ضامن جعفری