ٹیگ کے محفوظات: تری

کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف

بادل ہے اور پھول کھِلے ہیں سبھی طرف
کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف
تیور بہت خراب تھے سنتے ہیں کل ترے
اچھا ہُوا کہ ہم نے نہ دیکھا تِری طرف
جب بھی مِلے ہم اُن سے اُنہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
اے دل یہ دھڑکنیں تِری معمول کی نہیں
لگتا ہے آ رہا ہے وہ فِتنہ اِسی طرف
خوش تھا کہ چار نیکیاں ہیں جمع اُس کے پاس
نکلے گناہ بیسیوں اُلٹا مِری طرف
باصرِؔ عدو سے ہم تو یونہی بدگماں رہے
تھا اُن کا اِلتفات کسی اور ہی طرف
باصر کاظمی

یاد آئے گی اب تری کب تک

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 80
خون تھوکے گی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک
جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
رہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
پیے جاؤں میں خون ہی کب تک
دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک
جس میں تھا سوزِ آرزو اس کا
شبِ غم وہ ہوا چلی کب تک
بنی آدم کی زندگی ہے عذاب
یہ خدا کو رُلائے گی کب تک
حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک
ہے جہنم جو یاد اب اس کی
وہ بہشتِ وجود تھی کب تک
وہ صبا اس کے بِن جو آئی تھی
وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک
میر جونی! ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک
حالِ صحنِ وجود ٹھیرے گا
تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک
جون ایلیا

ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز

دیوان چہارم غزل 1395
دیوانگی کی ہے وہی زور آوری ہنوز
ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز
سر سے گیا ہے سایۂ لطف اس کا دیر سے
آنکھوں ہی میں پھرے ہے مری وہ پری ہنوز
شوخی سے زارگریہ کی خوں چشم میں نہیں
ویسی ہی ہے مژہ کی بعینہ تری ہنوز
کب سے نگاہ گاڑے ہے یاں روز آفتاب
ہم دیکھے ہیں جہاں کے تئیں سرسری ہنوز
مبہوت ہو گیا ہے جہاں اک نظر کیے
جاتی نہیں ان آنکھوں سے جادوگری ہنوز
ابر کرم نے سعی بہت کی پہ کیا حصول
ہوتی نہیں ہماری زراعت ہری ہنوز
مدت سے میر بے دل و دیں دلبروں میں ہے
کرتا نہیں ہے اس کی کوئی دلبری ہنوز
میر تقی میر

مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے

دیوان دوم غزل 979
کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے
مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے
سبزان چمن ہوویں برابر ترے کیوں کر
لگتا ہے ترے سائے کو بھی ننگ پری سے
ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک
مارے گئے ہیں لوگ بہت بے خبری سے
ایک آن میں رعنائیاں تیری تو ہیں سو سو
کب عہدہ برآئی ہوئی اس عشوہ گری سے
زنجیر تو پائوں میں لگی رہنے ہمارے
کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے
جب لب ترے یاد آتے ہیں آنکھوں سے ہماری
تب ٹکڑے نکلتے ہیں عقیق جگری سے
عشق آنکھوں کے نیچے کیے کیا میر چھپے ہے
پیدا ہے محبت تری مژگاں کی تری سے
میر تقی میر

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

دیوان اول غزل 11
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بے داد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گذرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا
کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جاکر
تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا
میر تقی میر

سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 180
پرند نامہ بری میں کہاں سے آتے ہیں
سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں
ہمیں بھی یاد نہیں ہے کہ ہم شرر کی طرح
ہوا کی ہم سفری میں کہاں سے آتے ہیں
مسافتیں کوئی دیکھے کہ ہم سرابوں تک
گمانِ خوش نظری میں کہاں سے آتے ہیں
گھروں میں آنکھیں‘ دروں میں چراغ جلتے ہوئے
یہ خواب دربدری میں کہاں سے آتے ہیں
یہ کون جادۂ گم گشتگاں اجالتا ہے
فرشتے دشت و تری میں کہاں سے آتے ہیں
اگر تراوشِ زخم جگر نہیں کوئی چیز
تو رنگ بے ہنری میں کہاں سے آتے ہیں
عرفان صدیقی