ٹیگ کے محفوظات: تمنا

کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 100
ہم اپنے آپ میں گم تھے ہمیں خبر کیا تھی
کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی
وفا پہ سخت گراں ہے ترا وصالِ دوام
کہ تجھ سے مل کے بچھڑنا مری تمنا تھی
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد اب معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
خوشا وہ دل جو سلامت رہے بزعمِ وفا
نگاہِ اہلِ جہاں ورنہ سنگِ خارا تھی
دیارِ اہلِ سخن پر سکوت ہے کہ جو تھا
فراز میری غزل بھی صدا بصحرا تھی
احمد فراز

تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 10
تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اک بوند
دل میں اک لہر اٹھی، آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب، کوئی ماہیِ بے آب ہوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا، یا برسا
ابر و باراں کے خدا، جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنا برسا
اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فراز
اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
احمد فراز

وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 33
پیشِ ساحل اِک ہجومِ موجِ دریا ہو گیا
وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا
کاٹنی ہی کیا شبِ ہستی سَرائے دہر میں
اِک ذرا سی آنکھ جھپکائی سویرا ہو گیا
کچھ مری خاموشیاں ان کی سمجھ میں آ گئیں
کچھ میری آنکھوں سے اظہارِ تمنا ہو گیا
نزع کے عالم میں قاصد لے کے جب آیا جواب
ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا ہو گیا
آپنے سر پر موجِ طوفاں بڑھا کہ لیتی ہے قدم
میرا بیڑا قابلِ تعظیمِ دریا ہو گیا
دیکھ لینا یہ ستم اک دن مٹا دیں گے مجھے
تم یہ کہتے ہوے رہ جاؤ گے کیا ہو گیا
ساحلِ امید وعدہ اب تو چھوڑو اے قمر
غرقِ بحرِ آسماں ایک ایک تارا ہو گیا
قمر جلالوی

رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 51
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر
ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر
خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر
سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر
ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر
ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر
اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر
میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر
التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر
دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر
بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر
پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر
یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر
ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
مصطفٰی خان شیفتہ

اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 193
اخلاق نہ برتیں گے مدارا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے
کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے
کم گوئی کہ اک وصف حماقت ہے ہر طور
کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے
اب سہل پسندی کو بنائیں گے وتیرہ
تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے
غصہ بھی ہے تہذیب تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے
جون ایلیا

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 56
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، مروّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
جون ایلیا

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 234
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستئِ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گِھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیو ں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانئِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں، لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 224
آ ئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہِ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے
سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے
وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ، دریا کہیں جسے
درکار ہے شگفتنِ گلہائے عیش کو
صبحِ بہار پنبۂ مینا کہیں جسے
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کو ئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
مرزا اسد اللہ خان غالب

مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 214
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے
یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالب کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 121
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہو تم سو دل کا مداوا کریں

دیوان چہارم غزل 1458
تھکے چارہ جوئی سے اب کیا کریں
کہو تم سو دل کا مداوا کریں
گلستاں میں ہم غنچہ ہیں دیر سے
کہاں ہم کو پروا کہ پروا کریں
نہیں چاہتا جی کچھ اب سیر ہیں
ہوس دل کو ہو تو تمنا کریں
بخود جستجو میں نہ اس کی رہے
ہم آپھی ہیں گم کس کو پیدا کریں
غضب ہے یہ انداز رفتار عشق
چلے جائیں جی ہم تماشا کریں
بلا شور ہے سر میں ہم کب تلک
قیامت کا ہنگامہ برپا کریں
کہیں دل کی مرغان گلشن سے کیا
یہ بے حوصلہ ہم کو رسوا کریں
کھپا عشق کا جوش دل میں بھلا
کہ بدنام ہوویں جو سودا کریں
برے حال اس کی گلی میں ہیں میر
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
میر تقی میر

جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں

دیوان سوم غزل 1200
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں
جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں
نفاق مردماں عاجز سے ہے زعم تکبر پر
کہوں کیا اتفاق ایسا بھی ہوجاتا ہے دنیا میں
نموداری ہماری بے کلی سے ایک چشمک ہے
ٹھہرنا برق سا اپنا ہے ہوچکنا اسی جا میں
سخن دس پانچ یاں ہیں جمع کس حسن لطافت سے
تفاوت ہے مرے مجموعہ و عقد ثریا میں
کنواں دیکھا نہ کوئی غار میں نے شوق کے مارے
بعینہ راہ اندھا سا چلا اس کی تمنا میں
بہت تھا شور وحشت سر میں میرے سوچ نے تیری
لکھی تصویر تو زنجیر پہلے کھینچ لی پا میں
جدائی کے تعب کھینچے نہیں ہیں میر راضی ہوں
جلاویں آگ میں یا مجھ کو پھینکیں قعر دریا میں
میر تقی میر

دخل عقل اس مقام میں کیا ہے

دیوان دوم غزل 1028
شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
دل میں پھرتے ہیں خال و خط و زلف
مجھ کو یک سر ہزار سودا ہے
شور بازار میں ہے یوسفؑ کا
وہ بھی آ نکلے تو تماشا ہے
برچھیوں میں کہیں نہ بٹ جاوے
دل صفوف مژہ میں تنہا ہے
نظر آئے تھے وے حنائی پا
آج تک فتنہ ایک برپا ہے
دل کھنچے جاتے ہیں اسی کی اور
سارے عالم کی وہ تمنا ہے
برسوں رکھا ہے دیدئہ تر پر
پاٹ دامن کا اپنے دریا ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی دامن وسیع صحرا ہے
دلکشی اس کے قد کی سی معلوم
سرو بھی اک جوان رعنا ہے
دست و پا گم کیے ہیں تو نے میر
پیری بے طاقتی سے پیدا ہے
میر تقی میر

رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو

دیوان اول غزل 387
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو
رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو
سب ہیں دیدار کے مشتاق پر اس سے غافل
حشر برپا ہو کہ فتنہ اٹھے آیا کیا ہو
خاک حسرت زدگاں پر تو گذر بے وسواس
ان ستم کشتوں سے اب عرض تمنا کیا ہو
گر بہشت آوے تو آنکھوں میں مری پھیکی لگے
جن نے دیکھا ہو تجھے محو تماشا کیا ہو
شوق جاتا ہے ہمیں یار کے کوچے کو لیے
جاکے معلوم ہو کیا جانیے اس جا کیا ہو
ایک رونا ہی نہیں آہ و غم و نالہ و درد
ہجر میں زندگی کرنے کے تئیں کیا کیا ہو
خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہائوں میں میر
یار مستغنی ہے اس کو مری پروا کیا ہو
میر تقی میر

زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

دیوان اول غزل 225
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر
ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر
گرو مے ہوں آئو شیخ شہر
ابر جھوما ہی جا ہے صحرا پر
دل پر خوں تو تھا گلابی شراب
جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر
یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے
سات پردے ہیں چشم بینا پر
فرصت عیش اپنی یوں گذری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر
طارم تاک سے لہو ٹپکا
سنگ باراں ہوا ہے مینا پر
میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
میر تقی میر

کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 35
چہرہ اداس اداس تھا، میلا لباس تھا
کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
عریاں، زمانہ گیر، شررگوں جبلتیں
کچھ تھا تو ایک برگ دِل ان کا لباس تھا
اس موڑ پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا؟
سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا
یادوں کے دھندلے دیس! کھلی چاندنی میں رات
تیرا سکوت کس کی صدا کا لباس تھا؟
ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں پرکھا تو ان کی روح
بےپیرہن تھی، جسم سراپا لباس تھا
صدیوں کے گھاٹ پر، بھرے میلوں کی بھیڑ میں
اے دردِ شادماں، ترا کیا کیا لباس تھا
دیکھا تو دل کے سامنے، سایوں کے جشن میں
ہر عکسِ آرزو کا انوکھا لباس تھا
امجد، قبائے شہ تھی کہ چولا فقیر کا
ہر بھیس میں ضمیر کا پردا لباس تھا
مجید امجد

بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 551
کوئی کہیں نہیں ترے جیسا کہیں جسے
بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے
یہ دل ہے انتظار کا جلتا ہوا ا دیا
یہ چشم وہ مزارِ تمنا کہیں جسے
ہے مظہرِ جمال خدا پرتوِ صفات
وہ آئینہ کہ تیرا سراپا کہیں جسے
شیخِ حرم کو آج تک آیا نہیں خیال
طیبہ کی اک گلی ہے وہ عقبیٰ کہیں جسے
عرقاب روح و جسم اُس اسمِ خرام میں
منصورصبحِ عرش کا دریا کہیں جسے
منصور آفاق

اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 532
دشت کو ابر نہ دے ، دھوپ پہ سایہ نہ کرے
اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے
ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے
اپنے کمرے کا کوئی، بلب بجھایا نہ کرے
میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے
کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے
روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے
میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے
حافظہ ایک امانت ہی سہی اس کی مگر
وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
شب کبھی وصل کی دے وہ تو گھڑی بھر کی ہو
رات ہجراں کی جو آئے تو سویرا نہ کرے
بال بکھرائے ہوئے درد کے خالی گھر میں
یاد کی سرد ہوا شام کو رویا نہ کرے
چھو کے بھی دیکھنا چاہتی ہیں یہ پوریں اس کو
آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے
منصور آفاق

درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 40
دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟
درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے
حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول
آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے
ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے
ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!
ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے
امیر مینائی

جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 261
دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
جذب دل کے کوئی معنی نہ رہے
کس سے عجز لب گویا کہیے
کوئی آواز بھی آواز نہیں
دل کو اب دل کی تمنا کہیے
اتنا آباد کہ ہم شور میں گم
اتنا سنسان کہ صحرا کہیے
ہے حقیقت کی حقیقت دنیا
اور تماشے کا تماشا کہیے
لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں
شہر کو شہر کا نقشہ کہیے
خون دل حاصل نظارہ ہے
نگہ شوق کو پردا کہیے
شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے
اسے انداز صبا کا کہیے
دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ
چشم نرگس کو بھی بینا کہیے
باقی صدیقی

تصویر کا رُخ ایک ہی رہتا ہے سامنے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 225
اپنی نظر کے دام سے نکلے نہ ہم کہیں
تصویر کا رُخ ایک ہی رہتا ہے سامنے
سر پھوڑتا کہ دل کا سکوں دیکھتا کوئی
دیوار سامنے کبھی سایہ ہے سامنے
ہے موت کا خیال بھی کس درجہ دلخراش
اور صورت حیات بھی کیا کیا ہے سامنے
یہ خار ہے کہ تیرِ غم زندگی کوئی
یہ پھول ہے کہ اپنی تمنا ہے سامنے
باقی صدیقی

دنیا بقدر خون تمنا ہے سامنے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 224
قطرہ ہے سامنے کہیں دریا ہے سامنے
دنیا بقدر خون تمنا ہے سامنے
اک آن میں حیات بدلتی ہے اپنا رنگ
اک دور کی طرح کوئی آتا ہے سامنے
آنکھوں میں ہے کھچی ہوئی تصویر خون دل
ہم دیکھتے نہیں وہ تماشا ہے سامنے
ہم ڈھونڈنے لگے کوئی دل عافیت مقام
ہر چند تیرے شہر کا نقشہ ہے سامنے
اٹھیں تو راستہ نہ دے بیٹھیں تو بار ہو
کچھ اس طرح اک آدمی بیٹھا ہے سامنے
جوش جنوں سے ربط وہ باقیؔ نہیں مگر
کیا دل کا اعتبار کہ صحرا ہے سامنے
باقی صدیقی

یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 217
سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے،کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رُخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
دیکھتے رہتے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
باقی صدیقی

ہے بات یہی دل میں تو اچھا کہہ دے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 199
تو عرض تمنا کو بھی جھگڑا کہہ دے
ہے بات یہی دل میں تو اچھا کہہ دے
انصاف کتابوں میں بھلا لگتا ہے
مجرم ہے وہ مجرم جسے دنیا کہہ دے
گلشن میں بہاروں کی نہیں کوئی کمی
ہاں ہاتھ نہ کچھ آئے تو صحرا کہہ دے
تو دوش ہوا پر ہے تری بات ہے کیا
جو حادثہ ہو اس کو تماشا کہہ دے
دنیا کسی نسبت سے مجھے یاد رکھے
دشمن ہوں تو دشمن مجھے اپنا کہہ دے
یہ سوچ کے ہر بات میں کہہ دیتا ہوں
شاید تو کبھی بھول کے اچھا کہہ دے
اس شخص کی باتوں کا بھروسہ باقیؔ
جو رجم کو بھی دل کی تمنا کہہ دے
باقی صدیقی

درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 118
موج ہاتھ آئے تو دریا مانگیں
درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں
کیا ملا انجمن آرائی سے
کیسے تنہائی سے رستہ مانگیں
دست کوتاہ نہیں دست طلب
مانگنے والوں سے ہم کیا مانگیں
دل کو غم ہائے جہاں سے فرصت
تجھ سے کیا تیری تمنا مانگیں
کس قدر تاب نظر ہے کس کو
کس لئے دیدہ بینا مانگیں
شہر کا شہر کڑی دھوپ میں ہے
کس کی دیوار سے سایہ مانگیں
کبھی قطرے کو بحسرت دیکھیں
کبھی دریا سے نہ قطرہ مانگیں
کبھی اک ذرے میں گم ہو جائیں
کبھی ہم وسعت صحرا مانگیں
تاب نظارا نہیں ہے باقیؔ
پھر بھی ہم طرفہ تماشا مانگیں
باقی صدیقی

جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 94
ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو
وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں
کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو
رنگ ساحل کا نکھر آئے گا
دو گھڑی جانب دریا دیکھو
تلملا اٹھا گھنا سناٹا
پھر کوئی نیند سے چونکا دیکھو
ہمسفر غیر ہوئے جاتے ہیں
فاصلہ رہ گیا کتنا دیکھو
برف ہو جاتا ہے صدیوں کا لہو
ایک ٹھہرا ہوا لمحہ دیکھو
رنگ اڑتے ہیں تبسم کی طرح
آئنہ خانوں کا دعویٰ دیکھو
دل کی بگڑی ہوئی صورت ہے جہاں
اب کوئی اور خرابہ دیکھو
یا کسی پردے میں گم ہو جاؤ
یا اٹھا کر کوئی پردہ دیکھو
دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
سادہ کاغذ کی طرح دل چپ ہے
حاصل رنگ تمنا دیکھو
یہی تسکین کی صورت ہے تو پھر
چار دن غم کو بھی اپنا دیکھو
غمگساروں کا سہارا کب تک
خود پہ بھی کر کے بھروسہ دیکھو
اپنی نیت پہ نہ جاؤ باقیؔ
رُخ زمانے کی ہوا کی دیکھو
باقی صدیقی