مُرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سُورج ہوں ‘ میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اُڑا ہوں ‘ مجھے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی‘ اس شاہ کار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ‘ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
کیا شاخِ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اُٹھا شکیبؔ‘ کبھی سامنے بھی دیکھ
شکیب جلالی