ٹیگ کے محفوظات: ترجمانی

نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے
مگر تنہائیوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے
چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں
تمھارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے بھی
ہمارے حال پر یہ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
تمھاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے مجھے ورنہ
وہ موسم، وہ فضا، وہ رُت سُہانی اب بھی ہوتی ہے
زمانہ دل کی باتوں کو کبھی کُھل کر نہیں کہتا
بہ اندازِ شکایت قدردانی اب بھی ہوتی ہے
نکل آیا زمان و آشیاں کی قید سے لیکن
بقا کی رَہ میں حائل زندگانی اب بھی ہوتی ہے
شکیب جلالی

یار لوگوں کی زبانی اور ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 144
ہم سنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
چارہ گر روتے ہیں تازہ زخم کو
دل کی بیماری پرانی اور ہے
جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا
ترجماں کی ترجمانی اور ہے
ہے بساطِ دل لہو کی اک بوند
چشمِ پر خوں کی روانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے سنانی اور ہے
آبِ زمزم دوست لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں‌ وہ پانی اور ہے
سب قیامت قامتوں کو دیکھ لو
کیا مرے جاناں کا ثانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تری سادہ بیانی اور ہے
احمد فراز

فلم جاری ہے کہانی ختم شد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 156
زندگی! اب زندگانی ختم شد
فلم جاری ہے کہانی ختم شد
رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں
آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد
کر رہا ہوں شام سے فکرِ سخن
یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد
میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر
لامکاں کی لامکانی ختم شد
رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر
پانیوں کی بھی روانی ختم شد
چھوڑ آیا ہوں میں شورِ ناتمام
گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد
اور باقی ہیں مگر امید کی
اک بلائے ناگہانی ختم شد
آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے
بارشوں کی بے زبانی ختم شد
دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے
اب گلی کی پاسبانی ختم شد
آ گئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا
جو تھا سوچا ، جو تھی ٹھانی ختم شد
بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے
سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد
اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں
یار کی بھی مہربانی ختم شد
اب مرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس
ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد
وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا
وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد
اک تکلم اک تبسم کے طفیل
میرا شوقِ جاودانی ختم شد
آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات
میرے دل کی بے کرانی ختم شد
اک مجسم آئینے کے سامنے
آرزو کی خوش بیانی ختم شد
لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے
چیختے روتے معانی ختم شد
کچھ ہوا ایسا ہوا کے ساتھ بھی
جس طرح میری جوانی ختم شد
اہم اتنا تھا کوئی میرے لیے
اعتمادِ غیر فانی ختم شد
دشت کی وسعت جنوں کو چاہیے
اس چمن کی باغبانی ختم شد
اپنے بارے میں کروں گا گفتگو
یار کی اب ترجمانی ختم شد
ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ
سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد
منصور آفاق