ٹیگ کے محفوظات: تمہاری

آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری

پڑھنی تھی کتابِ زیست ساری
آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری
تھی آج تو بات ہی کچھ اور
تصویر اُتارتے تمہاری
ہیں چار طرف کے راستے بند
گزرے گی یہاں سے اک سواری
خوش ہو گئے دو گھڑی کچھ یار
سُبکی تو بہت ہوئی ہماری
ثابت کرو اپنے دعوے باصرِؔ
شیخی تو جناب نے بگھاری
باصر کاظمی

جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 151
اُن لوگوں سے اب کے سانجھ ہماری ہے
جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے
جو بولے در کھولے خود پر پھندوں کا
کچھ کہنے میں ایک یہی لاچاری ہے
اپنا اک اک سانس بھنور ہے دریا کا
اپنا اک اک پل صدیوں پر بھاری ہے
اوّل اوّل شور دھماکے پر تھا بہت
دشت میں اُس کے بعد خموشی طاری ہے
طوفاں سے ٹکرانا بِن اندازے کے
یہ تو اپنے آپ سے بھی غدّاری ہے
ہر مشکل کے آگے ہو فرہاد تمہی
ماجِدؔ صدّیقی کیا بات تمہاری ہے
ماجد صدیقی

کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 132
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں‌ مسلسل تو دل نہیں‌ روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے
کہ تیر بن کے جسے حرفِ غمگساری لگے
ہماری پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
احمد فراز

اگبور میں جو شام گزاری نہیں بھولے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 126
وہ شکل وہ لالے کی سی کیاری نہیں بھولے
اگبور میں جو شام گزاری نہیں بھولے
صورت تھی کہ ہم جیسے صنم ساز بھی گم تھے
مورت تھی کہ ہم جیسے پجاری نہیں‌ بھولے
اب اس کا تغافل بھی گوارا کہ ابھی تک
ہم ترکِ ملاقات کی خواری نہیں بھولے
یاروں کی خطاؤں پہ نظر ہم نے نہ رکھی
اور یار کوئی بھول ہماری نہیں بھولے
خلعت کے لئے حرف کا سودا نہیں کرتے
کچھ لوگ ابھی وضع ہماری نہیں بھولے
دانے کی ہوس لا نہ سکی دام میں مجھ کو
یہ میری خطا میرے شکاری نہیں بھولے
ہم اپنے تئیں لاکھ زِخود رفتہ ہوں لیکن
یوں ہے کہ کوئی بات تمہاری نہیں ‌بھولے
اک لبعتِ ہندی نے فراز اب کے لکھا ہے
رادھا کو کبھی کرشن مراری نہیں بھولے
احمد فراز

دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 42
اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث
غمزہ ہائے دوست بعد از مرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث
سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث
ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث
ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
مصطفٰی خان شیفتہ

یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 227
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے
دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے
یقیں معزور ہے اب اور گماں بھی
بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے
وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی
شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے
مرے پاس آکے خنجر بھونک دے تُو
بہت نیزہ کزاری ہو گئی ہے
جون ایلیا

ہم نے تیری نظر اتاری دوست

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 141
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست
ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے
وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا
شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا
میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں
اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے
اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں
بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں
کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں
ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج
اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی
برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر
تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں
کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے
ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید
میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
منصور آفاق